آزادی ، آزادوں کو نصیب ہوتی ہے ، غلاموں کو نہیں ، رعایا کو نہیں۔
میاں محمد شہباز شریف کی آرزو بر آئی ، صدر ہو گئے ۔ بڑے بھائی نے اعلان کر دیا۔ پارٹی کی منظوری باقی ہے لیکن ظاہر ہے کہ رسمی ہی ۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ۔
لوڈ شیڈنگ ختم ہو چکی ۔ جشن بھی منایا جا چکا لیکن اسی دن سے اخبار نویسوں کی اس کالونی میں لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی ۔ ٹی وی کھولا تو بتی چلی گئی ۔ ملک بھر میں جب تک لوڈ شیڈنگ رہی ، میڈیا ٹائون اسلام آباد میں شاذ ہی کبھی چراغ بجھے ہوں گے ۔ بعد از وقت ہی سہی ، یہ غالباً تلافیٔ مافات کی کوشش ہے؛ لہٰذا اس پر شکایت کا کوئی جواز نہیں ۔
خبر خود نہیں سنی ۔ سننے والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ خاندان کا مختصر سا اجتماع ہوا۔ جنابِ حمزہ شہباز شریف، محترمہ مریم نواز ، میاں شہباز شریف، میاں محمد نواز شریف اور ان کے دو ذاتی وفادار‘ رانا ثناء اللہ اور آصف کرمانی۔ تصویر جنہوں نے دیکھی ہے ، ان کا کہنا یہ ہے کہ دونوں بھائی اداس نظر آئے اور دونوں ولی عہد کھنچے کھنچے ۔ جن کی رسائی ہے ، ان اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ کچھ اختیارات سے بڑے بھائی کو دستبردار ہونا پڑا ۔ میاں شہباز شریف کو پورے اختیارات نہیں ملے ۔ دونوں کی اداسی فطری ہے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے شہباز شریف کے ایک سیاسی لنگوٹیے سے ملاقات ہوئی ۔ پریشان تھے ۔ کہا کہ کوئی مسافر دو کشتیوں میں سوار نہیں ہوا کرتا ۔
ظاہر ہے کہ شہباز شریف کی وفاداری پہ بھائی کو یقین ہے اور پختہ پیمان ہوا ہے تو فیصلہ ہوا‘ ورنہ تو شہر شہر دخترِ نیک اختر کی تاج پوشی تھی ۔ جشن جاری رہتا مگر بادشاہوں کی مجبوریاں بڑی ہوتی ہیں۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جملہ ذہن میں گونجتا رہا، ثقیفہ بنو سعدہ میں جو انہوں نے اس تجویز پر کہا تھا کہ رسولِ اکرمؐ کے دو خلیفہ مقرر کر دیے جائیں ۔ ایک قریش اور دوسرا انصار میں سے ۔ فرمایا : اونٹ کی ناک میں دو نکیلیں نہیں پہنائی جاتیں ۔ پھر آپؓ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سیدنا ابو بکرصدیقؓ کے ہاتھ پہ رکھ دیا ۔
اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ''و امرھم شوریٰ بینہم‘‘ لیکن لیڈر بہرحال ایک ہوتا ہے ۔ آئین بھی ایک ہی ہوتا ہے اور اس کی تشریح بھی ۔ چودہ سو سال بیتنے کو آئے ۔ اللہ کا حکم مسلمانوں نے بھلا دیا ۔ لیڈر تو اکثر ایک ہی ہوتا ہے ، فیصلے مگر مشورے سے نہیں ہوتے ۔ دو اڑھائی سو سال کی جدید جمہوری تاریخ میں، یہ لطیفہ پاکستان ہی میں ہوا۔ قومی اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم پیش کی گئی تھی : وزیرِ اعظم پاکستان کو آئین کا کوئی بھی حصہ معطل کرنے کا اختیار دیا جائے ۔ پائوں ابھی جمے نہ تھے ۔ خورشید محمود قصوری سمیت چند سر پھرے ایوان میں موجود تھے؛ لہٰذا دو تہائی اکثریت کے باوجود یہ ترمیم تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دی گئی ۔
اب دوسرا لطیفہ ہے ۔ تا حیات میاں محمد نواز شریف نون لیگ کے قائد ہیں۔ ہماری تاریخ میں دو ہی قائد ہو گزرے ہیں ۔ ایک اے این پی کے عبدالولی خان اور دوسرے الطاف حسین۔ اے این پی میں طے شدہ ہے کہ پارٹی کا سربراہ باچا خان کے خاندان میں سے ہو گا ۔ باپ بیٹا اور اب پوتا ۔ بیچ میں کچھ دن باچا خان کی بہو نسیم عبدالولی خاں تخت پہ براجمان رہیں‘ اور پھر اجمل خٹک ۔ دونوں بار یہ تجربہ ناکام رہا ۔ دونوں کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ۔ ربع صدی ہوتی ہے، پشاور کے ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا ۔ از راہِ مزاح مسافر نے سوال کیا کہ اسفند یار ولی خاں کے بعد سیلابِ بلا کس کے گھر جائے گا ۔ غالباً یہ حاجی عدیل تھے ۔ نہایت محکم لہجے میں انہوں نے کہا : اللہ کے فضل سے اسفند یار کی اولاد سلامت ہے ۔ اللہ انہیں سلامت رکھے اور ان کے سروں پہ وہ تاج جگمگائے ، جو ایک صدی پہلے عبدالغفار خاں نے اپنی تگ و دو سے حاصل کیا تھا ۔
