افواج اور لیڈر نہیں‘ ملک کے محافظ اس کے عوام ہوتے ہیں‘ جیتے جاگتے عوام!
بارِدگر ڈاکٹر فرخ سلیم نے یاد دلایا ہے کہ لاہور کی اورنج ٹرین پر سود کی سالانہ ادائیگی دس ارب روپے ہوگی۔ ٹکٹوں پر رعایت چار ارب روپے سالانہ میں پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ گاڑی کو موزوں حالت میں رکھنے کے اخراجات اس کے سوا ہوں گے‘ کئی ارب روپے سالانہ۔ خود سرکاری دعوے کے مطابق صرف سوا دو لاکھ مسافر استفادہ کریں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری دعوے کس قدر مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔
تحریک ِانصاف نے اب تک قومی اسمبلی کی جو ٹکٹیں جاری کی ہیں‘ درجن بھر ان میں ایسی ہیں کہ فتح یا شکست‘ ہر حال میں رسوائی کا سامان ہو گا۔ بعض تو بالکل ہی ناقابل فہم ہیں‘ مثلاً صداقت عباسی نام کے اس شخص کو ایک بار پھر پارٹی کی نمائندگی کرنی ہے‘ جس نے کبھی جماعت کی کوئی خدمت نہ کی۔ ہمیشہ اسے نقصان ہی پہنچایا۔ 2013ء میں لیاقت باغ راولپنڈی کے آخری جلسۂ عام میں اپنے ساتھ جو تین سامعین بھی نہ لا سکا...اور تین ہزار لانے والے چوہدری فخر کو پارٹی سے بھگا کر دم لیا۔ جہلم میں جس نے پارٹی کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے والے نعیم چوہدری کو جب تک جماعت سے نکلوا نہ دیا‘ آرام کی نیند نہ سویا۔ بری طرح جو ہارا اور اب بھی بری طرح ہارے گا۔ سرگودھا اور راولپنڈی ڈویژنوں میں پیہم پارٹی کو سبوتاژ کرنے والے عامر کیانی کو راولپنڈی سے میدان میں کیوں اتارا جا رہا ہے؟ اسلام آباد کی نیم شہری نیم دیہی نشست پر خود عمران خان الیکشن لڑنے پر کیوں بضد ہیں؟ دو یا تین کی بجائے پانچ سیٹوں سے ظفرمند ہو کر انہیں کیا ملے گا؟ ظاہر ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب میں ایک ہی ووٹ وہ ڈال سکیں گے‘ باقی رائیگاں جائیں گے۔
بہت امیدواروں کے بارے میں یہ ناچیز نہیں جانتا۔سرگودھا جانا ہوا تو پارٹی کے دو درجن معتبرین نے‘ اکثر جن میں عوامی عہدوں پر فائز رہے تھے ‘اندیشہ ظاہر کیا کہ کچھ لوگ نادیہ مرزا نامی ایک خاتون کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دلوانے میں کامیاب رہیں گے۔ 1995ء سے ممتاز کاہلوں کو میں جانتا ہوں۔ بھلائی کا کوئی کام ایسا نہیں‘ جدّہ میں پاکستانی جو انجام دے رہے ہوں اور کاہلوں صاحب اس میں شریک نہ ہوں۔ سرگودھا میں یتیم خانہ چلاتے ہیں‘ ایک سو بچے جس میں قیام پذیر ہیں۔ تعلیم پاتے ہیں اور شائستہ ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں۔ ہسپتال بنا رکھا ہے‘ روزانہ دو تین سو مریضوں کا ‘جس میں معائنہ ہوتا اور دوا دارو کا اہتمام ہے۔ پارٹی کا دفتر بھی چلا رہے ہیں۔ پرانا سیاسی خاندان ہے۔ وضع داری اور سلیقہ مندی کے طفیل خلق ِ خدا کھنچی چلی آتی ہے۔ اس آدمی کو ٹکٹ سے کیسے محروم رکھا گیا‘ چند سال قبل جس کے خاندان نے ایک نشست آزاد امیدوار کے طور پہ جیت لی تھی‘ جس نے ہمیشہ رزق ِحلال کمایا اور خوش دلی سے اللہ کے بندوں پہ خرچ کیا ہے۔ ایسے لوگ تو معاشرے کا نمک ہوتے ہیں۔ اس کا جمال اور جوہر۔ وہ کون پتھر دل لوگ ہیں‘ جنہوں نے اس شخص کو مسترد کرنے اور نون لیگ سے اچانک چھلانگ لگا کر تحریک ِانصاف کے جہاز پر آ اترنے والی خاتون کو سرفراز کرنے کا فیصلہ کیا؟
نذر گوندل‘ مشہور زمانہ نذر گوندل... ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ دنیا بھر میں نیک نام ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی پذیرائی کا مطلب کیا ہے؟ لاہور میں اعجاز چودھری اور گوجرانوالہ میں علی اشرف کیا بھاڑ جھونکیں گے؟ کس طرح وہ کامیاب ہو سکتے ہیں؟ دو سال پہلے منعقد ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں‘ وسطی پنجاب میں قصور شاید واحد علاقہ تھا‘ جہاں پی ٹی آئی کچھ کامیابی حاصل کر سکی۔ یہ قصوری خاندان کے طفیل تھا۔ وہی تحریک ِانصاف کے لیے ایک بڑے جلسۂ عام کا اہتمام کر سکے۔ خورشید قصوری تو امیدوار ہی نہ تھے‘ ان کے چھوٹے بھائی بختیار قصوری تھے۔ 2011 ء میں لاہور کے جلسۂ عام سے پہلے پارٹی میں شامل ہوئے اور فیس کے بغیر اس کے مقدمات لڑتے رہے۔ سردار آصف احمد علی بھی ایک ممتاز قومی شخصیت ہیں۔ دو حلقے تھے؛ این اے 137‘ اور این اے 138۔ بختیار کو موقع تو دیا جاتا کہ اپنا مقدمہ پیش کریں۔ ان کی جگہ جن صاحب کو نوازا گیا ہے‘ ان کے مرحوم والد ِ گرامی پچھلی بار47000 ووٹوں سے ہارے تھے۔ سوات کے حلقہ این اے 3 میں عدالت خان ایک مضبوط امیدوار تھے۔ نیک نام‘ ایسے نیک نام کہ کم ہوں گے۔ متحرک‘ ایسے متحرک کہ شاذونادر۔ لاہور کے جس ضمنی الیکشن میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور محترمہ کلثوم نواز مدمقابل تھیں‘ عدالت خان اپنے کارکنوں کے ساتھ لاہور پہنچے اور کئی دن محاذ پر ڈٹے رہے۔ سفارش‘ پچھلی بار کے مقابلے میں روپیہ پیسہ کم‘ اب کی بار بھی پارٹی کے بارسوخ لیڈروں نے وہی کیا‘ 2013ء میں جو کچھ کر دکھایا تھا۔ پارٹی کے متحرک کارکنوں اور میڈیا کی آنکھوں کے سامنے اس سے زیادہ نقصان وہ نہیں پہنچا سکتے تھے۔ ان گنت نگران نظروں کے باوجود علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال اٹھا پھینکے گئے‘ سارا سال جو کام میں جتے رہتے ہیں۔ تقریب پہ تقریب منعقد کرتے ہیں اور فعال کارکنوں کی ایک بڑی ٹیم رکھتے ہیں۔ خطابت کا ہنر جانتے ہیں اور اقبال کے ہزاروں اشعار جن کے وردِ زباں ہیں۔ اس بھلے آدمی سے کہا گیا کہ اس علاقے کو چھوڑ کر‘ ایک صدی سے جہاں اس کا خاندان آباد ہے‘ اندرونِ لاہور وہ چلا جائے۔
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
اور آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی
کتاب میں لکھا ہے: دل سخت ہو جاتے ہیں‘ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ پتھروں میں تو ایسے ہیں کہ جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں...اور یہ لکھا ہے: آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہو جاتے ہیں۔
شریف خاندان والے جنگل کے بادشاہ ہیں‘ جو چاہیں کریں۔ زرداری خاندان ان سے بھی سوا ہے۔ پوری طرح کوئی انہیں سمجھنا چاہے تو سندھی زبان کے بعض ناقابلِ اشاعت محاورے سننا ہوں گے۔ دیہی سندھ میں جس اخبار نویس یا سیاسی کارکن کے رابطے نہیں‘ کبھی وہ سمجھ نہیں سکتا کہ ظلم ہوتا کیا ہے‘ کرپشن کہتے کسے ہیں اور دھاندلی دراصل کس چیز کا نام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے صرف ِنظر کا تہیہ نہ کرلیا ہوتا تو فقط شہری نہیں دیہی سندھ میں بھی پیپلزپارٹی منہ کے بل گرتی...اور اس طرح گرتی کہ دوبارہ اٹھ نہ سکتی۔ گرنا تو خیر اب بھی اسے ہے۔ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ وہ حیّ و قیوم ہے۔ فرمایا کہ کبریائی اس کی چادر ہے اور یہ فرمایا: خدا کی مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ ظلم کی فصل تادیر پروان نہیں چڑھتی... اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اقلیت تادیر اکثریت پہ حکومت نہیں کرتی۔ ظالم اور سفاک وڈیرے بہرحال اقلیت ہیں‘ اور اکثریت کو ایک دن اس کے خلاف اٹھنا ہے۔ دیہی بلوچستان اور دیہی سندھ کا مقدر یہ نہیں کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ظلم کی چکی میں پستے رہیں۔ سرداروں اور وڈیروں کے رحم و کرم پہ رہیں۔ حکمران طبقات نے تہیہ کر رکھا ہے کہ تعلیم عام نہ ہونے دیں گے‘ مگر تابہ کے؟ بلوچستان سے فوجی بھرتی جاری ہے اور تھوڑی سی دیہی سندھ سے بھی۔ وقت بدلے گا اور ضرور بدلے گا۔ درندے ایک دن آدمیوں کے حصار میں آئیں گے۔ ایک دن ان کا ہانکا ہوگا۔ یہی تیور رہے تو شاید ایک دن ان کا شکار کھیلا جائے۔
معاشرے اس لیے برباد نہیں ہوتے کہ ظالم بہت طاقتور ہوتے ہیں‘ بلکہ اس لیے کہ اس کے شرفاء ‘ نام نہاد شرفاء لمبی تان کے سو جاتے ہیں۔ خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے احمد بلال محبوبوں اور ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانیوں کا طرزِفکر یہ ہو جاتا ہے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
ایشیا کے نیلسن منڈیلا آصف علی زرداری‘ قائداعظم ثانی میاں محمد نوازشریف‘ فاتحِ عالم عمران خان‘ عصر حاضر کے امام ابن ِ تیمیہ حضرت مولانا فضل الرحمن اور بطل ِحریت محمود خان اچکزئی۔ بائیس کروڑ انسانوں کے مستقبل کو چند لیڈروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ چند ججوں اور جنرلوں پر نہیں۔ قوم اگر بیدار نہیں ہوتی‘ تو اس کا کوئی مستقبل نہیں۔
افواج اور لیڈر نہیں‘ ملک کے محافظ اس کے عوام ہوتے ہیں‘ جیتے جاگتے عوام!