"HRC" (space) message & send to 7575

خدائی کی خواہش

خدا بس ایک ہے ۔ سب زمینوں اور سب آسمانوں کا خالق ۔ ہمیشہ سے وہی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ وہی رہے گا۔ 
تمام عظیم فقہا نے خروج یعنی بغاوت کے لئے جو شرطیں عائد کیں‘ بہت ہی سخت ہیں۔ اس لئے کہ بغاوت میں خون بہتا ہے۔ زندگیاں خطرے میں ‘ بچے ، بوڑھے اور عورتیں ہلاک ہوتی ہیں۔گھر گھر میں بھوک اترتی ہے‘علاج اور تعلیم کیسی‘ بس خون ‘ زخم اور درد کی دولت ۔ امریکہ کے ''ریٹا‘‘ اور '' کترینہ ‘‘ طوفانوں میں کھلا کہ نظم و نسق برباد تو اندر چھپا وحشی درّاتا ہوا باہر نکل آتا ہے ۔ درندوں کے خوف سے‘خواتین غسل خانوں میں داخل نہ ہو سکتی تھیں ۔ 
ازل سے وحشت آدمی کے باطن میں کار فرما ہے۔ قابیل، آدم علیہ السلام کا فرزند تھا، پہلے جلیل القدر پیغمبر کا۔ اپنے بھائی ہابیل کو اس نے قتل کر ڈالا ۔ من مانی کرنے اور دوسروں پر غلبہ پانے کی جبلّت بہت ہی طاقتور ہے۔ اسی لئے معاشروں کو حکومت کی ضرورت ہر چیز سے زیادہ ہوتی ہے ۔شہنشاہ حمورابی دنیا کا پہلا قانون ساز مانا جاتا ہے۔ پتھروں پہ رقم ،اس کے سرکاری فرامین میں سے ایک یہ ہے '' اے وہ لوگو جو فہم رکھتے ہو ، تمہارے لئے قصاص میں زندگی رکھی گئی‘‘ ۔
پوری انسانی تاریخ میںمثالی حکمران شاذ و نادر ہی تھے۔ ایک اٹل اصول اس میں کار فرما ہے ، جو سید ابو لاعلیٰ مودودی نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا '' جیسا دودھ ویسا مکھن ۔‘‘ یہ الگ بات کہ بعدازاں خود بھی بھول گئے ۔ قوم کی اخلاقی و علمی تربیت کی بجائے ، جس کی صلاحیت وہ رکھتے تھے ، الیکشن میں خود کو جھونک دیا۔ یہ 1956ء تھا۔محمد مصطفی ﷺکی شریعت نافذ کرنے کے لئے ، دیمک زدہ فضل الرحمن کے ہم نفس ہیں۔ 
قائداعظمؒ ثانی میاں محمد نوازشریف کی خطا فقط یہ نہیں کہ عدلیہ تباہ کرنے پر تلے ہیں ۔ یہ بھی نہیں کہ بھارتی اور امریکی ایجنڈے کے مطابق پاک فوج کو بدنام کرنے کے در پے ہیں، اقتدار کے بھوکے ہیں۔ اقتدار کے بھوکے اور بھی ہیں ‘ زر و مال کے بھوکے اور بھی ہیں۔ بھیانک جرم ان کا یہ ہے کہ مسلسل ملک کو انارکی میں دھکیل رہے ہیں۔اس سر زمین کو‘جس کے کھیتوں کھلیانوں ، کارخانوں اور بازاروں سے کم از کم 300 ارب روپے عالی جناب نے نچوڑے ہیں۔
اس قدروہ مشتعل کیوں ہیں کہ دشمن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ؟دل و دماغ کی گہرائیوں سے وہ جانتے ہیں کہ ان کا موقف غلط ہے اور یکسر غلط ۔ پاکستان نہیں ، دراصل بھارت دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ 60 ہزار شہری اور چھ ہزار فوجی پاکستان کے شہید ہوئے ہیں، ہندوستان کے نہیں ۔معیشت ہماری اجڑی ہے اور جاں بلب ہوئی ہے ،بھارت کی نہیں۔ میاں محمد نوازشریف سے زیادہ کون جانتا ہے کہ نریندر مودی کے قاتل مشیر اجیت دوول اور نفرت کا پرچاری سبرامنیم کھلّم کھلا پاکستان توڑنے کا اعلان کر چکے ‘ پیہم کرتے ہی رہتے ہیں، دہراتے ہی رہتے ہیں۔
میاں صاحب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی قبائلی پٹی میں درندگی کا جو سلسلہ برسوں جاری رہا، بھارتی سرمایے اور منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا۔ افغانستان کی سر زمین اور بھارتی منصوبہ بندی ۔بلوچستان کی علیحدگی ان کا ہدف ہے۔ افغان سر زمین‘ جس کے لیے خوش دلی سے پیش کی گئی ۔ اس کے باوجود حلف وفاداری کی اپنی تقریب میں‘ بھاڑے کے ٹٹو، منشیات فروش حامد کرزئی کو مدعو کرنے کے لئے اس قدر بے چین وہ کیوں تھے۔ پاکستان کے خلاف وہ زہر اگلتا رہتا ہے۔ اس سر زمین نے سایہ اسے فراہم کیا تھا ۔ کھلایا پلایا اور اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ احسان فراموش دنیا میں ہوتے ہیںاور طوطا چشم بھی ۔ انہیں گوارا کیا جاتا ہے یا نظر انداز، سر آنکھوں پہ کوئی نہیں بٹھاتا۔ یہ کارنامہ تین بار منتخب ہونے والے نادر روزگار مدّبر ہی نے انجام دیا۔حامد کرزئی بلائے گئے تو بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ بھی ۔ من موہن سنگھ نے انکار کر دیا ۔پھر نریندر مودی کے حلف اٹھانے کا وقت آیا تو اس بے تابی سے میاں صاحب دلّی کیوں بھاگے کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔
اعلان وزیراعظم پاکستان نے یہ کیا کہ بھارت یاترا کا فیصلہ مشورے سے ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ مودی کی آواز سنتے ہی وعدہ کر لیا ۔
جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے چلے آئیں گے 
در کھلا تو شاید تمہیں پھر دیکھ سکیں 
بند ہو گا تو صدا دے کے چلے جائیں گے
جانتے تھے‘ احمد آباد کے مسلمانوں کا اس نے قتل عام کیا ہے ۔ جب پوچھا گیا کہ اس پر کیا کبھی ملال ہوا‘ تواس نے یہ کہا تھا:کتیّ کا پلّہ کار کے نیچے آ جائے تو اس پہ بھی افسوس ہوتا ہے ۔ 
پنجاب کے انگریز گورنر نے قائداعظم سے کہا : فلاں معاملے میں کیا آپ تعصب کا شکار نہیں۔ فرمایا " Yes I am a prejudiced muslman" ۔ ''ہاں ! میں ایک متعصب مسلمان ہوں۔ ‘‘مراد یہ کہ مسلمانوں کے باب میں ، اپنی قوم کے معاملے میں وہ ایک فریق ہیں،غیر جانبدار ہر گز نہیں۔ قائداعظم نے بار بار‘ سینکڑوں بار کہا کہ مذہب ہی نہیں دونوں قوموں کی ثقافت اور تاریخ بھی الگ ہے‘ حتیٰ کہ موسیقی اور طرز تعمیر بھی ۔ ہندوئوں کے ولن ہمارے ہیرو ہیں اور ان کے ہیرو ہمارے ولن ۔ ہر اعتبار سے ہم ایک الگ قوم ہیں ۔پاکستان اور ہندوستان کے تصادم اور تنازع میں میاں محمد نوازشریف فریق نہیں ، خود کو غیر جانبدار بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ فرمایا : آپ کا بھگوان اور ہمارا رب ایک ہے۔ ہمارے اور آپ کے رہن سہن ، بودو باش اور ثقافت میں کوئی فرق نہیں۔ بس بیج میں ایک سرحد آگئی ہے ۔''آپ آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی ‘‘۔ ہندو کیا گوشت کھاتے ہیں ؟ سکھ کھاتے ہیں تو کیا جانور اللہ کے نام پر ذبح کیا جاتا ہے؟ '' بس بیج میں ایک لکیر آگئی ‘‘کیا اتفاق سے آگئی ؟ کیا مسلمانوں کا وحدہ لاشریک رب اور ہندوؤں کا بھگوان ایک ہے؟ کیاایک مسلمان بت پرستوں کا ہم نفس ہو سکتا ہے؟
کس نے یہ سبق پاکستانی لیڈر کو پڑھایا ہے ؟ پرویز رشید اور نجم سیٹھی نے ؟ جی نہیں میاں صاحب کے تعصبات اور مفادات نے ، اس نفرت نے جو اندھا کر دیتی ہے، پاگل کر ڈالتی ہے ۔
پاکستانی فوج سے وہ نفرت کرتے ہیںاور مودی سے محبت۔ آج سے نہیں 1990 ء میں وزیراعظم بننے کے فوراً بعد سے‘ ارض وطن کے جان نثاروں سے ہمیشہ وہ ناخوش و نالاں رہے ۔سیاچن کی رفعتو ں پہ اپنا پاک لہو نذر کرنے والوں سے ۔ پانامہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سے لے کر اب تک ‘کسی ایک بھی سپہ سالار سے ان کی کیوں نہ بن سکی؟ عاجز و منکسر جنرل جہانگیر ، بے نیاز اور انصاف پسند جنرل عبد الوحید کاکڑ .... اور سب سے زیادہ نرم مزاج چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر زماں باجوہ‘ کسی ایک سے بھی کیوں نہ بن سکی ؟ ایوان وزیراعظم کے سوا طاقت کے ہر ایک مرکز سے وحشت کرتے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت کا مطلب ہی یہ ہے کہ طاقت کے مراکز ایک سے زیادہ ہوں۔ بھارت سے میاں صاحب کی والہانہ محبت کا راز یہ ہے کہ دشمن کا دشمن ، آپ کا دوست ہوتا ہے ۔ بھارت پاکستانی فوج کا دشمن ہے تو میاں صاحب کا دوست ۔
خدائی کی خواہش میاں صاحب میں جاگ اٹھی ہے۔ جس جان میں یہ آرزو تڑپ اٹھے ، اس کا انجام عبرتناک ہوتا ہے۔شاعر نے کہا تھا:
نشہ خودی کا چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا
خدا بس ایک ہے ۔ سب زمینوں اور سب آسمانوں کا خالق ۔ ہمیشہ سے وہی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ وہی رہے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں