جو چاہتے ہیں ، فقط دعا نہیں ، وہ تگ و دو کرتے ہیں ۔ دعا انہی کی باریاب ہوتی ہے ، جن کی زبانیں ان کے قلوب سے اور جن کا کردار ان کے ادراک سے ہم آہنگ ہو۔
کیا واقعی ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ادبار سے نجات پائے ۔ ذلت کی جو سیاہی سر تا پا اجلے جناح کے پاکستان پر تھپی ہے ، دھل جائے ۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ نیو یارک ، لندن ، پیرس ، استنبول اور جدہ کے ہوائی اڈوں پر سبز پاسپورٹ کو حقارت سے نہ دیکھا جائے۔ زیادہ نہیں تو اتنی ہی عزت میسر آئے ، جتنی کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے زمانے میں تھی ۔ لنڈن بی جانسن اور ملکۂ برطانیہ‘ جن کا خوش دلی سے استقبال کرتے۔ یکے بعد دیگرے محنت کش غریب پاکستانیوں کے فرزند برطانوی پارلیمنٹ اور کابینہ کا حصہ بنے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ، عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی ، تعمیرِ ملت فائونڈیشن والے ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم جیسے لوگ ایوانِ اقتدار کا حصہ بنیں۔
ہم نہیں چاہتے۔ جو چاہتے ہیں ، وہ تگ و دو کرتے ہیں۔ اولاد کی تعلیم کے لیے سب ایثار کرتے ہیں ۔ پاکستان کیا ہمارا گھر نہیں ہے؟ ہم چیختے چلاتے دانشوروں ، سیاستدانوں اور ہمارے علمائے کرام نے قوم کے لیے کیا کبھی اس سے آدھا ایثار بھی کیا ہے ، جتنا اپنی اولاد کے لیے ۔ آدھا کیا، تیسرا، چوتھا، دسواں حصہ؟ سینکڑوں اور ہزاروں، جنہوں نے اپنی زندگی آدمیت کی خدمت کے لیے وقف کی ہے یا اس کا ایک قابلِ قدر حصہ۔ کیا دانشوروں اور سیاستدانوں میں بھی کوئی ہے۔ مشکل سے چند ایک ہوں گے ، جن کا کارنامہ یہ ہے کہ قوم کے لہو سے اپنا لقمہ تر نہیں کرتے۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ اس قافلے کا حصہ تھیں ، سرکارؐ کے جلو میں ریگزار میں جو محوِ سفر تھا، جب تیمم کی آیات اتریں ۔ جب کسی نے پکار کر کہا : اے ابو بکرؓ کے گھرانے والو یہ پہلا خیر نہیں ہے ، جو تمہاری وجہ سے ہمیں نصیب ہوا ہے ۔ خدا اس شخص کا نطق بند کر دے ، جو ابو بکرؓ کے گھرانے کی توہین کر ے ۔ سرکارؐ جنابِ صدیقِ اعظمؓ کے ہاں تشریف فرما تھے ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے علاوہ یہ اعزاز انہی کو حاصل تھا کہ ان کے ہاں تشریف لے جاتے ۔ اس زمانے سے ، جب جبرئیل امینؑ کی آمد کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ان کی صاحبزادی اسما بنتِ ابو بکرؓ ، وہی اسما بنتِ ابوبکرؓ جو ہجرت کے ہنگام تین دن تک آپؐ جب غار میں چھپے رہے ، جان ہتھیلی پہ رکھ کر کھانا لے جایا کرتیں۔ اچانک سیدنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ننھا فرزند چولہے کی طرف لپکا ، شعلہ جس میں روشن تھا ۔ ایسی بے تابی سے ، جو مائوں کا شیوہ ہے ، لپک کر انہوں نے بچے کو تھاما۔ رحمۃللعالمینؐ سے پھر سوال کیا : یا رسول اللہؐ مائوں کے دل اپنے بچوں کے لیے اگر ایسے گداز ہو جاتے ہیں تو کیا اللہ اپنے بندوں پہ اتنا کرم نہ کرے گا۔ ارشاد کیا : مائوں کی نسبت ، اللہ اپنے بندوں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔
پاکستان پہ ابرِ کرم برستا کیوں نہیں ؟ کشمیر پہ کیوں نہیں برستا؟ فلسطین پہ کیوں نہیں برستا ؟ لاہور میں ایک شاعر ہوا کرتے تھے، حفیظ تائب۔ جب تک نعت پڑھنے اور سننے والے زندہ ہیں ، ان کا نام زندہ رہے گا ۔ اس میں کوئی شبہ نہ ہونا چاہئے کہ نعت سننے اور پڑھنے والے اس وقت تک باقی رہیں گے ، جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے ۔ پیغمبرِ صحراﷺ کے دامانِ کرم میں جس نے بھی پناہ طلب کی، پناہ اسے دی گئی ۔ آٹھ جماعتیں پڑھی تھیں ، واپڈا میں اہلکار تھے ، معلوم نہیں ، کب اور کیسے شاعر کے دل پہ نور اترا۔ ایک ایک سیڑھی چڑھتے پھر وہ لاہور کے اہلِ علم میں شامل ہوئے ۔ پھر ان میں ، خلق جن کے راستے میں آنکھیں بچھاتی ہے۔ طالبِ علم آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سر جھکائے کھلتے ہوئے گندمی رنگ اور بوٹا سے قد کے شاعر کو ریلوے روڈ لاہور کی ایک چھوٹی سی مارکیٹ میں داخل ہوتے دیکھتا ہے ۔ پہلی بار تو نہیں لیکن آخر ایک دن ان کی شفقت سے شہ پا کر ان سے پوچھا : ایک گرد آلود ستارہ سی کیسے چمک جاتی ہے ، مہتاب کیسے بنتی ہے؟ سر اٹھائے بغیر تائبؔ نے سر اٹھایا اور یہ کہا : بس ایک چھوٹی سی بات میں جانتا ہوں ۔ کبھی کسی کام کو حقیر نہ سمجھا جائے۔ پاجامہ استری کرنے اور جوتا پالش کرنے کو بھی ۔ اللہ نے اس کی توفیق مجھے بخشی ۔ پھر رحمت کے دروازے کھلنے لگے ۔ پھر وہ ذرا خفیف سے ہو گئے کہ بالواسطہ طور پر ہی سہی، لا شعوری طور پر ہی سہی، اپنی تعریف کا ذرا سا پہلو تو اس میں نکلتا تھا۔ میں نے ان کے ہاتھ تھامے اور انہیں ایک نثری نظم سنانے کی جسارت کی ۔ یہ سیدنا بلالؓ کے بارے میں تھی ۔ انہیں خوش آئی ۔ شاعر اور ادیب الفاظ کے معاملے میں طبعاً سخی ہوتے ہیں مگر وہ مختلف تھے ۔ حوصلہ افزائی کی مگر اتنی ہی ، جتنی کہ زیبا تھی ۔ کوئی دن میں مال روڈ کے چینی لنچ ہوم میں ، جہاں حبیب جالب ؔ، احسان دانشؔ اور آغا شورش کاشمیری تشریف فرما ہوتے ، رسولِ اکرمؐ کے ثنا خوان کو تہہ خانے کی طرف جاتے دیکھا ۔ ایک ادبی تنظیم کے اجلاس وہاں ہوا کرتے ہیں ۔ اپنی بہترین نعتوں میں سے ایک نعت اس روز انہوں نے سنائی ۔ آنکھوں میں نہ سہی لیکن لہجے میں نمی ضرور تھی ۔ جب مقطع پر وہ پہنچے تو ایک گہرا سناٹا تھا اور ایسا لگا کہ جاوا سے حجاز تک
ایک بار اور بھی یثرب سے فلسطین میں آ
راستہ تکتی ہے مسجدِ اقصیٰ ترا
کیوں آپؐ تشریف نہ لائیں گے ؟ کیوں مسلمان کٹ کٹ کر گرتے رہے اور اب تک گر رہے ہیں ؟ ارشاد یہ کیا تھا کہ مظلوم کی آہ اور عرشِ بریں کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ۔ کابل ، کراچی اور کشمیر کے راستے لہو سے بھر گئے ہیں ۔ عالمِ عرب اجڑ گیا ۔ مظلوموں کی آہیں عرشِ بریں تک پہنچتی کیوں نہیں ہیں ؟ ہسپانیہ کے پانیوں میں راڈرک نے حاجیوں کا ایک جہاز ہی تو روکا تھا ۔ صرف ایک خاتون نے چیخ کر ''وا محمداؐ‘‘ ہی تو کہا تھا ۔ ساڑھے سات سو برس کے لیے عرب اور بربر ان پر مسلط کر دئیے گئے ۔ طارق بن زیاد بہت دیر نہ جیا۔ چالیس سال کی عمر میں دنیا سے اٹھ گیا لیکن صدیوں تک اس کی اولاد نے سبزہ زاروں پر حکومت کی۔ اگرچہ چھ سو برس بعد دمشق کے سفر میں کوڑھی بالڈن کے سالار ریجنالڈ نے بھی حاجیوں کے ایک قافلے ہی کو لوٹا تھا۔ وہاں بھی فقط ایک چیخ ہی بلند ہوئی تھی۔ ایک کرد خاتون نے، صلاح الدین ایوبی کی پھوپھی زاد‘ اسی طرح چیخ کر ''وا محمداؐ‘‘ ہی تو کہا تھا ، جس پر جنگجو ایوب کے فرزند نے ، جو کم ہی جذبات سے مغلوب ہوتا تھا ، قسم کیوں کھا لی ؟ اس نے یہ کیوں کہا : اللہ کی قسم میں اس شخص کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا ۔ اس کی قسم پوری کیسے ہو گئی ؟ عینِ جالوت کے معرکے میں یورپ کی مشترکہ افواج بھیڑ بکریوں سے بھی کمتر کیسے ہو گئیں ۔ کچھ نے تڑپ تڑپ کر ریگزار میں جان دی۔ 32 شہزادے پابجولاں پیش ہوئے ۔ 7 سو برس تک صلاح الدین کی تلوار بیت المقدس کی حفاظت کرتی رہی ۔ کیا یہ وہی زمین و آسمان نہیں ۔ کیا ہم اسی رحمۃ اللعالمینؐ اور اسی رب العالمین کے ماننے والے نہیں ؟ اشک بار آنکھوں کے ساتھ اقبالؔ نے آسمان کی طرف دیکھا توصدا یہ آئی
تھے تو وہ آبا تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
جو چاہتے ہیں ، فقط دعا نہیں ، وہ تگ و دو کرتے ہیں ۔ دعا انہی کی باریاب ہوتی ہے ، جن کی زبانیں ان کے قلوب سے اور جن کا کردار ان کے ادراک سے ہم آہنگ ہو ۔