ہیجان اور چیخ و پکار سے نہیں‘ مشکل مسائل ریاضت سے حل ہوتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ جدوجہد کے ہنگام صبر اور حکمت درکار ہوتی ہے، شور و شرابا نہیں۔
سندھی دانشور سے جب یہ کہا کہ بلھے شاہ کا تعلق پنجاب سے تھا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر کہا: یہ کیسے ممکن ہے؟ عرض کیا: وہ اچ شریف میں پیدا ہوئے مگر ان کی زندگی زیادہ تر قصور اور کچھ لاہور میں گزری۔ اس کا اصرار تھا کہ وہ سرائیکی ہیں۔ ارے بھائی‘ ان کے مرشد لاہور میں تھے‘ مزار قصور میں ہے۔ زبانوں میں ارتقا ہوتا ہے۔ تب یہی لہجہ تھا اور ممکن ہے کہ سرائیکی کا کچھ اثر بھی ہو۔ وہ زیادہ معلومات نہ رکھتے تھے اور کج بحث بھی نہ تھے؛ چنانچہ خاموش ہو گئے۔
نو سال کی عمر کا ایک واقعہ یاد آیا۔ رحیم یار خان کے قصبے رحیم آباد میں میرے مرحوم والد نجیب اور حلیم امین خان مرحوم کے ایک وسیع و عریض زرعی فارم کے منیجر تھے۔ قریب کے ایک گائوں سے گھر واپس آتے ہوئے‘ ایک ہم عمر سے ملاقات ہوئی۔ دیہی علاقوں میں ایک دوسرے کا نام ہی نہیں‘ ذات اور خاندان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ کسی تمہید اور تعارف کے بغیر‘ ہم گپ کرنے لگے۔ رخصت ہونے کا وقت آیا تو اس نے خاندان کے بارے میں پوچھا۔ بتایا تو وہ ہنسا اور کہا ''اچھا تو تم پنجاپی ہو‘‘۔ پھر ایک ذرا سے توقف سے کہا ''میں بھی پنجاپی ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے‘ ابا مرحوم کہا کرتے: ایسی عمدہ سرائیکی یہ بولتا ہے کہ کوئی پہچان نہیں سکتا۔
سرائیکی ایک بہت میٹھی زبان ہے۔ کیوں نہ ہو‘ خواجہ غلام فرید کے دیار کی ہے‘ سر تا پا الفت‘ سر تا پا انس۔ سال میں کم از کم ایک بار ملتان تشریف لاتے تو کھوکھر ہائوس میں قیام کرتے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ کوئی سائل ایسا نہ تھا‘ جس کی بات نہ سنی ہو، جس کی مدد نہ کی ہو۔ ایک دن ایک انگریز خدمت میں حاضر ہوا‘ بوڑھا اور بیمار۔ فرمایا: کچھ زیادہ روپے اسے دے دو۔ ایک شب نواب صادق خان پنجم عباسی نے دروازے پر دستک دی۔ خادم متامل تھا مگر اصرار پہ آپ کو بیدار کیا۔ اس کی بات سنی‘ مسئلے کا حل تجویز کیا اور فرمایا: خلقِ خدا سے حسن سلوک کرو تو پریشانیوں سے بچے رہو ۔ ارشاد کیا: یہ کوئی ہنگامی مسئلہ نہ تھا‘ خواہ مخواہ آپ ذہنی دبائو کا شکار ہو گئے۔ برا نہ مانا اور پھر سے آرام کے لیے تشریف لے گئے‘ آخر شب جاگنے والا صوفی‘ جس کے کلام میں بعض ٹکڑے ایسے ہیں کہ الہام کا گمان ہوتا ہے‘ مثلاً وہ مشہور نظم۔
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
