یہ اقتدار کی بے رحمانہ جنگ ہے۔ کوئی اصول نہ کوئی ضابطہ۔ اصول اور اخلاق کیا ، دکھاوے کی شرافت بھی نہیں۔ کوئی افلاس سا افلاس ہے ۔ حیوانیت سی حیوانیت!
زندگی کو اس کے خالق نے ایک بے پناہ اور خیرہ کن تنوع میں تخلیق کیا ہے۔ اربوں آدمی ہیں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں ہر ایک ناگزیر۔ آفتاب کی حرارت ، مٹی کی روئیدگی ، بادلوں سے برستی بارش ، لوہے اور شیشے کے کارخانے ، ہزار طرح سے ، آدمی کا ہاتھ بٹاتی مشینیں، پھر قدرت کے وہ اٹل قوانین ، جن کے ا دراک اور جن کی حدود میں رہ کرہی بشرنتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔
اس جلیل القدر حاکم عمر فاروق اعظمؓ نے انتظامی ، عسکری اور علمی ہر اعتبار سے جسے نابغہ قرار دیا گیا۔ ایک دن کہا تھا :ہم دھوکہ نہیں دیتے مگر دھوکے کی ہزار شکلوں سے واقف ہیں۔ دوسری طرف زندگی کے اسی فاتح کو کتنی بار ،حالات اور عامیوںکے سامنے عاجز پایا گیا۔ سینہ تان کر ،صحرا سے آنے والا ایک بدو عالی جناب کے سامنے کھڑا تھا۔ '' مجھے پہنائو‘‘ اس نے کہا ، جیسا کہ ان کا محاورہ تھا۔ عرب کپاس پیدا نہ کرتے مگر سوتی لباس پہنا کرتے، دساور سے جو درآمد کیا جاتا۔ پانچ برس تک جاری رہنے والے قحط کے مہ وسال تھے ۔ فرمایا : اس وقت کچھ بھی میرے پاس نہیں۔ ''عمر ! اللہ کو کیا جواب دو گے ‘‘۔ اس نے کہا:، خطاب کا فرزند رو دیا۔ اپنا کرتا اتارااور اس کے حوالے کر دیا۔
بیاہتائوں کے لئے مہر کی حد پربحث چلی آتی تھی۔ امیر المومنین ، ایک دن خطبہ کے لئے اٹھے تو کہا : میں نے اس کی حد مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایک بڑھیا اٹھی اور اس نے کہا '' اللہ اور اس کے رسول ؐ نے جب یہ طے نہیں کیا تم کیسے کر سکتے ہو ؟ ''جہاں پناہ ‘‘ اور ظلِ الٰہی ‘‘ تو بہت بعد کی بات ہے ؟ عرب معاشرے میں ''آپ‘‘ اور ''جناب ‘‘ کے الفاظ بھی رائج نہ تھے ۔
گستاخی کے جواب میں ، آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے آدمی کا جواب کیا تھا؟ لمحہ بھر وہ خاموش رہے اور پھر کہا : ایک بڑھیا نے عمرؓ کو ہلاک ہونے سے بچا لیا۔
باور یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت کے اسلامی نظام میں امیر المومنین کے اختیارات بے پناہ تھے ۔ ہاں ! انتظامی اعتبار سے کافی و شافی مگر قوانین اور پالیسیوں کی تشکیل میں وہ بے بس تھے اور اس پر شکوہ کناں بھی ہر گز نہ تھے۔ قرینے ، اللہ اور اس کے رسول ؐ نے طے کر دیئے تھے ۔ کوئی ان سے انحراف نہ کرسکتا۔ مزید برآں ، اس اجتماعی حیات میں ، حکمران اصول یہ تھا : '' وامرھم شوریٰ بینمم ‘‘ اور ان کے معاملات مشاورت سے طے پاتے ہیں۔ بعض پہلوئوں ہی میں سہی ۔ اس اندازِ حکمرانی کی کوئی جھلک اگر آج دکھائی دیتی ہے تو مغرب میں۔ روحانی اعتبار سے تو وہ کھوکھلے ہیں مگر انداز حکومت میں قانون غالب ہے ، حکمران نہیں۔
ایسا بھی ہوتا کہ قبائلی یا جنگی لیڈروں سے صلاح مشورے کے بعد حکم صادر کیا جا چکا ہوتا۔ حکمت عملی طے پا چکی ہوتی۔ اس کے باوجود زیادہ ادراک کے ساتھ کوئی بروئے کار آتا تو اس کی سنی جاتی ۔
جنگ نہاوند میںاہل الرائے کا خیال یہ تھا کہ ایران کی تمام تر عسکری قوت یکجا ہے؛ چنانچہ خالد بن ولید کی بجائے ، خود عمر ابن خطابؓ کو میدان میں اترنا چاہئے۔ خالدؓ ایک تاریخ ساز سالار تھے ، تاریخ کے دوام میں جنہیں زندہ رہنا تھا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے انہیں '' سیف اللہ ‘‘ کا لقب عطا کیا تھا، اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ۔ عمر بھر کبھی کسی میدان میں شکست نہ ہوئی۔ دلیل یہ تھی کہ عمر ؓ سپہ سالار ہوں گے تو زیادہ جوش و جذبے کے ساتھ ، عرب بروئے کار آئیں گے ۔ ہر کہیں مسلمانوں کو مطلع کر دیا گیا۔ وقائع نگار لکھتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے چاروں طرف لشکر ہی لشکر تھے۔ حد نظر تک جنگجوئوں کی شوکت کے منظر۔ اتنے میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ تشریف لائے اور حکمران سے یہ کہا : '' جنگ ایک ہنڈولا ہے، کبھی اوپر جاتا ہے اور کبھی نیچے۔ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو اسلام کا کیا ہوگا ؟ وہ جن کی تربیت ، اللہ کے رسول ؐ نے کی تھی ، وہ خود سے گزر گئے تھے۔ انا کا علم وہ کبھی بلند نہ کرتے تھے ، استدلال کے جواب میں استدلال ، منطق کے جواب میں منطق۔ ذہنی برتری منوانے کی خاطر نہیں بلکہ صداقت کی تلاش میں ۔ مجلس مشاورت پھر سے برپا ہوئی اور اسد اللہؓ کی بات مان لی گئی۔ باقی تاریخ ہے کہ چند ہفتوں کے بعد عربوں کا لشکر سفید محلات کی قطاروں کے سائے میں آسودہ تھا۔
قانون کی بالاتری ،سماج کی اخلاقی اور علمی حالت، قوموں کے مستقبل کا انحصار اسی پر ہوتا ہے۔ علم ہم نے کھو دیا۔ اخلاق کو‘ ریا سے بدل دیا۔ استدلال کو جذبات سے اور قوانین کو من مرضی کرنے والے حکمرانوں سے ۔علم اور اداروں کی بجائے ، جب خوشامد سرفراز ہو تو کوئی بھی معاشرہ سرخرو کیسے ہوسکتا ہے؟ فروغ کیسے پا سکتا ہے؟
کسی ایک آدھ پارٹی یا گروہ کا ذکر نہیں۔ سب کے سب کیا اسی حال سے دو چار نہیں ؟ پانچ برس تک جماعت اسلامی اور تحریک انصاف باہم اشتراک سے صوبے میں مقتدر رہیں۔ حصہ بقدر جثہّ، جماعت اسلامی کے وزراء کی کارکردگی سے کپتان شاد تھا، اپنے حصے پر جماعت رضا مند۔ اختلاف کتنا بھی شدید ہو، کسی نہ کسی طرح نمٹا لیا جاتا۔ آئندہ الیکشن کے لئے سودا نہ ہوسکا تو نہ ہوسکا۔ جوتیوں میں دال کیوں بٹ رہی ہے۔ پچھلی بار یہی کچھ جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کے درمیان ہوا تھا۔ تحریک انصاف والے جماعت اسلامی کو اب منافقوں کا ٹولہ کہتے ہیں اور اسلامی جماعت کے صالحین پی ٹی آئی کو ٹوڈیوں کا ایک گروہ۔ ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن سے مل کر اب وہ نفاذِ اسلام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پچھلی بار کی فصل حضرت مولانا فضل اللہ اور ان کے رفیق تھے۔
اقتدار کی بو پا کر ، عمران خان کے دلاور اب دیوانے ہو رہے ہیں۔ حقیقی اخلاق اور سچی شرافت تو دور کی بات ہے، ظاہری شرافت شائستگی بھی تخلیل ہوئی۔ جنون اور سونامی کے علمبرداروں سے تو خیر کیا امید ہوتی۔ ان کی اخلاقی تربیت پر کبھی سوچا ہی نہ گیا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے وارثوں کو کیا ہوا ؟ ع
زبان بگڑی سو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
میاں محمد نوازشریف کے بہت قریبی نائبین میں سے ایک صاحب ازراہ کرم کل غریب خانے پر تشریف لائے۔ مدتوں کی یاد اللہ ہے۔ اس کا تعلق سیاست سے نہیں۔ ایک طویل عرصہ ، اپنے لیڈر کے وہ قابل اعتماد نائب رہے۔ کم کم ہی بات کرتے ہیں اور درونِ خانہ کی تو شاذ ہی۔
خیال یہ ہے کہ افواج پاکستان سے میاں صاحب کا عناد بتدریج بڑھا۔انہوں نے کچھ واقعات سنائے اور کہا : بالکل نہیں ، اوّل دن سے یہی حال تھا ۔ خود اپنی ذات گرامی کے سوا ، طاقت کے کسی دوسرے مرکز، کسی دوسرے آزاد ادارے کو وہ گوارا نہیں کرسکتے۔ دوسرا نکتہ یہ آشکار کیا کہ وعدے کی پاسداری ان کے نزدیک بے معنی بات ہے۔ ثالثاً معاف کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔
پوچھا : اب کیا ہوگا ؟ جہاندیدہ آدمی نے جواب دیا۔ شریف خاندان کے اقتدار کی مدت تمام ہوئی۔ مصالحت ہو سکتی ہے مگر اس صورت میں چار چھ ماہ جیل میں رہیں یکسر بے بس ہو جائیں۔ اس کے باوجود تاک میں رہیں گے۔ فی الحال تو کھوکھلے خوشامدیوں کے گھیرے میں ہیں۔ ایک پنجابی لیڈر کا رونا ؟ سندھ کا سورما کیا ان سے بہتر ہے ؟ جی نہیں بدتر ۔ رہی تحریک انصاف تو کچھ امیداس سے وابستہ ضرور ہے مگر پورا اقتدار اسے ملا ہی کب ہے کہ زمانہ اس پر فیصلہ صادر کرے ۔
یہ اقتدار کی بے رحمانہ جنگ ہے۔ کوئی اصول نہ کوئی ضابطہ۔ اصول اور اخلاق کیا ، دکھاوے کی شرافت بھی نہیں۔ کوئی افلاس سا افلاس ہے ۔ حیوانیت سی حیوانیت!