اللہ نے تمہیں عقل عطا کی ہے‘اللہ کے بندو‘ جمہوریت اور الیکشن بجا لیکن کس قیمت پر؟ایسے ہی الیکشن‘ اگر ہوئے جیسے کہ ہوتے رہے ہیں تو قرار نہیں آئے گا‘خوشحالی نہیں آئے گی۔اسی دلدل میں آپ استراحت فرما رہے ہوں گے۔
آدم زاد کی خاک جذبات سے گندھی ہے۔ وہ آرزوئوں‘ امنگوں اور تمنائوں کا مجموعہ ہے۔ ایک آدھ نہیں‘ کئی طرح کے خوف آدمی کی سرشت میں ہوتے ہیں۔ بقا کی غالب رہنے والی خواہش اس میں تعصبات‘ نفرت اور دشمنی کو جنم دیتی ہے۔روزِ ازل امانت ِ عقل و علم آدمی کو بخشی گئی۔ اسی امتیاز کی بنا پر وہ اشرف المخلوقات ہے۔ اسی لیے وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔
عجیب بات ہے کہ کارگہِ حیات میں اس واحد قندیل ہی سے اکثر آدمی گریزاں رہتا ہے۔ کم از کم مسلمانوں کی حد تک‘ اس میں کوئی ابہام نہ ہوناچاہیے کہ حصولِ علم کی بنیاد یہی عقل ہے‘ عقل سلیم۔ اللہ کی کتاب میں یہ نکتہ آشکار ہے۔ کائناتِ ارضی کے لیے آدم کی خلافت کا اعلان ہوا‘توفرشتوں نے کہا : زمین میں یہ خوں ریزی کرے گا۔ ایسا یہ واقعہ تھا کہ ازل سے چلی آتی کائنات میں سب آسمان‘ سب زمینیں اور ان کی سب مخلوقات‘ گویا ششدر کھڑی تھیں۔ ایک ایسی مخلوق‘ اللہ کی نائب کیسے ہو سکتی ہے‘ ثواب ہی نہیں گناہ کا ارتکاب بھی جو کرے گی۔ ظلم و زیادتی کی مرتکب ہوگی۔ حتیٰ کہ خود فرمانِ الٰہی کے مطابق گاہے کردار کی پست ترین سطح کو چھو لے گی۔ جمعہ کے خطبے میں مولوی صاحب بتاتے ہیں کہ ایمان کی کمزوری کے طفیل ‘یہ بھید مگر نہیں کھولتے‘ ایمان کی کمزوری پیدا کہاں سے ہوتی ہے؟ ظاہر ہے کہ کم علمی اور کم عقلی سے‘ غوروفکر کے فقدان سے‘پیروی اور تقلید سے۔ ایک سبب اگرچہ یہ ہے کہ خود مذہبی طبقہ پرلے درجے کا بے مہار ہے۔ اس کے فعل کو اس کے قول سے کوئی واسطہ نہیں۔مثال کے طور پر سب سے بڑی مذہبی جماعت میں آموختہ یہ پڑھایا جاتا ہے کہ حال سے حال اور قال سے قال پیدا ہوتا ہے۔جبہ اور عمامہ‘ریش و دستاراور واعظ و چلا الگ۔اخلاقی اعتبار سے تبلیغی لوگ معاشرے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔پون صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا ‘ طوطوں کی طرح رٹے ہوئے سبق سناتے رہتے ہیں‘ دہراتے رہتے ہیںاور اسی میں سرشار۔باقی مکاتب ِ فکر اور مذہبی جماعتوں کا حال مختلف نہیں۔ایک صدی ہونے کو آئی ہے شاعر نے جب کہا تھا۔
کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی زندانِ قدح خوار ہوئے
