پنجابی کا محاورہ یہ ہے: سونے والوں کو جگایا جا سکتا ہے، جاگتے آدمی کو کبھی نہیں۔
2008ء کے الیکشن سر پہ آن پہنچے تو اچانک ایک دن پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا: کیا آپ شیخ رشید کے حلقے کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ درویش حکم نہیں دیا کرتے۔ نرمی اور رسان سے فرمائش کرتے ہیں۔ سیاست ان کے لیے بہت سے موضوعات میں سے ایک موضوع ہوتا ہے۔ وہ اس کا غم نہیں پالتے۔ زندگی کو زمین سے نہیں، وہ آسمان سے دیکھتے ہیں۔ اپنے عہد کا علمی رہنما وہ ہوتا ہے، ماضی کو جو سمجھتا ہو، حال میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب دیتا اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جاتا ہے۔ یہ سوال اقبالؔ کے ذہن میں تھا کہ کیا ان کے بعد کوئی ایسا شخص آئے گا؟ اسی لیے دمِ آخر انہوں نے یہ کہا تھا ؎
سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نے آید
اس فقیر کا وقت تمام ہوا۔ دوسرا دانائے راز آئے گا یا نہیں؟ وہ لوگ جو حیات، کائنات اور اس کے خالق کو سمجھتے ہیں۔ قدرتِ کاملہ کے ہمیشہ برقرار رہنے والے قوانین کو، جو کبھی نہیں بدلتے۔
چند روز بعد ان سے عرض کیا ''شیخ رشید کھیل سے باہر ہیں‘‘۔ اس پر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا تو گزارش کی: ان کے حلقۂ انتخاب کے لوگوں سے پوچھا ہے۔ ہر دس میں سے نو آدمیوں کا جواب یہ تھا ''شیخ نوں ووٹ نہ دیساں‘‘ لال مسجد کی وجہ سے لوگ نالاں ہیں اور بہت نالاں۔ درآں حالیکہ شیخ صاحب نے اپنے حلقے کے لوگوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
دس گنا ووٹ لے کر جاوید ہاشمی نے شیخ صاحب کو ہرا دیا۔
ابھی ابھی دنیا ٹی وی کے ایک ناظر کا پیغام موصول ہوا ہے۔ سخت برہمی کے عالم میں اس نے لکھا: آپ نے علی ترین کے کامیاب ہونے کی خوشخبری دی تھی اور پورے وثوق کے ساتھ۔ حیراں ہوں، دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔ تجزیہ کاری آپ کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے کہ آپ جانبدار ہیں۔ عام طور پر اس طرح کے پیغامات میں نظر انداز کرتا ہوں لیکن ان صاحب کو میں نے لکھا ''اس قدر برہم آپ کیوں ہیں؟ کیا مجھ اکیلے کا اندازہ غلط ثابت ہوا یا تمام اخبار نویسوں کا؟‘‘
بیس پچیس دن ہوتے ہیں، جہانگیر خان ترین سے میں نے فرمائش کی کہ اپنے ساتھ لودھراں مجھے لے جائیں۔ مرتب آدمی نے وعدہ کیا‘ بعد ازاں ان کے ایما پر کسی نے رابطہ بھی۔ میرا خیال تھا کہ کسی وقت اسلام آباد یا لاہور سے اپنے جہاز میں مجھے ساتھ لے جائیں گے۔ کار میں تو یہ سفر تھکا دینے والا ہے۔ لودھراں اگر میں جا سکتا، قاعدے سے منتخب آبادیوں کا تعین کرتا۔ کم از کم ایک پورا دن ووٹروں کے درمیان بتا سکتا تو ممکن ہے، درست اندازہ قائم کرنے میں کامیاب رہتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے باوجود اندازے کی وہ غلطی سرزد ہو جاتی، سبھی جس کے مرتکب ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان میں سے بعض نے قدرے احتیاط برتی اور اپنے اندازے پر زیادہ اصرار سے گریز کیا۔
اس اثنا میں لاہور اور ملتان سے لودھراں کا دورہ کرنے والے جن اخبار نویسوں سے رابطہ رہا، سبھی علی ترین کی بالاتری پر متفق تھے؛ حتیٰ کہ باریک بیں اور محتاط خالد مسعود کے علاوہ، تحریکِ انصاف کے ساتھ ہر حال میں انصاف کرنے والے حبیب اکرم بھی۔ ان صاحب سمیت، جن کا حوالہ دیا ہے، تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی ناراضی اس ناچیز سے زیادہ ہے۔ شاید اس لیے بھی کہ نا صرف تحریکِ انصاف میرا موضوع ہے بلکہ یوں بھی کہ طویل عرصے تک کپتان سے ذاتی مراسم رہے، جن سے موصوف اب اکتا چکے اور تھوڑا سا میں بھی۔
