"HRC" (space) message & send to 7575

تباہی کا راستہ

عربوں کا محاورہ یہ ہے: السّعید مَن وعظ بغیرہ۔ سعید وہ ہے‘ جو دوسروں کے تجربات سے سیکھ لے۔ حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے: انسانوں کو جو کچھ ملے گا‘ دانش کے ذریعے اور جو کچھ ان پر بیتے گی ان کی حماقتوں کے طفیل۔
جس پیمبرؐ نے چھری کی نوک اپنے بھائی کی طرف کرنے سے منع کیا تھا‘ اس کی امت میں ایک مقبول لیڈر کو جوتا رسید کرنے پہ لوگ شاد ہیں۔ ہاں! بخدا بے شمار شاد ہیں۔ سوشل میڈیا میں خلقِ خدا کا رجحان کیا ہے؟ نوے فیصد نے جواز کے دلائل تراشے۔
ایک جج صاحب تشریف فرما تھے۔ کچھ دیر پہلے ایک جج صاحب تشریف لائے۔ ایک واقعہ انہوں نے سنایا۔ تحریک انصاف کے ایک کارکن کو نون لیگ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے چرس کے کیس میں گرفتار کرا دیا۔ روکا‘ تلاشی کے ہنگام پولیس والوں نے چرس کا ایک پیکٹ گاڑی میں رکھ دیا۔ دوسرے ناکے پر کچھ اور پیکٹ۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے تین پولیس افسروں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ اکل کھرے عملیش خان انچارج بنائے گئے۔ صاف صاف اپنی رپورٹ میں انہوں نے لکھا کہ یہ فریب دہی کی واردات ہے۔ یاللعجب ایک کے بعد دوسری عدالت نے اس رپورٹ کو قبول کرنے سے انکار کردیا‘ حتیٰ کہ سپریم کورٹ نے اسے رہا کیا۔
لیہ میں تحریک انصاف کے ایک لیڈر نے ایک غریب شہری کی جائیداد پہ قبضہ کر رکھا تھا۔ در در‘ شاعر منصور آفاق اس کے لیے‘ انصاف کی بھیک مانگتے رہے۔ جج صاحب یہ واقعہ سنا رہے تھے تو منصور آفاق موجود تھے۔ انہوں نے کہا: ارب پتی روکڑی اور نواب کالا باغ کا خاندان مقتدر تھا‘ تو آئے دن میانوالی میں اس طرح کے واقعات ہوتے۔ سندھ میں آج بھی یہ ایک معمول کی بات ہے۔ طاقتوروں کا یہ معاشرہ ہے۔ عام آدمی پیہم ظلم کا شکارہے۔ یہ ایک پہلو ہے‘ دوسرا یہ ہے کہ اوّل دن سے یہ معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔ انگریز چلا گیا اور قانون کا خوف ختم ہوا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سماج بکھرتا گیا۔ ہماری پولیس ہمیشہ سے 1861ء کے پولیس آرڈر کی پولیس تھی۔ فرق یہ ہے کہ انگریزی عہد میں بازپرس کا اسے خوف رہتا۔ اب بتدریج وہ حکمرانوں اور بارسوخ لوگوں کی باندی بن گئی۔
کون ہے‘ عدم برداشت کی روش اور تشدد میں جس نے حصہ نہیں ڈالا۔ الطاف حسین سب سے خوفناک مثال ہے۔ مگر قال اللہ اور قال رسول کا علم بلند کرنے والے طالبان کیا کم ہیں؟ ابھی کل کی بات ہے کہ دن دیہاڑے ماڈل ٹائون میں پولیس نے چودہ بے گناہوں کو قتل کیا۔ پولیس والوں کا کہنا یہ تھا: فائرنگ منہاج القرآن کی چھتوں سے بھی ہوئی۔ افواہ پھیل گئی کہ دو پولیس والے شہید کر دیئے گئے۔ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ نون لیگ کے گلو بٹ نے درجنوں گاڑیوں کے شیشے توڑے تو پولیس والے شادماں کیوں تھے؟ پھر جسٹس باقر نجفی نے بالواسطہ وزیراعلیٰ کو ذمہ دار ٹھہرایا تو انہیں دھمکیاں کس نے دیں؟ تحقیقات کیوں نہیں ہوتی؟ ذمہ داروں کو سزا کیوں نہیں دی جاتی؟ کچھ دن بعد عوامی تحریک کے کارکنوں نے راولپنڈی میں سینکڑوں پولیس والوں کو مارا پیٹا۔ بہت سے دوسرے گروہوں کی طرح‘ تشدد کا رجحان ان میں بھی پایا جاتا ہے۔ دھرنے کے ہنگام کفن منگوائے گئے۔ علامہ طاہرالقادری نے اعلان کیا کہ محاذ چھوڑ کر جانے کی جو جسارت کرے‘ اسے بھی ''شہید‘‘ کر دو۔ سفاک اور بے رحم طالبان کے حق میں کیسے کیسے جواز تراشے گئے...اور کن لوگوں نے تراشے! جن کے چہروں پر سنّتِ رسول اور جن کے ماتھوں پر سجدوں کے نشان تھے۔
23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسۂ عام میں خاکسار موجود تھا‘ جس سے عبدالولی خان‘ میاں طفیل محمد‘ نواب زادہ نصراللہ خان اور پیر صاحب پگاڑہ شریف کو خطاب کرنا تھا۔ آس پاس کی چھتوں سے یکایک گولیاں برسنے لگیں۔ دھڑادھڑ لاشیں گرنے لگیں۔ سامنے کھڑی بسوں کی قطار دھڑادھڑ جلنے لگی۔ بہت بعد میں شاعر انوار فطرت نے بتایا کہ دستی بموں کا ایک تھیلا انہیں دیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے ایک کارکن کو انہیں پہنچانا تھا۔ کمسن لڑکا تھیلا اٹھائے‘ جلسہ گاہ میں گھومتا رہا۔ اگر وہ آدمی انہیں مل جاتا؟ ایک درجن لاشیں اٹھائے اے این پی والے واپس چلے گئے۔ اسی روز اجمل خٹک نے کابل جانے کا فیصلہ کیا۔ عینی شاہد جمعہ خان صوفی کی کتاب میں تفصیل موجود ہے کہ کس طرح بھارتیوں اور روسیوں سے روابط انہوں نے استوار کیے اور پاکستان توڑنے کا منصوبہ بنایا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان‘ جنرل محمد ضیاء الحق‘ یحییٰ خان اور جنرل مشرف کے ادوار تو ظاہر ہے کہ جبر ہی کے ادوار تھے مگر سول حکمران؟
بھٹو کے عہد میں ڈاکٹر نذیر احمد شہید کیے گئے کہ خریدے اور خاموش نہ کیے جا سکتے تھے۔ تحریک پاکستان کے بے لوث کارکن‘ خواجہ سعد رفیق کے نجیب والد خواجہ رفیق کو ایک احتجاجی جلوس کے ہنگام‘ پنجاب اسمبلی کے سامنے قتل کردیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے غنڈے‘ ان کے قاتل تھے۔ ممکن ہے کہ بھٹو نے حکم نہ دیا ہو۔ ان میں سے کوئی کیفرکردار کو کیوں نہ پہنچا۔
پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کو اقتدار حاصل ہوا تو کیا کیا گل کھلائے؟بجا کہ اول اول بھٹو نے یونیورسٹی میں اپنے حامیوں کو مسلح کیا مگر تشدد پسند تو وہ پہلے سے تھے۔ 1970ء میں جماعت اسلامی کے موجودہ نائب امیر حافظ ادریس کی قیادت میں‘ طلبہ کے ایک گروپ نے وائس چانسلر علامہ علائوالدین صدیقی کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔ مولانا مودودی نے اس پر ایک بیان جاری کیا کہ ان لوگوں نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کردی۔ 
