اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ بسر کرنے کے دو طریقے ہیں: آدمی زندگی پر سوارہو جائے ورنہ زندگی آدمی پر سوار ہو جاتی ہے۔
زندگی مسلمانوں پر سوار ہوچکی۔ ایک دن فلسطین سے قتلِ عام کی خبر آتی ہے۔ دوسرے دن بھارتی مقبوضہ کشمیر سے۔ فلسطین میں یہ سلسلہ ستر اسّی برس سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی 1930ء سے۔ امن اور خاموشی کے وقفے آتے ہیں لیکن خون خرابے کی ایک نئی لہر کے لیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لیبیا اجڑ گیا اور برباد سے برباد تر ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق عراق میںچھ سے دس لاکھ مسلمان قتل کر دئیے گئے۔ چیتھڑے اڑاتی گولیوں نے کبھی کسی سے نہ پوچھا کہ وہ سنّی ہے یا شیعہ،کرد ہے یا عرب۔ شام کی سرزمین ایک مسلسل قتل گاہ ہے۔ جہاں کبھی بشار الاسد کے طیارے بم برساتے ہیں۔ کبھی روس اور امریکہ کے۔ کبھی داعش گردنوں کی فصل کاٹتی ہے اور کبھی پڑوسی عرب ملکوں کی پشت پناہی سے بروئے کار آنے والے لشکر۔ مشرقِ وسطیٰ سب کا سب تباہ ہو گیا۔ 1990ء میں صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد اس سرزمین کو کبھی قرار نصیب نہیں ہوا۔ گروہ بندی اور ایسی گروہ بندی کہ خدا کی پناہ۔ فرقہ پرستی اور ایسی فرقہ پرستی کہ الامان و الحفیظ۔
متنازعہ بیانات سے شہرت حاصل کرنے والے، متحدہ عرب امارات کے جنرل دھائی خلفان نے کہا ہے کہ پاکستانی شہری خلیج کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ خلیجی ریاستوں سے انہوں نے اپیل کی ہے کہ پاکستانیوں کو ملازمتیں نہ دی جائیں۔ یہ وہی پاکستانی ہیں، چار عشروں کے دوران عرب کے ریگزاروں کو جنہوں نے رستے بستے شہروں اور گلستانوں میں بدل ڈالا۔ تعمیراتی میدان میں پاکستانیوں کی سخت جانی کا کوئی متبادل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت کے سستے محنت کشوں کے باوجود آج بھی وہاں پاکستانی مزدوروں کی مانگ ہے۔ پچاس سے پچپن ڈگری پر آگ برساتے سورج کے نیچے یہی جفاکش نئے جہان کی بنیادیں اٹھا سکتے ہیں۔ منشیات اور بعض دوسرے جرائم کی بات دوسری ہے، کبھی کسی پاکستانی پر دہشت گردی کا الزام نہیں لگا۔ عربوں اور ایرانیوں، عربوں اور اسرائیلیوں نے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کیں۔ رہے دولت کی پاگل کر دینے والی بھوک میں سرزد ہونے والے دوسرے جرائم، تو ان کے مرتکب افراد ہوتے ہیں، قبیلے، اقوام اور برادریاں نہیں۔ دبئی کے جنرل کو ذاتی طور پر کسی پاکستانی سے تکلیف پہنچی ہے یا اس کا اور کوئی پیچیدہ سبب ہے، آنے والے دنوں میں بات کھل جائے گی۔ ہمارا ایک جرم البتہ واضح ہے۔ عربوں کی ہم عزت کرتے ہیں۔ پیغمبرِ صحراؐ کے نام پر، ان کے لیے ہم آنکھیں بچھاتے ہیں۔ شاید اس کے نتیجے میں ان میں سے کچھ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ پاکستانی ایک مسکین قوم ہیں۔ یہ الگ بات کہ شام اور سعودی عرب سمیت، جب بھی کسی عرب ملک کو اسرائیل سے خطرہ لاحق ہوا تو انہیں پاکستانی فوج ہی یاد آئی۔ آئندہ بھی اسرائیل نے پر پرزے پھیلائے اور ضرور پھیلائے گا تو پاکستانیوں اور ترکوں کے سوا ان کی جنگ لڑنے والا کوئی نہ ہو گا۔
ادھر عربوں کی باہمی آویزش کے علاوہ، عرب ایران کشمکش کی ایک بھاری قیمت پاکستان نے ادا کی ہے۔ متاثر ہونے والے بعض خاص طبقات کی حد تک فرقہ وارانہ رجحانات اس ملک میں پیدا کر دیے ہیں، جو پہلے ہی کئی سنگین مسائل سے دوچار ہے۔کچھ تخریب کاروں کی عرب امداد فرماتے رہے، کچھ کی ایرانی۔ ایران میں کچھ تخریب کاروں کو تربیت بھی دی گئی۔ درآں حالیکہ عراق ایران جنگ کے ہنگام پاکستان نے اسلحے سے لدی ہوئی گاڑیاں ایران بھیجیں۔ افسوس کہ کسی ایرانی اخبار میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کسی چینل میں پاکستان کے حق میں کبھی ایک کلمۂ خیر نہیں کہا جاتا۔ یہی روش بعض عربوں نے اختیار کرنا شروع کی ہے۔ پاکستان سے زیادہ اس کا نقصان خود انہی کو پہنچے گا۔