صدیوں سے عالم اسلام مذہبی لوگوں کی ریاکاری کا ماتم کرتا آیا ہے۔ صاف اور قطعی الفاظ میں قرآن مجید مسلمانوں سے یہ کہتا ہے کہ انہیں گروہ در گروہ نہ بٹ جانا چاہیے۔اختلاف رائے تو بجا کہ فکرو خیال کی بالیدگی اسی سے ممکن ہے ۔ زندہ اور ہوش مند اذہان‘ ایک ہی طرح سوچ نہیں سکتے؛ تاہم کبھی کوئی بزرجمہر مستقل مکاتب ِفکر کا کبھی کوئی جواز پیش نہ کر سکا۔ خیر یہ ایک الگ سوال ہے‘ اس پر پھر کبھی۔
رمضان المبارک کے اجلے ایام میں کچھ اور بھی انہماک سے سوچنا چاہیے کہ عقل کی راہ پہ علم کے لیے ریاضت کرنے کے سوا‘ کیا تلاشِ حق کا کوئی دوسرا قرینہ ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ بالکل نہیں۔ ایک اخباری کالم میں اس قدر سنجیدہ موضوعات پر شاید بات نہیں کرنی چاہیے۔ ایک اخبار نویس کا یہ منصب بھی نہیں۔ اہل ِعلم کا ہے۔ یہ الگ بات کہ علماء کرام درہم و دینار کے ہوگئے۔ مکاتب ِفکر کے ہوگئے۔ زعم ِ تقویٰ اور خبط ِ عظمت کے۔
درحقیقت موضوع یہ نہ تھا۔ کئی دن سے طالب علم یہ سوچ رہا ہے کہ یہ جو جمہوریت کا کارواں منزل رسید ہونے والا ہے‘ اپنے ساتھ کون کون سی نعمتیں‘ انعامات اور سرفرازیاں لے کر آئے گا۔ پچیس جولائی کو الیکشن اگر ہو گئے۔ عصر ِرواں کے شیرشاہ سوری یا بعض کے بقول نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد سے بلند اور برتر عمران خان مدظلہ العالی مسند ِاقتدار پہ براجمان ہوچکے تو؟ دیکھتے ہی دیکھتے سب زخم کیا مندمل ہو جائیں گے؟ ہر آنکھ میں عیش و فراغت کا سرور ہوگا؟ ہر جسم پہ اطلس و کم خواب و سمور نہ سہی‘ تن ڈھانپنے کا سامان کیا ہو سکے گا۔ مرغ و ماہی نہ سہی‘ 21کروڑ خاک زادوں میں سے ہر ایک کو نانِ جویں میسر آ سکے گی۔ خس خانہ و برفاب نہ سہی‘ پینے کا صاف پانی کیا مہیا ہو گا۔ بیمار کے لیے خالص شہد کا ایک چمچ‘ خالص شہد کو چھوڑیئے‘ ملاوٹ سے پاک دوا ہی۔ مائوں کی گودوں میں کھیلتے سب بچوں کو‘ جن کے ہنستے ہوئے ہاتھ زندگی کا سب سے بڑا حسن ہیں‘ کیاصاف ستھرے دودھ کا پیمان ان سے کیا جا سکے گا؟ کیا کوئی سیاستدان وعدہ کر سکتا ہے کہ گلیوں کی دھوپ میں جھلستے‘ گرد میں اٹے اور کوڑے کے ڈھیروں میں رزق تلاش کرنے والوں کو درس گاہوں کی راہ دکھا دی جائے گی۔ آنے والے کل کے لیے کوئی خواب؟ امید کی کوئی کرن؟ سیاست دان وعدہ کر بھی لیں‘ تو کیا ان پہ اعتبار ممکن ہے۔
الیکشن برپا ہونے چاہئیں اور لازماً۔ قومی اتفاق رائے اسی پہ ہے۔ دوسرا کوئی متبادل اوّل تو کسی نے تجویز نہیں کیا۔ کرے تو کوئی قبول نہ کرے گا۔ جمہوریت اب ایک مذہب ہے‘ جس طرح اسلام‘ عیسائیت‘ بدھ مت‘ یہودیت اور ہندومت۔ ہر بچہ ایک مذہب پہ ہوتا ہے‘ اس کے ماں باپ کا مذہب‘ الاّ یہ کہ عقلِ سلیم کا چراغ روشن ہو جائے‘ قلب و روح میں اجالا کردے۔ جمہوریت بھی آج کی دنیا کا ایک مذہب ہے۔ الیکشن ہوں گے اور ووٹ ڈالے جائیں گے۔ خواہ اس کے نتیجے میں غنڈے‘ سمگلر اور ڈاکو ہی اقتدار میں کیوں نہ آئیں۔ کچھ نہ کچھ ایسے ضرور آئیں گے۔ اس لیے کہ شہروں میں انتخابی اخراجات بیس کروڑ روپے تک جا پہنچے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس کی پروا ہے‘ عدالتوں اور نہ دانشوروں کو۔