نومبر 2007ء میں جب جنرل پرویزمشرف کے خلاف تحریک برپا تھی‘ عمران خان کے ساتھ انہوں نے کیا کیا؟ عمران خان‘ ان کے حلیف تھے۔ ان کی سرپرست جماعت اسلامی کے۔ جماعت اسلامی سے ایک ذرا سا اختلاف بھی انہیں ہرگز نہ تھا۔ جماعت اسلامی پر انہوں نے یلغار نہ کی‘ درآں حالیکہ کسی کو وہ معاف نہیں کرتے۔ تنقید کرنے والے اخبار نویسوں میں سے ہر ایک کو جمعیت کے کارکن دھمکاتے رہے‘ حتیٰ کہ شدید ردعمل کے بعد ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ اس واقعہ کے پانچ برس بعد عمران خان کی خود نوشت چھپ کر آئی۔ ناچیز نے اس کا ترجمہ کیا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے اخبار کے نام ایک خط میں لکھا: شیشے کے گھر میں بیٹھ کر‘ عمران خان اور ہارون الرشید دوسروں پہ پتھر پھینک رہے ہیں۔ جواب میں ناچیز نے لکھا: شیشے کے گھر میںنہیں‘ ہم اللہ کی امان میں رہتے ہیں۔
چند اقلیتوں اور ان فرقوں کے سوا‘ جنہیں کمتر مسلمان کہا جاتا ہے‘ کوئی نہیں‘ وحشیانہ طرزِ فکر سے جو محفوظ رہا ہو‘ حتیٰ کہ سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد نام کی تنظیمیں بنیں۔ عربوں اور ایرانیوں نے ان کی مدد کی۔ بعض تو عالمی دہشت گرد تنظیموں کے حلیف ہوگئے‘ حتیٰ کہ قتل عام کو عبادت بنا دیا‘ حتیٰ کہ مزارات‘ مارکیٹوں‘ امام بارگاہوں‘ مینا بازاروں اور چرچوں کو ہدف کیا گیا۔ ذہنی عسل سے گزرے ہوئے گمراہ لوگ۔ اللہ کا شکر ہے کہ فوج اور سول سروس‘ بڑی حد تک اس سے محفوظ رہی۔ کئی بڑی سیاسی پارٹیوں نے قتل و غارت کرنے والے فرقہ پرستوں سے روابط استوار کیے۔ لاہور کی جامعہ نعیمہ میں شہبازشریف نے اعلان کیا کہ طالبان کو پنجاب میں کارروائیاں نہیں کرنی چاہئیں۔ عمران خان نے طالبان کے لیے پشاور میں دفتر کھولنے کا مطالبہ کیا اور پیہم ''جنون‘‘ کی تبلیغ کرتے رہے۔
اللہ نے اگر عقل دی ہو‘ چھوٹا ہویا بڑا تشدّد کا ہر واقعہ المناک ہوتا ہے۔ نوازشریف کو جوتا لگنے پر جو لوگ شاد ہیں‘ جلد ہی وہ پچھتائیں گے۔ اس روش سے کسی قوم کا کبھی بھلا ہوا ہے کہ آج ہوگا۔ یہ ایک متعدی مرض ہے۔ آگ کی طرح جو پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیا کرتا ہے۔
الطاف حسین کا انجام خراب ہوا۔ ابھی اسے مزید رسوا ہونا ہے۔ من مانی کے ہر ایک خواہش مند کا یہی انجام ہوگا۔ نوازشریف نے عدلیہ اور افواج کی بساط لپیٹنے کے لیے جو مہم شروع کی ہے۔ آخر میں وہ انہی پر پلٹ پڑے گی۔ ریاست کے اندر ریاست بنانے کے دو ہی نتائج ہوا کرتے ہیں۔ ملک بکھر جاتا ہے یا ریاست باغیوں کو نمٹا دیتی ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے‘مگر سعید فطرت لوگوں کے سوا تاریخ سے کون سبق سیکھتا ہے۔
عربوں کا محاورہ بہرحال یہ ہے: السّعید مَن وعظ بغیرہ۔ سعید وہ ہے‘ جو دوسروں کے تجربات سے سیکھ لے۔ حدیث قدسی کا مفہوم یہ ہے: انسانوں کو جو کچھ ملے گا‘ دانش کے ذریعے اور جو کچھ ان پربیتے گی ان کی حماقتوں کے طفیل۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں