اقتدار میں ‘ میاں محمد نوازشریف کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اب وہ اپنے جانشین شہبازشریف کی راہ میں کانٹے بو رہے ہیں۔ ان کے طرزِعمل پہ شیکسپیئر کا ایک کردار یاد آتا ہے۔ ''وہ لاانتہا ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی نہ ہوگا۔ وہ اپنے جانشین کا نام بھی سننا نہیں چاہتا۔‘‘
طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے۔ دلاوروں کے کندھوں پہ دو سر یا سینے میں ایک سے زیادہ دل نہیں ہوتے۔ افراد اور گروہوں کی ذہنی کیفیت ہی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ پستی اور ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں یا کامیابی اور ظفرمندی کی جانب۔
نون لیگ اب بھی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے لیکن زوال کا شکار۔ اس کے سربراہ کی ذہنی حالت اچھی نہیں۔ جولائی میں وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیے جانے کے بعد‘ تین طرح کی کیفیات‘ ان میں نظر آتی ہیں۔ خود ترسی‘ مظلوم بن کر ہجوم میں ہمدردی جگانے کی وہ کوشش کرتے ہیں۔ ''مجھے کیوں نکالا۔ مجھے کیوں نکالا‘‘ اپنی معصومیت پہ ایسا شدید اصرار کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس قدر صریح غلط بیانی کہ آدمی کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آتا۔ ''ایک دھیلے کی کرپشن بھی‘ میں نے کبھی نہیں کی‘‘ ۔''عوام میرے ساتھ ہیں اور اللہ بھی میرے ساتھ ہے‘‘۔ اسی عالم میں کئی ماہ تک ایک گیت وہ گاتے رہے کہ اپنے فرزند سے تنخواہ نہ لینے پر وہ نکال دیئے گئے۔ دستاویزی ثبوت مہیا کر دیئے گئے کہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اگست 2013ء میں بھی معاوضہ قبول فرمایا تھا تو اب یہ مؤقف ہے: تنخواہ لی یا نہیں لی‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کبھی ایک تیسری حالت آنجناب پہ طاری ہوتی ہے‘ جس میں وہ ایک اساطیری سپہ سالار کی طرح بات کرتے ہیں۔ جس دن شہبازشریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک صاف گو اور راست باز آدمی قرار دیا۔ یہ کہا کہ ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے تو چنگھاڑ کر ارشاد کیا: ہر اس شخص کو جو راستے میں آنے کی کوشش کرے گا‘ نیست و نابود کردیا جائے گا۔ نیست و نابود؟ فنا اور برباد؟کیا وہ قانونی احتساب پر تلے چیف جسٹس کو للکار رہے تھے‘ عالمی اسٹیبلشمنٹ سے نبردآزما عسکری قیادت‘ حریف عمران خان یا اپنے سگے بھائی کو؟۔ع
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں
اس وقت وہ تکبر کی حدوں کو چھو لیتے ہیں... اور میر تقی میرؔ یاد آتے ہیں۔
کل پائوں ایک کاسۂ سر پہ جو آگیا
یکسر وہ استخوان‘ شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل اے راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سرِ پُرغرور تھا
پینتالیس برس ہوتے ہیں ۔ایک سرکاری افسر کی توسیع کے لئے‘ ایک نوٹ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ فلاں صاحب اس ذمہ داری کے لیے ناگزیر ہیں۔ فصیح بھٹو نے اپنے قلم سے‘ اس پر لکھا: The Graveyards are Full of Indispensable People قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔
کامیابی گمراہ کرتی ہے اور زیادہ کامیابی اور بھی زیادہ۔ دو بار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیراعظم بننے والا آدمی کیا یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں کاروبارِ حکومت‘ اس کے بغیر چلایا ہی نہیں جا سکتا؟۔
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
شیرشاہ سوری کی یلغار سے گھبرا کر‘ ہمایوں نے ایرانی بادشاہ صفوی کے پاس پناہ لی تھی۔ سوری کی موت کے بعد وہ لوٹ کر آیا اور اقتدار سنبھالا تو ایک ایرانی شاعر دربار میں حاضر ہوا۔ ترنگ کی اس کیفیت میں جو بادشاہوں پہ طاری ہو جایا کرتی ہے‘ ہند کے سلطان نے پوچھا: ہم بڑے بادشاہ ہیں یا تمہارا سلطان؟ اس نے کہا: آپ بدرِ کامل ہیں حضور‘ ہمارا بادشاہ تو محض ہلال ہے۔ لوٹ کر گیا تو جواب طلبی ہوئی۔ شاعر نے کہا: جہاں پناہ‘ ہلال بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ بدر کمتر ہوتا جاتا ہے۔