شاعر منصور آفاق ابھی ابھی میرے ساتھ تھے۔ پچھلے چند روز سے ہم دونوں بدلتے ہوئے بلوچستان کے بارے میں ایک ڈرامے کے سکرپٹ پہ کام کر رہے ہیں۔ میرے لیے تو یہ ایک چیلنج ہے لیکن منصور آفاق اس دریا کے شناور ہیں۔ اس موضوع پر ہونے والی ایک طویل بحث کے بعد وہ تو آسودہ تھے لیکن میں تھوڑے سے تنائو کا شکار۔ منصور آفاق کا تعلق میانوالی سے ہے۔ ڈاکٹر شیر افگن مرحوم ان کے ذاتی دوست تھے۔ ضلع میانوالی کی سیاست کو اس طرح وہ سمجھتے ہیں، جس طرح کوئی اپنے ہاتھ کی لکیروں کو۔ ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ انہوں نے سنایا: 2013ء کا الیکشن جیتنے کے بعد عمران خاں نے میانوالی کی سیٹ خالی کرنے کا فیصلہ کیا تو منصور آفاق اپنے بھتیجے امجد نیازی کے پاس گئے۔ پورے خاندان کی ناراضی مول لے کر جنہیں عمران خاں نے تحریکِ انصاف کا ٹکٹ دیا اور وہ ظفر مند رہے تھے۔ باپ کی وراثت کے علاوہ انہیں تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی کافی تائید بھی حاصل ہے کہ باپ کی طرح گھلنے ملنے والے آدمی ہیں۔ منصور آفاق نے ان کے کان میں کہا کہ عمران خاں سے ہارنے والے ارب پتی امیدوار شادی خیل تحریکِ انصاف میں شامل ہونے پر آمادہ ہیں۔ اس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ عمران خان اگر مہربانی کریں تو نہایت آسانی سے وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو سکتے ہیں۔ منصور آفاق بہت پرجوش تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اوّل تو وہ شمولیت کا اعلان کریں۔ پھر ایک شاندار تقریب میں عمران خاں انہیں امیدوار نامزد کریں۔
امجد خان منصور آفاق سے بھی زیادہ پرجوش آدمی ہیں۔ تازہ خیالات کو قبول کرنے والے۔ بھاگم بھاگ بنی گالہ پہنچے۔ لوٹ کر آئے تو منہ لٹکا ہوا تھا۔ ان کی بات ماننے سے کپتان نے انکار کر دیا تھا۔ کہا: عائلہ ملک سے میں وعدہ کر چکا ہوں۔ عائلہ ملک وزیر رہ چکی تھیں اور مشہور کالا باغ خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ مسائل دو تھے۔ اوّل یہ کہ کالا باغ خاندان والے خلق سے گریز کرتے ہیں۔ ثانیاً تحریکِ انصاف کے کارکن ہی نہیں، نیازی قبیلے کی اکثریت ان کے لیے نفرت کے جذبات رکھتی تھی۔ ان کے جدِ امجد نواب امیر خاں جب تک پنجاب کے گورنر رہے، علاقے پہ دہشت طاری کیے رکھی۔ عائلہ ملک کے کاغذات مسترد ہو گئے۔ منصور آفاق اور امجد خان اب شاد تھے۔ امجد خاں ایک بار پھر بنی گالہ گئے۔ شادی خیل کو ٹکٹ جاری کرنے میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی تھی۔ یا للعجب، اس کے باوجود وہ ناکام لوٹے۔ کپتان نے عائلہ ملک کے تجویز کردہ کسی ناکردہ کار کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ بری طرح اسے ہارنا تھا۔
تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے کل سے میری زندگی عذاب کر رکھی ہے: تم جاتے اور عمران خاں کو سمجھاتے کیوں نہیں؟ مودبانہ عرض ہے کہ بائیس برس میں کہنے سننے کی ہر بات یہ ناچیز عمران خاں اور تحریکِ انصاف کے لیڈروں کو بتا چکا۔ بعض اوقات وہ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ بعض اوقات اتفاق کرتے، نہایت جوش و جذبے سے عمل کا وعدہ کرتے ہیں۔ نہایت رسان سے پھر بھول جاتے ہیں۔
الحمد للہ کبھی یہ خناس میرے ذہن میں پیدا نہیں ہوا کہ سیاست کے اسرار و رموز سے واقف ہوں۔ ہاں مگر ایک چیز بہت پہلے دریافت کر لی تھی۔ مشورہ ہمیشہ ماہرین اور دانائوں سے کرنا چاہیے۔ ہر اخبار نویس احتیاج مند ہوتا ہے۔ اس لیے کہ متنوع موضوعات پر اسے لکھنا ہوتا ہے۔ جلد ہی اس قدیم عرب محاورے کا مفہوم ان پہ روشن ہو جاتا ہے۔ السعید من وعظ بغیرہ۔ ہوش مند وہ ہے، جو دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرے۔ بیس پچیس صفحے کی ایک دستاویز میں تحریکِ انصاف کی تمام غلطیوں اور ایک لائحۂ عمل کی تدوین ممکن ہے۔ اس طالبِ علم کے مقابلے میں بہت سے لوگ کہیں بلند اور بہتر معیار سے یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن کوئی سنے بھی۔
پنجابی کا محاورہ یہ ہے: سونے والوں کو جگایا جا سکتا ہے، جاگتے کو کبھی نہیں۔