پاکستانی معاشرے میں عرب ایرانی کشمکش سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ دو برس ہوتے ہیں، ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے کہا تھا کہ عرب حکمران طائف کے مشرکین سے بدتر ہیں۔ گزشتہ روز سعودی عرب کے ''ولایتِ فقیہہ‘‘ شہزادہ محمد بن سلمان نے ارشاد کیا کہ ایرانی حکومت ہٹلر سے بدتر ہے۔ ہٹلر نے ہزاروں انسانوں کو بھٹیوں میں زندہ جلا دیا تھا۔ لاکھوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ آس پاس کی سرزمینوں پر اس کی افواج چڑھ دوڑی تھیں۔ اس جنگِ عظیم کا وہ ذمہ دار تھا، پانچ کروڑ انسان جس میں قتل ہوئے اور دس بارہ کروڑ بے گھر۔ ایرانیوں پہ کتنے ہی اعتراض ہوں، کیا انہوں نے کسی جنگِ عظیم کی بنیاد رکھی ہے ؟ اسی طرح عرب مسلمانوں کو مشرکین سے بھی کمتر قرار دینا کسی مسلک اور کسی موقف نہیں، پاگل کر دینے والی نفرت کا اظہار ہے۔ 2013ء کے مشہد میں ایک ایرانی اخبار کے ایڈیٹر سے میں نے پوچھا تھا، حضور، کیا خطا ہم سے سرزد ہوئی کہ ہمیشہ پاکستان کی آپ تحقیر کرتے رہتے ہیں۔ اس سوال کا کوئی جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ شام اور یمن میں ایک دوسرے کے خون کے وہ درپے ہیں۔ پاگل پن کے سوا یہ کچھ بھی نہیں۔ خطے کے کسی فریق کو اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ فائدہ پہنچے گا تو امریکہ اور اسرائیل کو یا ابھرتی ہوئی نئی طاقتوں روس اور چین کو۔ احمقوں اور دیوانوں کے لیے کوئی جنت نہیں ہوتی۔
چار پانچ ماہ ہوتے ہیں، جنرل قمر جاوید باجوہ ایران گئے۔ حسن روحانی سے انہوں نے کہا : ایران اور عربوں کے درمیان پاکستان صلح کا آرزومند ہے۔ ''آپ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ اپنے خاص دھیمے لہجے میں جنرل باجوہ نے جواب دیا : اس لیے کہ یہ قرآنِ کریم کا حکم ہے۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ دو مسلمان گروہوں میں جھگڑا ہو تو مصالحت کرا دی جائے۔ جوش و جذبے سے مغلوب ہوتے ہوئے روحانی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک جنرل کے جذبات کو سراہتے رہے۔ بات مگر وہیں ختم ہو گئی۔ قومیں جب تنگ نظری اور جذباتیت کا شکار ہو جائیں تو صحرا کے مسافروں کی طرح ویرانوں ہی میں گردش کیا کرتی ہیں۔
چاروں طرف سے زعفران کے کھیتوں میں گھرے شوپیاں شہر میں کشمیری نوجوانوں کے قتلِ عام سے، ایک بار پھر آشکار ہوا کہ بھارت ہار گیا ہے۔ وہ گردنیں تو کاٹ سکتا ہے کہ فوج اس کی بڑی ہے اور امریکہ سمیت سارا مغرب پشت پناہ لیکن کشمیریوں کے دل اب وہ کبھی نہ جیت سکے گا۔ بھارتی اب ان کے لیے اجنبی ہیں۔ اب اس کی کوئی سیاسی اور سفارتی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کشمیر کی گلیوں میں سونے کے ڈھیر بھی وہ لگا دے تو وہ اسے قبول نہ کریں گے۔ خوف دلوں سے نکل گیا ہے اور جب خوف ختم ہو جائے تو استعمار کے فنا ہونے کا وقت قریب آ جاتا ہے۔ کشمیر کی آزادی کا روزِ سعید کس طرح طلوع ہو گا۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے۔ یہ مگر یاد رہے کہ انسانی تقدیروں کے فیصلے زمین نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں کشمیریوں کی مدد کرنے والا اب کوئی نہیں۔ کوئی بھرپور عالمگیر سفارتی مہم تو کجا، کسی نے کل جماعتی کانفرنس کا خیال تک پیش نہ کیا، جہاں ایک قرار داد پیش کی جاتی۔ ایک حیران کن بات یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نون لیگ کے سربراہ کشمیریوں کے قتلِ عام پر ایک بیان تک جاری کرنے کے روادار نہیں۔ اب پرویز رشید ان کے سب سے اہم اتالیق ہیں اور پرویز رشید وہ ہیں، جنہوں نے اپنی پچاس سالہ سیاسی زندگی میں قائدِ اعظم اور تحریکِ پاکستان کے حق میں کبھی ایک جملہ بھی ارشاد نہ کیا۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ بسر کرنے کے دو طریقے ہیں: آدمی زندگی پر سوار ہو جائے ورنہ زندگی آدمی پر سوار ہو جاتی ہے۔