سندھ کے دورے میں عمران خان کی جو پذیرائی ہوئی‘ وہ بدلے ہوئے موسم کی خبر دیتی ہے۔ ممبرسازی کی مہم کے دوران‘ پنجاب میں بھی ہر کہیں کپتان کا پرتپاک استقبال ہوا۔ خیال یہ تھا کہ راولپنڈی میں شاید غیرمعمولی استقبال نہ ہو۔ اپنے حلقہ انتخاب کو خان نے کچھ زیادہ وقت نہ دیا تھا۔ ٹیلی ویژن پہ دکھائی دیئے منظر مگر حیران کن ہیں۔ کمالیہ میں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کا جلسہ اس کے مقابلے میں پھیکا رہا۔ کئی ارکان اسمبلی نے‘ ایک وزیر بھی جن میں شامل ہے‘ اس اجتماع میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔ کیا چند ماہ قبل اس کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا؟ قومی اسمبلی کے گیارہ ارکان اب تک نون لیگ کو الوداع کہہ کر تحریک انصاف کا حصہ ہو چکے۔ اندازہ یہ ہے کہ الیکشن سے قبل کم از کم چالیس پچاس ارکان‘ سرکاری پارٹی کو خیرباد کہہ دیں گے۔ کامرانی کی اگر امید ہوتی تو کیا یہی ان کا شعار ہوتا؟۔
اطلاع یہ ہے کہ ہفتے کی شام جاتی امرا میں‘ میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں منعقد ہونے والے مشاورتی اجلاس میں‘ ان کی حکمت عملی پر تنقید کی گئی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ عسکری قیادت اور عدلیہ کے ساتھ اس قدر تصادم کی فضا وہ پیدا نہ کریں کہ مکالمے کی راہ ہی بند ہو جائے۔ لیگی لیڈروں کی اکثریت نے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ بھی مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ اس سے قطع نظر کہ ان کا رویہ درست ہے یا نادرست‘ کہیں کم درجے کی گستاخی پر فوزیہ قصوری کو چلتا کیا گیا۔ چوہدری نثار تو آئے دن اپنی قیادت پہ چڑھ دوڑتے ہیں‘ اس کے باوجود‘ ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ سرِ راہے یہ کہ چوہدری صاحب کے لئے اب دو ہی راستے باقی ہیں۔ تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں یا آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں۔ محترمہ مریم نواز کی طرف سے چوہدری کے حریفوں غلام سرور خان اور راجہ بشارت کو لبھانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے‘ وہ شاید کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ میاں محمد نوازشریف پر اعتبار نہیں کر سکتے۔
پرسوں پرلے روز میاں صاحب نے فرمایا کہ جہاں کہیں بھی وہ ہوں گے‘ ان کی اپیل پر‘ خلقِ خدا میدان میں نکل آئے گی۔ عدالتوں کے خلاف؟ جنرل قمر جاوید باجوہ کہہ چکے کہ عدالت کا حکم نافذ کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے لئے‘ اگر ایسا ماحول شریف خاندان نے پیدا کرنے کی کوشش کی تو عسکری قیادت کو عدالت حکم صادر کر سکتی ہے۔ جنرل حضرات‘ اس کی تعمیل سے انکار کیسے کریں گے؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جس حکمت عملی سے میاں صاحب کے سگے بھائی‘ مطمئن نہیں‘ دوسرے لوگ اس کی پیروی کیوں کریں گے۔ اوروہ بھی خطرات مول لے کر!ایک ڈیڑھ ماہ قبل‘ صورتحال مختلف تھی۔ بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے باپ بیٹی یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے تھے کہ نون لیگ فروغ پذیر ہے۔ عسکری قیادت کی تحقیر کی جاتی رہی مگر وہ خاموش رہی۔ عدالتوں نے غیرمعمولی تحمل کا مظاہرہ کیا اور عمران خان‘ خاموشی سے اپنی حکمت عملی وضع کرنے میں لگے رہے۔ اب جارحانہ لہجے کے ساتھ وہ بروئے کار آتے ہیں اور شریف برادران‘ اس پہ پریشان ہیں۔ بار بار شہبازشریف اپنے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کے بڑے بھائی کو جارحانہ طریقہ اختیار کرنے سے منع کریں۔ وہ خود کیوں ان سے بات نہیں کرتے؟۔
میاں محمد نوازشریف نے مقبوضہ کشمیر میں قتل عام کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔ وہ افغانستان میں بھارت اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات سے متفق‘ محمود اچکزئی ایسے لوگوں کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ ردّعمل کا شکار ہیں اور ردّعمل میں مبتلا شخص کبھی اچھی حکمتِ عملی وضع نہیں کر سکتا۔ شہبازشریف کے وہ سرپرست بھی ہیں اور ان کے طرزِ عمل سے متنفر بھی۔
اقتدار میں ‘ میاں محمد نوازشریف کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ اب وہ اپنے جانشین شہبازشریف کی راہ میں کانٹے بو رہے ہیں۔ ان کے طرزِعمل پہ شیکسپیئر کا ایک کردار یاد آتا ہے۔ ''وہ لاانتہا ہے۔ اس کے بعد کوئی بھی نہ ہوگا۔ وہ اپنے جانشین کا نام بھی سننا نہیں چاہتا۔‘‘