علامہ اقبالؔ نے جو الفاظ آپ کی مدح میں کہے تھے‘ وہ اس بلند مقام کا تعین کرتے ہیں، آپ جس پر فائز تھے۔ فرمایا: جس قوم میں غلام فریدؔ ایسا شاعر موجود ہو‘ وہ اقبالؔ کو کیوں پڑھے گی۔ اقبالؔ کو پڑھا گیا‘ چاہا گیا‘ ان سے سیکھا گیا۔ سید سلیمان ندوی نے ان کی وفات پر لکھا: فلسفے اس سے نکالے جائیں گے اور رہنمائی اب ان سے طلب کی جائے گی۔ بد بختوں اور بد قسمتوں کے سوا کوئی نہیں‘ جو اقبالؔ کا قائل نہ ہو؛ باایں ہمہ وہ خواجہ سے متاثر تھے‘ جیسے امام ابوحنیفہؒ‘ امام جعفر صادقؒ سے۔ مورخ کہتے ہیں کہ آپ کی خدمت میں ہوتے تو متاثر نہیں‘ مرعوب نظر آتے۔
ایک خواجہ ہی کا کیا ذکر، بہاولپور کے آخری حکمران کی سوانح کوئی لکھے تو اوراق جگمگا اٹھیں۔ وفد پہ وفد پنڈت جواہر لعل نہرو بھیجتے رہے۔ پیشکش پہ پیشکش کرتے رہے کہ ہندوستان سے وہ الحاق کر لیں۔ نواب صاحب نے سن کر نہ دیا۔ 1947ء کے بعد مشرقی پنجاب سے مہاجروں کے قافلے امڈے تو سب سے زیادہ اہتمام بہاولپور کے ریلوے سٹیشن پر ہوتا۔ پکا ہوا کھانا لے کر جاتے اور گاہے خود نگرانی کرتے۔ پنجاب یونیورسٹی اور علی گڑھ یونیورسٹی سمیت‘ کتنے ہی تعلیمی اور فلاحی اداروں کی مدد کرتے۔ پاکستان بنا تو کوئی افتاد سی افتاد تھی۔ مائونٹ بیٹن برہم تھا اور کانگریس‘ پاکستان کو تباہ کرنے کے در پے تھی۔ ضلع امرتسر کی دو تحصیلیں بھارت میں شامل کر کے کشمیر کا راستہ روک دیا گیا۔0 8 کروڑ روپے کے اثاثے‘ حکومت پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ تب نواب حیدر آباد کے علاوہ جس آدمی نے سب سے زیادہ مالی امداد فراہم کی‘ وہ یہی نواب بہاولپور تھے۔
پرسوں پرلے روز مکرم ڈاکٹر خورشید رضوی تشریف لائے تو دیر تک بہاولپور میں قیام کا ذکر کرتے رہے۔ ریاست کے مکینوں کی تعریف میں رطب اللسان۔ احمد ندیم قاسمی بھی اسی محبت کے ساتھ بہاولپور کو یاد کیا کرتے۔ پنجابی کے شاعر نے کہا تھا:
لوکی کہندے لما بھیڑا‘ ساکو لوک لمے دے بھاندے
جے کد لما بھیڑا ہوندا دریا کیوں لمے ول واہندے
بعض لوگ کہتے ہیں: لما برا ہے۔ ہمیں تو لمے کے لوگ ہی سب سے زیادہ بھاتے ہیں۔ لما برا ہوتا تو دریا کیوں اس کی طرف بہا کرتے۔
1970ء میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے صوبے بحال کیے تو بہاولپور کو پنجاب میں مدغم کر دیا۔ ایسی شان سے اس کے خلاف تحریک اٹھی کہ ملک بھر کے در و بام لرز اٹھے۔ یکم اکتوبر 1969ء کو یہ ناچیز باقاعدہ صحافت سے وابستہ ہوا۔ یاد ہے کہ 1970ء میں پہلا مضمون بہاولپور صوبے کے حق میں لکھا۔ سوات کی طرح‘ اس ریاست کی روایات شاندار تھیں۔ پولیس اچھی‘ عدلیہ اس سے بھی بہتر۔ رشوت شاذ‘ حکمرانوں تک رسائی سہل۔ قومی اقدار و روایات کا احترام۔