سرحدی گاندھی پہ ہی کیا موقوف ۔ بلوچستان کے گاندھی ، عبدالصمد اچکزئی کے فرزند محمود خاں اچکزئی پوری تب و تاب سے بروئے کار ہیں۔ زندگی میں پہلی بار حکومت میں حصہ پایا تو ایوانِ اقتدار کو رشتے داروں سے بھر دیا ۔ وہ صرف جمہوریت ہی نہیں ، ترقی پسندی کے علمبردار بھی ہیں ۔ روشن خیالی ان کے گھر کی لونڈی ہے ۔ اب یہ شیرکی مرضی ہے کہ بچہ دے یا انڈا۔ شیرِ نیستاں، حفیظ اللہ نیازی کے چچا مولانا عبدالستار خاں نیازی مرحوم کے اعزہ و اقربا ایک واقعہ حضرت مولانا مفتی محمود مرحوم کے حوالے سے سناتے ہیں ۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے پیہم تگ و دو کرنے والے مولانا نیازی ، ڈیرہ اسمٰعیل خاں میں مفتی مرحوم سے ملنے گئے ۔ ایک نوجوان کمرے میں در آیا ۔ مفتی صاحب نے اسے نکال باہر کیا۔ کچھ دیر میں وہ پھر لوٹ آیا ، پھر بھگا دیا ۔ حیرت کے ساتھ مہمان نے پوچھا تو آپ نے کہا : میرا بیٹا ہے ۔ ایجنسیوں کی مخبری فرماتا ہے ۔ یہ مولانا فضل الرحمٰن تھے ۔ مفتی صاحب دنیا سے اٹھے تو پارٹی کی عنان عالی جناب نے سنبھالی ۔ مرحوم نے کوئی اعلان کیا تھا اور نہ وصیت چھوڑی تھی؛ چنانچہ اعتراض بھی وارد نہیں ہوتا ۔ رعایا نے خود ہی سر جھکا دیا تو شہزادہ کیا کرتا ۔ سند موجود تھی ۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے جانشین بھی ان کے فرزندِ ارجمند ہی ہوئے تھے ۔ انہی کے دور میں کانگریس کی پون صدی کی رفاقت چھوڑ کر دیو بند نے جنتا پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔ یہاں پاکستان میں ان کے ہم نفسوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا ۔ ایک کے بعد دوسرے سے پیمان کیا اور اقتدار کے آخری دن تک نبھایا۔
کبھی حادثے بھی ہو جاتے ہیں ۔ الطاف حسین ملک سے باہر تھے ۔ نرینہ اولاد بھی نہ تھی ۔ اس پہ مستزاد یہ کہ دیوانگی کا دورہ پڑا ۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
اب ان کی سیاسی اولاد بے مہار ہے ۔ باپ کے پتوار بیٹے تب سنبھالتے ہیں ، اگر انہیں کبھی آزادیٔ عمل ملی ہو۔ یہ بیچارے تو اشارۂ ابرو کے غلام تھے اور اب ان کا حال وہ ہے کہ اظہارالحق کے ہزار باروں بار پڑھے گئے اسی شعر کو دہرانا پڑتا ہے ۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پر ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے مسلم لیگ کا تاحیات صدر بننے سے انکار کر دیا تھا لیکن محمد علی سے ہمیں کیا لینا دینا ۔ اصول کی بات ہو تو وہ وائسرائے تک کو ڈانٹ دیا کرتے ۔ ویول نے انہیں منصب سے لبھانے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر چل دئیے کہ آج کے بعد وائسرائے کے ہاں وہ نہیں آئیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ویول کو ہندوستا ن چھوڑ کر جانا پڑا۔ع
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
اقبالؔ اور جناح ؒ کی راہ ہم چلتے تو وہ سب معجزے برپا ہوتے ، جو آزادی میں ہوا کرتے ہیں۔ ساری دنیا کی طرح یہاں بھی جمہوری سیاسی جماعتیں ہوتیں ۔ نچلی سطح تک منظم ، ہر حلقے میں پارٹی کے کارکن امیدواروں کا فیصلہ کرتے ۔ منشور بناتے ، ترجیحات طے کرتے۔ انسانی صلاحیتوں کے سیلاب امنڈتے اور ایک جہانِ نو تعمیر کرتے۔ مگر ہم تو رعایا ہیں ، غلام ہیں ۔
آئے گا تو سہی مگر اللہ جانے ، وہ دن کب آئے گا ، جب سر اٹھا کر ہم کہہ سکیں گے ۔
فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا
بساطِ خاک سے اٹھنا ہمارا
آزادی، آزادوں کو نصیب ہوتی ہے ، غلاموں کو نہیں ، رعایا کو نہیں۔