اپنا یوسف ہم نے کھو دیا‘ لیکن اسے روتے بھی نہیں۔ دل کی گہرائیوں سے اسے یاد تک نہیں کرتے۔خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں۔
ایسے نرم لہجے میں بلند اختر بات کرتا ہے ‘ جیسے کوئی درخت ‘ دریا یا چشمہ گفتگو کرنے لگے ۔ بے شک غالب ؔنے کہا ‘مگر شعرہی تو ہے۔ادبی جمالیات ایک چیز ہے ‘ زندگی کے حقائق دوسری۔ کہا :
ہمارے دوش پہ کھلتی جو تیری زلف تو ہم
نسیمِ صبح کے لہجے میں گفتگو کرتے
یہ ایک اور حال‘ ایک اور کیفیت ‘ ایک اور مزاج‘ ایک اور تربیت ہوتی ہے۔قلوب کو جوگداز اور رچائو عطا کرتی ہے۔ انس اور الفت کا خیال آئے‘ تو تین آدمیوں کی طرف اس طالب علم کی نگاہ جاتی ہے ۔ ایک تو عصر ِرواں کا عارف ‘ محبت ان کے مزاج نہیں ‘ روح میں گھلی ہے۔ دوسرے صوفی عائش محمد نصف صدی سے راہِ سلوک کے جو مسافر ہیں ۔ پھر اپنے اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب۔ لگتا ہے کہ ریشم سے ان کا تانا بانا استوار ہے۔ لگتا ہے کہ مہاتما بدھ کے عہد کا کوئی آدمی ہے‘بھٹک کر جو اس زمانے میں، اس دیار میں آن اترا ہے۔
نجیب آدمی کی نشانی کیا ہے ؟ بہت سی ہیں ۔ ایک یہ کہ وقت بے وقت بھی اس سے التماس کرو‘ تقاضا کرو ‘تو بے کل نہیں ہوتا‘ناراض نہیں ہوتا۔ اپنے آپ سے زیادہ ہمدردی اسے نہیں ہوتی۔ اب ایک مختصر سی ملاقات پہ رائے کیا دی جائے لیکن لگا کہ ایک اور درجے میں بلند اختر ایسے ہی اطوار کا ایک آدمی ہے ۔
1857 ء کے خونیں انجام بیت چکے ۔ دلّی سے راہ فرار اختیار کرکے‘ دور کہیں پناہ لینے والے مرزا کے کسی ہم نفس نے انہیں رقعہ بھیجا‘ تو اردو کے سب سے بڑے شاعر نے جواب میں لکھا '' تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا‘ جو پیرہن نے یعقوب کے ساتھ کیا تھا ‘‘۔
کتنے ہزار برس بیت چکے ‘لگتا ہے کہ یعقوبؑ اور یوسف ؑ کی کہانی ، ابھی کل کی بات ہے۔ حضرت یوسف علیہ السّلام ، حضرت یعقوب علیہ السّلام ، قرآن کریم نے اسے محفوظ رکھا ہے۔ ہر عہد کے شاعروں نے اسے تازہ کیا۔ اب بھی وہ کہانی دلوں کے تار چھیڑتی ہے‘ دلوں اور دماغوں میں طوفان اٹھاتی ہے۔
ضلع سرگودھا کے چک نمبر 42 جنوبی میں اس نا چیز کا بچپن ، سارا بچپن یہ کہانی سنتے ہوئے گزرا‘ ہر روز ۔ مولوی غلام رسول بہت پہلے ہو گزرے ہیں۔ یہ داستان پنجابی میں کبھی انہوں نے لکھی تھی '' قصہ یوسف زلیخا ‘‘ ۔ صبح سویرے والدہ محترمہ‘ تلاوت سے فارغ ہو چکتیں تو یہ کتاب کھولتیں۔ جادوئی لحن میں کہانی کا کوئی حصہ پڑھنے لگتیں۔ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو کچھ زیادہ یاد نہیں آتا۔بس اتنا کہ بہتے پانیوں ، ہرے بھرے درختوں سے گھرے گائوں کے کچّے صحن میں کوئل سی کوکتی ، بلبل سی گاتی یابادل سے گھر آتے ، مینہ سابرسنے لگتا، برف سی گرنے لگتی ۔ پاس پڑوس کی خواتین ، ان میں میری ایک خالہ زاد بہن تھیں‘ لپک کر آتیں ''بس بہن ختم‘ ‘‘اماں ان خواتین سے کہتیں ''اب مجھے آٹا گوندھنا ہے۔‘‘ آٹا گوندھنے والی سنا نہ سکتی مگر سن تو سکتی تھی ۔ ''آٹا میں گوندھ دوں گی ‘‘ آپا کہتیں ۔اللہ انہیں برکت دے‘ آپا ایسی ہیںکہ فرمائش کریں تو اس میں بھی حکم کے تیورگندھے ہوتے ہیں۔
کئی صدیاں بیت چکی ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ شاعر کے سامنے میں کھڑا ہوں ۔ سرمستی اور سرور کے عالم میں اپنا کلام سناتے ، اسے دیکھ رہا ہوں۔
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
غنی ؔ کنعان کے بزرگ کے روز سیاہ نے عجیب تماشا کیا ۔ اس کی آنکھوں کے نور نے چشمِ زلیخا میں جا اجالا کیا۔