سامنے کی بات یہ بھی ہے کہ 21 کروڑ کی آبادی میں گیارہ کروڑ کا ایک صوبہ کیسے ہو سکتا ہے‘ جو باقی تینوں سے بڑا ہے۔ دنیا میں کہیں اور بھی ایسا ہے؟ ہر کہیں چھوٹے صوبے ہیں اور شہری حکومتیں۔ مرکز کو طاقتور ہونا چاہئے مگر دفاع اور چند دوسرے امور میں۔ روزمرہ کے کاروبار حکومت سے مرکز کا کیا واسطہ۔ پنجاب دنیا کے 95 فیصد ممالک سے بڑا ہے۔
جنوبی پنجاب یا بہاولپور کو الگ صوبہ بننا چاہئے۔ نون لیگ کی تجویز کے مطابق دو صوبے۔ ایک بہاولپور، دوسرا جنوبی پنجاب۔ چلئے ایک ہی اگر مکین چاہیں۔ پختہ وعدہ کرنے‘ پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کرانے کے بعد آپ مکر کیسے گئے۔ اور بھی صوبے بننے چاہئیں‘ مثلاً پوٹھوہار‘ مثلاً ہزارہ۔ بہترین تو یہ ہے کہ افغانستان اور ایران کی طرح تمام ڈویژنوں یا زیادہ سے زیادہ دو ڈویژنوں کو ملا کر‘ بیس پچیس صوبے بنا دیئے جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اعتبار سے‘ وہ پنجاب‘ سندھ‘ پختون خوا اور بلوچستان کا حصہ رہیں۔ گیارہ کروڑ کا صوبہ مگر کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر یہ کہ بروقت فیصلے صادر نہ ہونے سے پیچیدگیاں جنم لیتیں اور نفرتیں پھیلتی ہیں۔
کل پرسوں ایک دوست نے لکھا: رنجیت سنگھ پنجابیوں کا ہیرو ہے، ملتان کی رزم گاہ میں شہید ہونے والا نواب مظفر خان نہیں۔ رنجیت سنگھ؟ جس نے اپنی ماں کو قتل کیا تھا اور اس کے باپ نے اپنی ماں کو؟ لاہور کی بادشاہی مسجد میں‘ جس نے گھوڑے باندھ دیئے تھے۔ شہر میں اذان دینے پر پابندی لگا دی تھی۔ ان چند احمقوں کے سوا‘ غیر ملکی ایجنڈے پر جو پاکستان تحلیل کرنے کے حامی ہیں‘ رنجیت سنگھ کی مدح کون کرتا ہے... اور کون بدقسمت ہے جو نواب مظفر خان شہید کا مداح نہ ہو گا؟
دانشوروں پہ خدا رحم کرے‘ بالکل بے وقت دو بحثیں شروع کر دی ہیں۔ ایک یہ کہ سرائیکی ایک زبان ہے یا پنجابی کا ایک لہجہ۔ ارے بھائی‘ سرائیکی بولنے والے اگر اسے ایک زبان کہتے ہیں تو کسی کو اعتراض کیا ہے۔ پنجابی اور سرائیکی ایک دوسری کی حریف تو نہیں۔ نہ ہی پنجابی اور سرائیکی بولنے والے۔ سوال تو الگ صوبے کا ہے اور اس کے حق میں پہاڑ ایسے دلائل ہیں۔
اگر کوئی پنجابی سرائیکی بولنے والوں اور کوئی سرائیکی پنجابیوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
رکو‘ خدا کے لیے رکو۔ ہوش و خرد سے کام لو۔ جتنی زیادہ الفت اور ہم آہنگی ہو گی‘ اتنا ہی فروغ ہو گا۔ جتنی زیادہ نفرت‘ اتنی ہی پیچیدگیاں اور اتنی ہی خرابیاں۔ اللہ کے بندو‘ اتنی سادہ سی بات تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟
ہیجان اور چیخ و پکار سے نہیں‘ مشکل مسائل ریاضت سے حل ہوتے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ جدوجہد کے ہنگام صبر اور حکمت درکار ہوتی ہے، شور و شرابا نہیں۔