یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ جو کچھ کسی نے بویا‘ وہ اسے کاٹنا ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنی دنیا نہ کبھی قہرمانوں کے حوالے کی ہے اور نہ شیطان کے۔
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
''کسی ذی نفس کو اگر معلوم ہو کہ حنیف عباسی کہاں ہے تو رائے ونڈ کو اطلاع دے۔ دانیال عزیز اور طلال چوہدری کی خاموشی کے بعد‘ اس کی خاموشی بہت محسوس کی جا رہی ہے‘‘ یہ سوشل میڈیا پر دیا جانے والا ایک ''اشتہار‘‘ ہے۔
حکمران جماعت میں شکست و ریخت کا عمل کئی طرح سے برپا ہے۔ شور مچانے اور دھمکیاں دینے والے خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک ایک کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے درجن بھر ارکان پارٹی سے الگ ہوگئے۔ شواہد اور قرائن یہ ہیں کہ اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اندازہ یہ ہے کہ لیگی ارکان کی ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی حیثیت سے الیکشن لڑے گی‘کہ آسانی کے ساتھ مستقبل کی مخلوط حکومت کا حصہ بن سکے۔ چند ہفتے قبل صورت حال یہ تھی کہ میاں محمد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی بھرپور عوامی جلسوں سے خطاب کر رہے تھے۔ ہر نئے اجتماع میں‘ ان کا لہجہ اور بھی زیادہ تند ہوتا جا رہا تھا۔ پارٹی کے حامی مبصر‘ جن میں سے بعض مدتوں سے رائے ونڈ کے دسترخوان پہ پڑے تھے اور بعض حال ہی میں ایمان لائے ہیں‘ دعویٰ زوروشور سے کر تے تھے کہ جماعت کو منتشر کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے۔ پھر اچانک کیا ہوا؟
خواجہ سعد رفیق کا ارشاد یہ تھا: ہم لوہے کے چنے ہیں‘ ہمیں چبانا آسان نہیں ہوگا۔ اب ان کا رنگ فق ہے اور وہ اداروں کے درمیان افہام و تفہیم کے سب سے بڑے مبلّغ بن کر ابھرے ہیں۔ عدالتوں کے باہر کھڑے ہو کر ججوں کا تمسخر اڑانے والے لیڈروں نے چپ اوڑھ لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہے۔
2013ء میں عمران خان نے راولپنڈی سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو غازی حنیف عباسی نے اعلان کیا: کیا آپ لوگ جانتے نہیں کہ میں اپنے مدمقابل کی ضمانت ضبط کرا دیا کرتا ہوں۔ عمران خان کے خلاف‘ ان کا واحد مقدمہ یہ تھا کہ لندن کے ایک کرکٹ میچ کے دوران وہ جوا کھیلنے کے مرتکب ہوئے۔ خود ان کے خلاف ایفی ڈرین کی سمگلنگ کا کیس موجود تھا۔ سوال یہ تھا کہ چند برسوں میں اس آدمی کے پاس‘ اتنی بہت سی دولت کہاں سے آگئی‘جو کبھی صرف ایک میڈیکل سٹور کا مالک تھا۔ عدالت سے ضمانت کرانے میں وہ کامیاب رہے؛ اگرچہ کپتان کے خلاف ان کے مقدمے کا مذاق اڑایا گیا۔ حنیف عباسی مگر ان لوگوں میں سے نہیں‘ خلقِ خدا کا ردّعمل‘ جن پہ اثرانداز ہو سکے۔ چیخ چیخ کر وہ عمران خان کو جرائم پیشہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے؛ تاآنکہ قومی اسمبلی کے الیکشن میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوگئے۔ ایفی ڈرین کیس میں ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنے والے اخبار نویس بھی بتدریج ان سے تنگ آگئے۔ اس قدر ہیجان اور عدم توازن کا وہ شکار تھے کہ ٹی وی میزبانوں کے لئے اس شخص کو برداشت کرنا مشکل ہوگیا۔ ایک پراسرار معاملہ یہ ہے کہ ساڑھے پانچ سال گزر جانے کے باوجود‘ اس مقدمے کی سماعت کیوں نہیں ہوتی؟ اس پر فیصلہ کیوں نہیں ہو چکتا؟ عالی جناب کا استدلال یہ تھا کہ قطعی طور پر سمگلنگ کے وہ مرتکب نہیں ہوئے۔ اپنے کارخانے میں تیار کردہ ممنوعہ دوا کی گولیاں انہوں نے مقامی مارکیٹ میں فروخت کیں۔ انسداد منشیات فورس کے وکیل کا کہنا یہ تھا کہ اپنی مشینوں پر بننے والی گولیوں کے جو نمونے انہوں نے عدالت میں پیش کیے ہیں‘ بازار میں بکنے والی دوا سے ان کا سائز مختلف ہے۔
چیخ و پکار اور شور شرابہ‘ یہ نون لیگ کے حربوں میں سے نمایاں ترین حربہ ہے۔ کم از کم دو میڈیا گروپ پوری یکسوئی کے ساتھ ان کی پشت پر کھڑے تھے‘ جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ سی آئی اے کے ساتھ راہ و رسم رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک کھلّم کھلّا‘ خطّے میں بھارتی بالادستی کے امریکی ایجنڈے کا مبلغ ہے۔ اللہ اس کی مشکلات آسان کرے‘ آج کل وہ عتاب کا شکار ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینل سیاسی پارٹیوں کے حامی اور مخالف رہے ہیںمگر ملک کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی کہ ایک میڈیا گروپ نے‘ حکمرانوں کی حمایت میں اس طرح ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہو...اور اپوزیشن جماعت کی کردارکشی میں ان حدوں کو چھو لیا ہو کہ خود اس کا اعتبار جاتا رہے۔ یہی نہیں عدالت اور دہشت گردی سے نبردآزما ملک کی مسلح افواج پہ یلغار کر رکھی ہو۔ برا وقت آیا ہے تو اب وہ جمہوریت کا پرچم اٹھائے کھڑے ہیں۔ جمہوریت بجا اور آزادیٔ اظہار بجامگر کیا اس کی کوئی حدود نہیں ہوتیں؟
حنیف عباسی ایک ضمنی الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ عمران خان کی تائید بھی انہیں حاصل تھی۔ قومی اسمبلی کا ممبر بنتے ہی‘ آنجناب نے نون لیگ کی قیادت سے سازباز شروع کردی۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں طلال چوہدری اور دانیال عزیز قاف لیگ کا سرمایہ تھے‘ جب وہ جنرل پرویز مشرف کا بازوئے شمشیر زن تھی۔ طلال چوہدری تو خیر ایک گمنام آدمی تھے۔ دانیال عزیز جنرل مشرف کے قائم کردہ ادارے‘ قومی تعمیر نو National Reconstruction Bureau کے سربراہ تھے۔ مضبوط بنیادوں پر بلدیاتی اداروں کی تشکیل کے علاوہ اس ادارے کا اہم ترین فریضہ قومی سیاست میں خواتین کے کردار کو موثر بنانا تھا۔
2008ء میں‘ نون لیگ پنجاب میں جیت گئی اور مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوگئی تو بلدیاتی اداروں کو بے معنی اور بے بس کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اس جواں سال سیاست دان نے ان اداروں کے لیے ایک بھرپور جنگ لڑی۔ اگرچہ کامیاب نہ ہو سکے مگر ان کی پذیرائی ہوئی۔ ان کے نقطۂ نظر کو سراہا گیا۔ اسی محاذ پر اگر وہ ڈٹے رہتے۔ اس موضوع پر پیہم قوم کی تعلیم و تربیت کرتے تو ایک ممتاز قومی شخصیت بن کر ابھرتے۔ مضبوط شہری حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کے بغیر‘ جدید جمہوریت کا خواب کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ برا ہو‘ اقتدار کی تمنا اور اقتدار کی خواہش کا کہ نمک کی کان میں وہ نمک ہوگئے۔ وزارت کی خواہش نے اس قدر بے چین کیا۔ مزاج اس قدر بگڑا کہ بات بات پہ برہم ہونے اور تماشا بننے لگے۔ع
زبان بگڑی سو بگڑی تھی‘ خبر لیجئے دہن بگڑا
نون لیگ کی قیادت کو حنیف عباسی‘ طلال چوہدری‘ دانیال عزیز اور سعد رفیق ایسے لوگ سازگار تھے‘ اقتدار کے سائے میں جو اپنے ذاتی اغراض کی فصل کاٹ رہے تھے۔تحفظ اور سرپرستی کی انہیں ضرورت تھی۔
پولیٹکل سائنس کے کچھ بنیادی اصول انہوں نے فراموش کر دیئے۔ ایک تو وہی ابرہام لنکن کا قول: سب لوگوں کو کچھ دن کے لیے آپ بیوقوف بنا سکتے ہیں اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے‘ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے احمق نہیں بنایا جا سکتا۔ ثانیاً یہ کہ ریاست کے اندر ریاست کا کوئی وجود نہیں ہوتا‘ خواہ یہ حکمران پارٹی ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان‘ مصر‘ لیبیا‘ عراق یا شام نہیں کہ حکمران کے سوا ہر چیز بے معنی اور بے وقعت ہو۔
عدالت اور مسلح افواج کو بلیک میل کرنے کی کوششیں ناکام رہیں۔ ہراوّل دستے کا کام کرنے والا میڈیا گروپ اب اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ درباریوں کی جان پہ بن آئی ہے۔ کونوں کھدروں میں چھپنے کی وہ کوشش کر رہے ہیں۔ بیچارے حنیف عباسی کیا‘ صورت حال یہی رہی تو ایک دن شریف خاندان بھی عافیت کی تلاش میںہو گا‘ 1999ء کی طرح جب جدّہ کی طرف راہِ فرار اختیار کی تھی۔
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ جو کچھ کسی نے بویا‘ وہ اسے کاٹنا ہوتا ہے۔ اللہ نے اپنی دنیا نہ کبھی قہرمانوں کے حوالے کی ہے اور نہ شیطان کے۔
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازئہ رعنائی کر