صوفی عائش محمد ، سورہ یوسف کی جب تلاوت کرتے ہیں‘ تفسیر کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ اس عہد ، مصر کے اس بازار میں کھڑے ہیں جہاں ہمیشہ زندہ رہنے والا یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ اپنی پتلی پتلی ، لمبی لمبی انگلیوں سے آنسوئوں کے قطرے وہ پونچھتے جاتے ہیں، قلوب و اذہان میں نور اگاتے چلے جاتے ہیں۔
شاعروں اور صوفیوں میں کیا رشتہ ہے ؟ ظاہر ہے رومان پسندی کا ،خواب نگر کی مسافت کا ، چاند اور بادلوں اور پرندوں اور ستاروں کی ہم سفری کے سپنے کا۔ فرق یہ ہے کہ صوفی... اگر وہ سچا ہو ... محض ادبی جمالیات کا نہیں، صداقت ازلی کا شیدا اور شہیدہوتا ہے ۔ فقط صداقت ازلی کے شعور کا نہیں، قول و فعل کے آہنگ کا ۔ کتاب کے اوراق سے موتی چننے والا ، جمال مصطفیٰ کا قتیل۔
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا زنورِ مصطفی او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیٰ است
جہانِ رنگ و بو میں جہاں کہیں دیکھا، جہاں جہاں ، جس جس کی خاک میں کوئی آرزو ہویدا ہے‘ نور مصطفیٰ کے طفیل ہے یا اسی نور کی تلاش میں ۔
مولوی صاحب میرے پڑوسی ہیں‘اچھے آدمی ہیں۔ ان چند مولویوں میں سے ایک ، اللہ کے دیئے ہوئے رزق میں دوسروں کو جو شریک کرتے ہیں اور خوش دلی سے ۔کبھی کبھی‘کسی کسی دن؛البتہ پریشان بھی کرتے ہیں۔ اچانک کبھی جب یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ صوفی کو شریعت سے کیا واسطہ ؟ نہایت ادب سے میں عرض کرتا ہوں: شریعت تو وہ کم از کم زادِ راہ ہے جس کے بغیر مسافت ہی ممکن نہیں‘ آغازِ سفر ممکن ہے اور نہ منزل کا حصول۔ شریعت نہیں تو تصوف کی بنیاد ہی کوئی نہیں۔ مولوی صاحب مگر نہیں مانتے۔ مولوی ہی کیا جو مان جائے۔ جس دل میں روئیدگی ممکن ہو ، مولوی کے سینے میں نہیں ہو سکتا۔ میری کم علمی پر وہ ترس کھاتے رہتے ہیں۔ میں ان سے ڈرتا ہوں۔ ان کے علم کی لاٹھی سے ۔ کبھی کبھی‘ اللہ سے دعا کرتا ہوں۔
یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
یکسوئی شہ سواروں کا توشہ ہے ، مردانِ کا رکا ہے ، انشا پردازی کے معمولی طالب علموں کا نہیں۔ شاعروں کی طرح ہوتے ہیں ۔ بھٹک جاتے ہیں اور بھٹکتے ہی رہتے ہیں۔ شاعروں کی طرح ، بچوں کی طرح ۔ محرومی کے احساس میں ۔
جگنو ئوں کے تعاقب میں ، آرزوؤں کی گرفت میں۔شاعر بسورتا ہے اور یہ کہتا ہے :
ترسے ہیں ایک بوسۂِ پا کو بھی عمر بھر
ویران جنگلوں میں اگی گھاس کی طرح
اس انتظامی ، عسکری ، علمی اور سیاسی جینئس ‘عمر فاروق اعظمؓ نے کہا تھا : زندگی میں آسانی، آزمائش سے کم از کم دوگنا ہوتی ہے ۔ جنت سے نکالا گیا آدمی مگر عجیب ہے ۔ وہ اس دنیا میںجنت طلب کرتا ہے ۔ خیر ، یہ تو ایک دوسرا موضوع ہے ، آج تو اس یوسف کی بات کرنا تھی جو اس قوم نے کھو دیا اور جس کی آرزو آنسو رلاتی ہے ۔
بلند اختر نے زندگی کے کئی برس ایک ممتاز سیاسی خاندان کے ساتھ گزارے۔ اب وہ ٹیکسی چلاتا ہے۔ تھر کا باسی‘ جیسا کہ عرض کیا نجیب اطوار۔ کچھ قصے اس خاندان کے باب میں سنے تھے۔ اس سے پوچھا تو تصدیق کی۔ اس میں سے ایک لندن پلٹ نوجوان کی خودکشی کا سانحہ تھا۔ سنا چکا تو دل بھر آیا۔ کن لوگوں کو اپنی گردن پہ ہم نے سوار کر رکھا ہے۔
اپنا یوسف ہم نے کھو دیا‘ لیکن اسے روتے بھی نہیں۔ دل کی گہرائیوں سے اسے یاد تک نہیں کرتے۔خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں۔