دیہات میں ظالم مارتے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔ اے خدائے دیرگیر‘ اے خدائے دیرگیر!
یہ سینہ کوبی کا موسم ہے۔ کم از کم ساٹھ سے ستر فیصد کرم کش دوائیں جعلی ہیں۔ جعلی دوا کا مطلب ہے‘ دو یا تین گنا استعمال۔ اس کے باوجود کیڑے نہیں فصل مرتی ہے۔ دس بارہ کروڑ انسان عذاب سے دوچار ہیں۔ کسی وزیراعلیٰ کو فرصت نہیں کہ غور فرما سکے۔ چاہتے یہ ہیں کہ نجات دہندہ مانے جائیں۔ شہبازشریف تو رہے ایک طرف‘ مراد علی شاہ بھی۔ سندھ کا حال‘ مہاتیر محمد کے بعد والے ملائیشیا سے بھی بدتر ہے۔ جمعرات کو حلف اٹھاتے ہی‘ 92 سالہ مہاتیر نے سابق وزیراعظم نجیب رزّاق کے گھر پہ چھاپہ مارنے کا حکم دیا۔ اربوں برآمد ہوئے۔ سندھ کی ساری زمین‘ چراگاہ ہے۔ بے لگام چوپائے کھاتے کم اجاڑتے زیادہ ہیں۔
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی
تین دن ہوتے ہیں‘ کسی گائوں سے روتا بلکتا ہوا ایک پیغام ملا: سبھی کے دکھ آپ کو دکھائی دیتے ہیں۔ سبھی کے آنسو آپ پونچھتے ہیں۔ ہم کاشتکاروں کا حال آپ کیوں نہیں پوچھتے۔ ہماری فریاد آپ کیوں نہیں سنتے۔ کئی ہفتے گندم کھیتوں میں پڑی رہی۔ آج بیچ دی‘ ایک ہزار روپے من بیچ ڈالنی پڑی کہ باردانہ مل نہ سکا۔ نعیم صدیقی مرحوم کا شعر یاد آتا رہا:
اٹھارہ سال یونہی حسرتوں میں بیت گئے
تمہارے واسطے ساٹن کا سوٹ سل نہ سکا
ایک صدی ہونے کو آئی‘ اقبالؔ نے جب کہا تھا: دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ/ بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِزمیں ہے۔ شریف خاندان نے یوں تو ہر طرح سے ملک کو کھوکھلا کر ڈالا مگر کاشتکار کو تو ادھ موا ہی کردیا۔
بیج! فصل ڈیڑھ سے دو گنا ہو سکتی ہے‘ بیج اگر اعلیٰ ہو۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ کسان کو معلوم ہی نہیں کہ گیہوں اور دھان‘ کپاس اور آلو کا اچھا بیج کون سا ہے۔ کہاں سے دستیاب ہے۔ کون سی کمپنی ہے جو اسے دھوکا نہ دے گی۔ تعلیم چاہیے تھی۔ ایک کے بعد دوسری حکومت کا عزم یہ رہا کہ رعایا کو اس سے دور رکھا جائے۔ دو کروڑ...دو کروڑ بچے گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ کبھی کسی دل میں ہوک نہیں اٹھتی۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھتا۔ کبھی کسی کو شرم نہیں آتی۔ ساڑھے تین سو برس ہوتے ہیں جھنگ کے عارف سلطان باہو نے کہا تھا:
گلیاں دے وچ پھرن نمانے لعلاں دے ونجارے ہو
دور اس کی آواز دلّی میں سنائی دی۔ اورنگزیب عالمگیر نے ملاقات کی التجا کی۔ اس ملاقات کی یادگار ''اورنگ نامہ‘‘ ہے۔ بادشاہ کو نصیحت اور رعایا کو بھی۔ زمانہ گزرا کہ دستیاب نہیں۔ سلطان العارفین کی کچھ اور کتابیں بھی غیرمطبوعہ ہیں۔ چھاپی نہیں اولاد نے‘ کم از کم سنبھال تو رکھی ہیں۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
قائداعظم کی میراث پہ البتہ زاغ ہی مسلّط ہیں۔ غضب خدا کا اڑھائی کروڑ ایکڑ زیرکاشت زمین میں سے‘ بیشتر ناہموار ہے۔ آبادی کے لحاظ سے زیرکاشت رقبے کا تناسب تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ زرعی زمین کے ناہموار ہونے کا مطلب مگر یہ ہے‘ چالیس فیصد زائد آبپاشی‘ کم پیداوار۔ اس کرّہ خاک پہ کبھی چند ہزار نفوس آباد تھے‘ چند لاکھ‘ چند کروڑاور اب سات ارب۔ دنیا بھر میں آبپاشی کے اب دو نظام رائج ہیں۔ ایک کو قطروں اور فواروںسے آبیاری کہا جاتا ہے۔ ہزاروں برس پرانے جس طریق پہ ہم قائم ہیں‘ وہ سیلابی انداز ہے۔ ابھی بیس برس پہلے تک‘ ملک کے کئی علاقوں میں گندم کی فصل کو تین چار بار پانی دیا جاتا۔ رسد کم ہوگئی تو بات دو بار پہ آ ٹھہری۔ تب معلوم ہوا کہ یہ کفایت کرتا ہے۔ کرم کش ادویات کے باب میں پیہم ایک ڈکیتی ہے جو ملک بھر میں برپا ہے۔ حکمرانوں کی کھال موٹی ہے تو اپوزیشن لیڈر آرام پسند اور سہل کوش۔ میٹرو بس‘ اورنج ٹرین اور کئی کئی کلومیٹر لمبے پلوں کے لیے‘ قارون کا خزانہ ہے۔ بیمار بچے کے لیے پانچ روپے کی ڈسپرین مہیا نہیں۔ گنے کے کاشتکاروں کو فریادکرتے‘ روتے پیٹتے ایک عشرہ ہونے کو آیا۔ دو بڑے حکمراں خاندان درجنوں شوگر ملوں کے مالک ہیں۔ ایک سو اسی روپے فی من کاشتکار کو ملنے چاہئیں۔ اوّل تو بھکاری کی طرح‘ گنے کی ٹرالی لیے‘ تین تین‘ چار چار دن شوگر مل کے باہر وہ کھڑا رہتا ہے۔ ایک چیز کو ''کٹوتی‘‘ کہتے ہیں۔ پینتالیس یا پچاس کلو وصول کرکے‘ چالیس کلو کی رسید۔ ثانیاً وزن کرنے کا عمل بعض اوقات فروخت کنندہ کے سامنے طے نہیں پاتا۔ پھر 180 روپے کی بجائے 140 یا 150روپے ادائیگی۔ سندھ میں اس سے بھی کم۔ اللہ کے چند ہی بندے ہیں جو عدل سے‘ احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ یہ اللہ کے آخری رسولؐ کی امت ہے‘ جن پہ نازل ہونے والی کتاب میں لکھا ہے ''کوئی ذی روح ایسا نہیں‘ جس کا رزق اللہ کے ذمّے نہ ہو‘‘۔ زیادتی نہیں‘ ظلم نہیں غنڈہ گردی ہے یہ غنڈہ گردی۔ لوٹ مار ہے یہ لوٹ مار۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ اگلے زمانوں کے فاتحین بھی کسانوں اور کاشتکاروں پہ ایسا ظلم نہ ڈھاتے تھے۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگے۔ جب تحفظ کا ذمے دار حکمراں ہی رعایا کو لوٹنے لگے۔ جب بادشاہ بنیا ہو جائے۔
دیر تک علاوالدّین خلجی سرجھکائے بیٹھا رہا۔ دلّی کا موٹا کوتوال اس کے نمایاں مشیروں میں سے ایک تھا‘ کئی بار سامنے گیا۔ اس طرح لیکن وہ خیالات میں غرق تھا کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی۔ ایک دوسرے مشیر کے پاس کوتوال گیا اور کہا کہ معاملہ گمبھیر لگتا ہے۔ کوئی بہت بری خبر آئی ہے یا کسی طوفان کا اندیشہ ہے۔ جسارت کرکے وہ اس جلیل القدر حکمراں کے بہت قریب جا کھڑے ہوئے‘ جس نے منگول وحشیوں کو برصغیر میں داخل ہونے نہ دیا تھا۔ بادشاہ نے سر اٹھایا اور کہا: برداشت کے فوراً بعد گندم کی فصل سستی اور فراواں ہوتی ہے۔ آئندہ موسم بہار تک نرخ دو گنا ہو جاتے ہیں۔ ''بڑا ظلم ہے‘ یہ تو بڑا ظلم ہے‘‘ وہ بڑبڑایا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ بنجاروں سے نگر نگر‘ گائوں گائوں‘ گلی گلی گھوم کر‘ اشیائے ضرورت کے بدلے جو گیہوں سمیٹ لاتے ہیں‘ پوری کی پوری جنس آغازِ گرما میں خرید لی جائے‘ پوری کی پوری۔ سارا سال تاکہ یکساں قیمت پر مہیا رہے۔ ظاہر ہے کہ پوری فصل ذخیرہ کرنے کے لیے برصغیر کے طول و عرض میں تمام ضروری انتظامات کا حکم بھی دیا ہوگا۔ ایک ہمارے زمانے کے شیرشاہ سوری ہیں‘ جنابِ شہبازشریف مدظلہ العالی دس سال تک تخت پر نزولِ اجلال کے بعد‘ اب ان کا ارشاد ہے: تیسری بار موقع دیا جائے تو وہ نظام تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ایک عشرے میں جو شخص باردانے کی فراہمی کا بندوبست نہ کر سکا‘ اس کے وعدے پر کیسا اعتبار۔
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہوگا
کتنے آنسو ترے صحرائوں کو گلزار کریں
دیہات سے آنے والے خبر دیتے ہیں کہ کاشتکار شریف خاندان سے اب مایوس ہو چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زرداری خاندان سے ہرگزکوئی توقع ہی نہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ دسترخوانوں پر ڈٹے‘ تحریک انصاف کے لیڈر بھی مفلسوں اور محتاجوں سے بے نیاز ہیں۔ دنیا کا ہر موضوع انہیں سوجھتا ہے۔ ہر بات انہیں یاد رہتی ہے۔ خاص طور پہ شریف خاندان پہ تبرّیٰ۔ اگر یاد نہیں رہتا تو کسان‘ جو ہڈیوں کا گودا جما دینے والی ٹھنڈ میں کھیت سینچتا اور آگ برساتے سورج تلے فصل کاٹتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو مرفوع القلم‘ سینیٹر سراج الحق کو غریب لوگ ایک بار سوجھے تو تھے۔ ایک بار رکشوں پہ جلوس نکالا تھا۔ ایک بار اونٹوں کا۔ پھر وہ انہیں بھول گئے۔
شہروں کا حال بھی پتلا ہے۔ کراچی کوڑے کا ڈھیر ہے۔ ادھڑی ہوئی سڑکیں‘ خستہ پل‘ پانی نایاب‘ اور نوکریاں نادر۔ دیہات پر تو گویا قیامت گزر گئی۔ شہروں میں کم از کم لوگ رو پیٹ تو سکتے ہیں‘ گریہ و فریاد تو کر سکتے ہیں۔ دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں۔ دیہات میں ظالم مارتے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔ اے خدائے دیرگیر‘ اے خدائے دیرگیر!