کس سے مشورہ ؟ کتاب اس سوال کا جواب دیتی ہے ،کبار اہلِ علم سے ۔ زیادہ جاننے والوں سے ۔ مگر افسوس ، مگر افسوس !
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی
پنجاب میں نگران وزیرِ اعلیٰ کا ڈرامہ آخری نہیں ۔ جب تک پی ٹی آئی اپنی موجودہ ساخت کے ساتھ بروئے کار ہے، اس طرح کی تفریح میسر رہے گی۔ زندگی ورنہ کیسی دوبھر ہو جاتی ۔ تمام وقت اگر طلال چوہدریوں اور فیاض چوہانوں کے ساتھ بتانا پڑتا۔
سب نہیں تو عمران خان کے کچھ لطیفے لکھ دوں گا، 2018ء کا الیکشن بیت جانے کے بعد۔ لکھنے کو کتاب ہی لکھ دیتا مگر کچھ زیادہ ضروری کام باقی ہیں۔ اخبار نویس تو خیر کسی شمار قطار میں نہیں، ابنِ جوزیؒ نام کے ایک نامور محدث ہو گزرے ہیں ۔ نہایت بلند آدمی، صاحبِ علم و زہد۔ کبھی غیر حاضر دماغی کا شکار ہو جاتے ۔ خود لکھا ہے: حافظہ ایسا ہے کہ گھر والوں نے منع کیا تو خود کو کمرے میں بند کر لیا ۔ چند روز کے بعد باہر نکلا تو قرآنِ کریم حفظ کر چکا تھا۔ غیر حاضر دماغی کا یہ عالم کہ ڈاڑھی مٹھی میں پکڑی تاکہ ایک بالشت سے جو زاید ہے، کاٹ دی جائے۔ اوپر سے کاٹ دی اور ظاہر ہے کہ چھپتے پھرتے رہے۔ خیرہ کن علمی کارنامے انجام دیے لیکن عام دلچسپی کی دو کتابیں بھی لکھیں۔ ''کتاب الاذکیا‘‘ ذہین لوگوں کے واقعات اور ''کتاب الحمقا‘‘ بے وقوفوں کی کہانیاں۔
لکھا ہے: ایک صاحب سے پوچھا گیا: کب تم پیدا ہوئے تھے؟ بولا: روزوں سے پہلے‘ عید کے فوراً بعد۔ اپنے ایک دانا غلام کا واقعہ رقم کیا ہے ۔ مشورہ مطلوب تھا۔ دوست احباب میں کوئی موزوں آدمی نہ مل سکا۔ غلام سے کہا : کوئی سیانا ڈھونڈ کے لائو۔ کچھ دیر میں ایک اجنبی کے ساتھ نمودار ہوا۔ بات شروع کی تو مسافر نے کہا : اس آدمی سے مشورہ نہیں کیا جاتا، غسل خانے کی جسے حاجت ہو۔ لوٹ کر آیا تو یہ کہا : بھوکے سے مشورہ نہیں کیا جاتا۔ کھانا کھا چکا تو نہایت عمدہ صلاح دی۔ ڈھنگ سے بیٹھا اور شائستگی سے بات کی ۔ غلام سے پوچھا: کون آدمی تھا ؟ اس نے جواب دیا : اتنے مختصر سے وقت میں انتخاب کا موقعہ کیا تھا، میرے آقا۔ سڑک پہ کھڑا دیکھتا رہا۔ آخر کار اس کا انتخاب کیا کہ متناسب الاعضا تھا۔ ایسے لوگ اکثر تر دماغ اور متوازن مزاج ہوتے ہیں۔
عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ خود تفصیلات اور جزئیات پر غور کرنے سے گریز کرتا ہے ۔ صحت مند ہے اور متناسب الاعضا بھی۔ ذہنی صلاحیت مگر ایسی چیز ہے جو غور و فکر سے بڑھتی ہے ۔ عقل سوچ بچار سے صیقل ہوتی ہے۔ گریز اور فرار سے نہیں ۔ ہر آدمی کو اللہ ایک بڑی صلاحیت عطا کرتا ہے ، جس کے بل پر زندگی اس نے بسر کرنا ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ایک سے زیادہ صلاحیتیں بھی۔ عمران خان ایک پرعزم اور باہمت آدمی ہے ۔ جس چیز کی ٹھان لے ، اسے انجام تک پہنچا کر دم لیتا ہے؛ باایں ہمہ ذہن اس کا سیاسی نہیں ۔ اگرچہ دنیا کی ممتاز ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک، آکسفرڈ سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کی ہے۔ مردم شناسی اور معاملہ فہمی تو اسے چھو کر نہیں گزری۔ بہت سوچ بچار اور غور و فکر سے پرہیز رکھتا ہے ۔ ساتھی اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ علائوالدین خلجی نے دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کیا تو اس کے مشیر نے کہا تھا : حضور! یہ سکندر کا یونان نہیں ، یہ خود غرضوں کا معاشرہ ہے ۔ دلّی سے دور گئے تو تخت بھی جاتا رہے گا۔
محمودالرشید ایسے آدمی نہیں ، جو سب سے بڑے اور سب سے اہم صوبے کی اسمبلی میں پارٹی کے لیڈر بنائے جائیں۔ چھوٹے چھوٹے ذاتی کاموں میں الجھے رہتے ہیں۔ یہی ان کی ترجیح ہے، ان کا ذاتی کاروبار۔ عالم یہ ہے کہ اخبار نویس ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور وہ سن کر نہیں دیتے۔ اس ہفتے میں تین بار فون کیا۔ آخری بار ڈیڑھ گھنٹہ قبل۔ گزارش کی کہ چھ سات دن سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں ۔ براہِ کرم بات سن لیجیے، جواب ندارد۔
2012ء میں عمران خان کی خود نوشت ''میں اور میرا پاکستان‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں شرکت کے لیے دو ہفتے انہیں ڈھونڈتا رہا۔ آخر کار ذمہ داری کسی اور کو سونپنا پڑی۔ ملے تو احتجاج کیا ۔ اس پر بولے : بھائی میں پیغامات (Messages) پڑھتا ہی نہیں، پڑھنا آتے ہی نہیں ۔ معلوم نہیں عمران خان اور شہباز شریف ان سے کس طرح رابطہ کرتے ہیں۔ لاہور کے اخبار نویس کہتے ہیں کہ کپتان کی کم اور شہباز شریف کی زیادہ سنتے ہیں۔
سابق چیف سیکرٹری کے بعض شناسائوں نے محمودالرشید کو مشورہ دیا تھا کہ ان کی بجائے ان کے سگے بھائی طارق کھوسہ کا نام تجویز کریں۔ بہرحال قصوروار وہ تنہا نہیں۔ پارٹی قیادت نے منظوری دی تھی۔ بزرجمہروں نے اس نکتے پر غور نہ کیا کہ افسر شاہی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ شاہین صہبائی ، اوریا مقبول جان ، رئوف کلاسرا اور عامر متین نے سوالات اٹھائے تو ایک ہیجان پی ٹی آئی کے نوجوانوں میں پھیل گیا ۔ منگل کو پورا دن اور تمام شب ماتم برپا رہا ۔ سینہ کوبی اور سیاپا جاری رہا ۔ دبائو اتنا بڑھا کہ نام واپس لینا پڑا ۔ محمودالرشید سے اس سلسلے میں عمران خان نے رابطہ کیا تو وہ روئے پیٹے : خان صاحب، آپ نے مجھے برباد کر دیا، زخمی کر ڈالا، لہو لہان کر دیا ۔ کپتان تسلی دیتا رہا ، ارے بھائی غلطی آپ کی نہیں ، ہماری ہے ۔ پارٹی مانتی نہیں ، نوجوان مضطرب ہیں۔ اس کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ ذاتی خیال میرا یہ ہے کہ ناصر کھوسہ ہرگز دھاندلی کے مرتکب نہ ہوتے۔ یہ الگ بات کہ کمزور آدمی ہیں ۔ یہ الگ بات کہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر شریف خاندان افسروں کو برتنے کی کوشش کرتا، جن کے دس سالہ اقتدار نے سول سروس کو اپاہج کر ڈالا ہے۔
دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا
زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوقِ خراش
اٹک سے رحیم یار خان تک ، سرکاری افسر منگل کے دن ایک دوسرے سے پوچھتے رہے : شہباز شریف کیا واپس آ رہے ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ سے کیا ان کی بات ہو گئی ہے؟ بہت دن کی پژمردگی کے بعد خادمِ پنجاب کل قدرے بشاش تھے ، معلوم نہیں کیوں ؟ ناصر کھوسہ کی نامزدگی کے علاوہ شاید پاک افغان سرحد کے دورے پر۔ تاثر اس سے بھی یہی پھیلا کہ جنرلوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ کہنے کو ان کی اہلیہ تہمینہ درانی نے یہ کہا کہ میاں کے فرصت پانے پر وہ خورسند ہیں ۔ اندر کی بات یہ ہے کہ ذہنی طور پر خاتونِ اوّل بننے کے لیے پوری طرح تیار تھیں۔ سیاست میں سرگرم اپنی بعض سہیلیوں سے انہوں نے یہ کہا: نون لیگ سے وابستگی اختیار کیجیے، کوئی دن میں نصیبا کھل جائے گا، جب میں ایوانِ وزیرِ اعظم میں ہوں گی۔
اس وقت ، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، عمران خان کی قیادت میں نئے نگران وزیرِ اعلیٰ کے لیے بحث جاری ہے۔ سرِ فہرست کامران رسول ہیں۔ ابھی ابھی عمران خان ، اسد عمر ، جہانگیر ترین، اسحٰق خاکوانی اور ڈاکٹر عارف علوی کو میں نے پیغام بھیجا: ٹھنڈے دل سے غور کر لیجیے ۔ ربع صدی ہوتی ہے، کامران رسول پانچ برس کی چھٹی لے کر ایک فیکٹری سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ایک مشہور سیاسی خاندان کے ایما پر ۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ تاسف کا شکار ہوں ۔ چیف سیکرٹری کی حیثیت سے کامران رسول کچھ زیادہ سرخرو نہ تھے۔ انہیں ہٹانا پڑا تھا ۔ ایک ہنگامہ ان کی چھٹی پر بھی برپا ہوا تھا ۔ اخبارات میں ایک بحث چھڑی اور افسر شاہی میں بھی ۔ قوانین میں کچھ تبدیلیاں بھی کرنا پڑی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں اس سیاسی کاروباری خاندان سے ان کے مراسم پھیکے پڑ گئے تھے۔
اللہ کی کتاب کہتی ہے: و امرھم شوریٰ بینہم۔ ان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں ۔ کس سے مشورہ ؟ کتاب اس سوال کا جواب دیتی ہے ،کبار اہلِ علم سے ۔ زیادہ جاننے والوں سے ۔ مگر افسوس ، مگر افسوس !
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امّت روایات میں کھو گئی