جیسا کہ عرض کیا کہ جمہوریت تو ایک مجبوری ہے۔ معاشرے کے جمے جمائے اور اٹل اتفاق رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ کردیا جائے تو پلٹ کر قوم حملہ آور ہوگی اور ساری دنیا اس کی پشت پر کھڑی ہو جائے گی۔ ایک چھوٹا سا سوال مگر یہ ہے کہ کیا الیکشن کو معقول منصفانہ اور صحیح معنوں میں آزادانہ بنانے کی کوشش بھی نہ ہونی چاہیے؟
دنیا ٹیلی ویژن کے حبیب اکرم اور بیرسٹر سعد رسول نے عدالت سے رجوع کیا۔ درخواست کی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار اپنا ماضی اور اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ معلوم ہے کہ پاکستان کی کم از کم ساٹھ فیصد معیشت کالی ہے‘ یعنی اس آمدن پہ مشتمل جس پہ ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا۔ کم از کم تیس لاکھ ایسے لوگ ہیں‘ جو محل نما گھروں میں رہتے ہیں۔ دو تین کروڑ سے لے کر چالیس پچاس کروڑ تک کے مکانات۔ ایسے تعلیمی اداروں میں ان کے بچے تعلیم پاتے ہیں‘ فیسیں جہاں آسمان کو چھوتی ہیں۔ گرمیوں کی چھٹیاں وہ امریکہ اور یورپ میں گزارتے ہیں۔ ان میں سے بھی جو مذہبی رجحانات رکھتے ہیں‘ ہر سال عمرہ کرنے جاتے ہیں۔ زیادہ خوشحال خاندانوں میں نکاح کی اب رسم خانہ کعبہ یا مسجد نبوی میں ادا ہوتی ہے۔ خصوصی طیارے کرائے پر لیے جاتے ہیں۔ لاکھوں نہیں ظاہر ہے کہ کروڑوں کے اخراجات۔ بھلے لوگ بھی ان میں ہوں گے۔ رزق حلال کے خوگر۔ اکثر کا حال مگر کیا ہے۔میرؔ صاحب کا مصرعہ مستعار نہیں لیا جا سکتا۔ع
چور اچکے سکھ مرہٹے شاہ و گدا زرخواہاں ہیں
لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے‘ کہ قانون کی اس مخلوق کو رتی برابر پرواہ نہیں۔عام آدمی کی اذیت ناک زندگی سے بے نیاز الیکشن اور جمہوریت کا گیت گانے والوں کو دیکھا‘ عام آدمی اذیت سے بے نیاز‘ مفلسوں اور محتاجوں سے بے نیاز‘ جمہوریت اور الیکشن کا گیت گانے والوں کو دیکھا‘ تو منیر ؔنیازی سمجھ میں آیا۔
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
اللہ نے تمہیں عقل عطا کی ہے‘اللہ کے بندو‘ جمہوریت اور الیکشن بجا لیکن کس قیمت پر؟ایسے ہی الیکشن‘ اگر ہوئے جیسے کہ ہوتے رہے ہیں تو قرار نہیں آئے گا‘خوشحالی نہیں آئے گی۔اسی دلدل میں آپ استراحت فرما رہے ہوں گے۔