قیادت فقط جوشِ عمل نہیں، اس سے بھی زیادہ یکسوئی کا نام ہے۔ کشمکش کے ہنگام اگر کوئی لیڈر کنفیوژن کا شکار ہو تو قیادت کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ وہ خود تباہ ہوگا اور اپنے لشکر کو برباد کرے گا۔
اقتدار کی بے رحمانہ کشمکش میں، جو پاگل پن کے دائرے میں داخل ہوتی دکھائی دے رہی ہے، میاں محمد نواز شریف ذہنی بے چارگی میں مبتلا ہیں۔ تضادات کی ایسی دلدل میں گرفتار ہیں، جس سے رہائی آسان نہیں۔ دوسری طرف ایک طویل عرصے سے بروئے کار آنے کے قابل نہیں۔ صدر اوباما کے ساتھ میاں صاحب کی ملاقات کاذکر کیا جاتا ہے، جس میں امریکی صدر کو انہوں نے مسز اوباما کہہ کر مخاطب کیا۔ دو اڑھائی منٹ کی گفتگو کے لیے کاغذوں پر لکھے ہوئے نوٹس درکار تھے۔ کیا یہ ایک بہت ہی اہم ملاقات کا دبائو تھا، وزیراعظم کا ذہن جس کے لیے حاضر نہ تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ طویل مدت سے موصوف ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ 1999ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد عرب لیڈروں کو آگاہ کرنے کی مہم پر، چوہدری شجاعت حسین شام کے صدر حافظ الاسد سے ملے تو نواز شریف کو انہوں نے پیغام بھیجا: اپنی فکر کیجیے، آپ بہت موٹے ہو تے جا رہے ہیں۔
دنیا میں کوئی آدمی ایسا نہیں، ذہنی بحران سے جو گزرتا نہ ہو۔ انسان کو پیدا ہی آزمائش کے لیے کیا گیا۔ بھوک نہیں تو خوف اور وسوسہ۔ اس اجنبی سرزمین پر جنت سے نکالا گیا آدمی اکثر اندیشوں کا شکار رہتا ہے۔ کم ہوتے ہیں، جو خود تنقیدی کا جوہر رکھتے ہوں۔ اپنی محدودات کو سمجھتے ہوں۔ اس راز سے جو آشنا ہوں کہ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم نے دو بنیادی اصول بیان کیے ہیں۔ کائنات کا خالق جسے اپنا نور کہتا ہے۔ ایک یہ کہ جوابدہی کا احساس رکھنے والے اہلِ ایمان، مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں۔ ثانیاً جب وہ الجھ جائیں تو اہلِ علم سے رہنمائی کی التجا کریں۔ وہ لوگ جو کسی بھی مسئلے کے سیاق و سباق اور اس پر منطبق ابدی اصول کی نشاندہی کر سکیں۔ حکمت اور خیر کے ساتھ ایک موزوں لائحۂ عمل کی تلاش۔
آدمی کو خواہش تباہ کرتی ہے اور نہ غلطی۔ غلطی کی اصلاح کی جا سکتی ہے۔ معافی مانگی جا سکتی ہے۔ تلافی اور تدارک کیا جا سکتا ہے۔ آزمائش انسانی صلاحیت کو بیدار اور صیقل کر سکتی ہے۔ تاریخ کے عظیم ترین لوگ وہ تھے، جو عظیم ترین امتحانوں سے گزرے۔ طویل مدت تک رسولِ اکرمؐ پر وحی نہ اتری تھی؛ حتیٰ کہ انہیں پروردگارِ عالم کی ناراضی کا اندیشہ ہوا۔ تب جبرئیلِ امین اس دمکتی ہوئی سورۃ کے ساتھ تشریف آسمانوں سے اترے۔
قسم ہے چاشت کے وقت کی
اور رات کی جب وہ چھا جائے
تجھے تیرے رب نے چھوڑ نہیں دیا اور نہ قابلِ گریز جانا
اور بے شک آنے والے ایام بیتے ہوئے دنوں سے بہتر ہیں
اور بے شک جلد تیرا رب تجھے اتنا عطا کرے گا کہ تو شاد ہو جائے گا۔
کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا تو ٹھکانہ دیا
اور سرگرداں پایا اور راہ دکھائی
اور تجھے حاجت مند پایا تو غنی ہی کر دیا
پس یتیم پہ کبھی برہم نہ ہونا
اور سوال کرنے والے کو کبھی جھڑکنا نہیں
اور اپنے رب کی نعمت کا تذکرہ کرتے رہنا
شکر گزاری اور مثبت اندازِ فکر تاریک راہوں کے چراغ ہوتے ہیں۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ پہ ذمہ داری لادی گئی تو تین شہروں مدینہ منورہ، مکہ منورہ اور طائف کے سوا تمام آبادیوں نے بغاوت کر دی تھی۔ صدیوں سے بے لگام چلے آتے بدوئوں نے حکومت کا جوا اپنی گردنوں سے اتار پھینکا۔ رسولِ اکرمؐ کے وصال سے پہلے، بلادِ شام کو روانہ کرنے کے لیے لشکر مرتب کیا جا چکا تھا اور سالار کا تعین بھی۔ مشاورت کے عمل میں بعض اصحابؓ نے جواں سال اسامہؓ کی نامزدگی پہ نظرِ ثانی کی درخواست کی تھی۔ رسولِ اکرمؐ نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا اور فرمایا تھا: اس کے باپ پر بھی تمہیں اعتراض ہوا کرتا تھا۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا، منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف لشکر کشی پہ عمر فاروقِ اعظمؓ بھی متامّل تھے۔ جنابِ ابوبکر ؓ نے دوسروں کو نظر انداز کر دیا لیکن اپنے رفیق پہ برہم ہوئے اور یہ کہا: عمر! عہدِ جاہلیت میں ایسے خوددار تھے، اسلام میں متامّل اور خجل کیوں ہو گئے۔ لشکرِ اسامہ کی روانگی کا حکم صادر کیا اور کہا: اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مدینہ میں پرندے مجھے نوچ کھائیں گے، تب بھی میں اس سپاہ کو نہ روکتا۔ فرمایا: خدا کی قسم اگر کوئی زکوٰۃ کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کرے گا تو میں اسے معاف نہیں کروں گا۔ باقی تاریخ ہے۔
عمر فاروقِ اعظمؓ اس حال میں امیر بنائے گئے کہ رومیوں سے جنگ جاری تھی اور ایران کی افتاد آ پڑی۔ وہ اس کے آرزو مند نہ تھے۔ کوئی بھی ہوشمند سپہ سالار بہت سے محاذ کھولنے سے گریز کرتا ہے۔ ایک بار کہا تھا: میری دعا ہے کہ ایران اور عرب کے درمیان آگ کی دیوار حائل ہو جائے۔ با ایں ہمہ جنگ آ پڑی تو اس سے نمٹا گیا اور اس طرح کہ عالم اسلام کے نور سے جگمگا اٹھا۔
لیڈر وہ شخص ہوتا ہے، جس پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ اپنی رائے عامہ جس پر واضح ہو۔ اپنی ترجیحات جو مرتب کر چکا ہو اور ان کی تکمیل کے لیے حکمتِ عملی کے تار پود بُنے۔ ملّاح کو اگر راستہ ہی معلوم نہ ہو تو ساحل تک کشتی کیسے لے جائے گا۔
پرسوں پرلے روز میاں محمد شہباز شریف کے ایک خیر خواہ نے پوچھا: ہمارے لیڈر کو کیا کرنا چاہیے؟ عرض کیا: جو کچھ بھی کرنا ہے، ان کے بڑے بھائی کو کرنا ہے ۔ لندن سے پاکستان لوٹنے کے بعد نواز شریف پیہم ذہنی خلفشار میں مبتلا رہے۔ کئی ماہ تک قوم سے وہ خطاب نہ کر سکے۔ الیکشن سے پہلے انہوں نے کہا تھا: ہم ایک تجربہ کار ٹیم ہیں۔ الیکشن کے بعد ہوش و حواس گم تھے۔ اپنی مسکراہٹ وہ کھو چکے تھے اور وہ حسِ مزاح بھی جو بیشتر ان کے ساتھ رہی تھی۔
کامیاب سپہ سالار وہ ہوتا ہے، ایک نہیں، جس کے پاس کئی متبادل منصوبے ہوں۔ اوّل نہیں تو دوسرا، دوسرا نہیں تو تیسرا۔ وہ تو آج تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ چوہدری نثار علی خاں کے معاملے میں انہیں کیا کرنا ہے؛ چنانچہ پہل ان کے نہیں، چوہدری کے ہاتھ میں ہے۔ جو اپنا کھیل جم کر کھیلتے ہیں۔ توجہ ہٹنے نہیں دیتے۔
انہوں نے شہباز شریف کو جانشین بنانے کا فیصلہ بھی مجبوری کے عالم میں کیا۔ امیر تیمور کا مشہور قول ہے: مرد کے سامنے صر ف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد انہوں نے چھوٹے بھائی کو پارٹی کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا۔ پھر خاندان کے دبائو پر منحرف ہو گئے۔ اب تمنا یہ تھی کہ محترمہ مریم نواز ان کی گدی سنبھالیں ۔ سامنے کی یہ بات وہ بھول گئے کہ سزا ہوئی تو صاحبزادی کو بھی ہو گی۔
شہباز شریف کو بروقت قیادت سونپنے اور بتدریج پیچھے ہٹنے کا وہ فیصلہ کر لیتے تو اسٹیبلشمنٹ سے رہ و رسم رکھنے والے وزیراعلیٰ شاید اب تک کئی مرحلے طے کر چکے ہوتے۔ نون لیگ شاید اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتی۔
قیادت فقط جوشِ عمل نہیں، اس سے بھی زیادہ یکسوئی کا نام ہے۔ کشمکش کے ہنگام اگر کوئی لیڈر کنفیوژن کا شکار ہو تو قیادت کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ وہ خود تباہ ہوگا اور اپنے لشکر کو برباد کرے گا۔