"HRC" (space) message & send to 7575

سونے سے پتھر

قانون نہیں بدلتا‘ قدرت کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ مارگلہ کے دامن میں وہ سرخرو کھڑا ہوگا... یا ان رفتگاں میں شامل‘ جو سونے سے پیتل اور پیتل سے پتھر ہوگئے!
بندوں کے اپنے منصوبے ہیں اور اللہ کے اپنے۔ ایسے موقع پر نسیم بیگ مرحوم یاد آتے ہیں۔ عجیب آدمی تھے۔ گفتگو کسی بھی موضوع پہ ہوخیال و خواب کی دنیا میں کھو جاتے‘ پھر سیاق و سباق سے یکسر مختلف ایک بات کہتے۔ ایسی ہی ایک بحث کے ہنگام اچانک کہا: ''تجزیوں اور مطالعوں میں اور تو سب کچھ ہوتا ہے‘ بس ایک وہی نہیں ہوتا‘ جو انسانوں کا پروردگاراور خالق ہے‘ یہ کائنات جس نے پیدا کی ہے... جس کی منشا اور مرضی کے بغیر ایک پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔‘‘
بیتے ہوئے کچھ دن یاد آ رہے ہیں۔ 2013ء میں ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ تھا۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں‘ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تھا۔ اِدھر اُدھر سے کچھ تشویش ناک خبریں سنی تھیں۔ بھاگم بھاگ میں وہاں پہنچا۔ کوئی اخبار نویس‘ ظاہر ہے کہ میٹنگ میں داخل نہ ہو سکتا تھا۔ خدا جانے کیا ہوگا؟ اسی شش و پنج اور احساس کے ساتھ‘ سیڑھیوں کی طرف میں بڑھا تو کسی نے راستہ روکا۔ بوسکی کا کرتا پہنے لمبے تڑنگے‘ ایک قدآور آدمی نے ۔ ایک بے چینی کے ساتھ اس نے اپنا تعارف کرایا۔ وہ ان چھاتہ برداروں میں سے ایک تھا‘ جو غیب سے نمودار ہوئے تھے۔ پارٹی کا ٹکٹ اڑا لے جانے کے لیے۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا‘ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی کی پشت پناہی اسے حاصل تھی۔ اضطراب اور کوفت کا عالم تو تھا ہی۔ دبا ہوا غصّہ بھڑک اٹھا۔ ایسے امیدوار کا حق سلب کرنے والا ‘ ہر لحاظ سے جو بہتر تھا...رانا محبوب اختر!
عرض کیا:راستہ چھوڑ دیجئے‘ خدا کا خوف کیجئے۔
مظفرگڑھ کے اس حلقے سے‘ اصلاً رانا صاحب امیدوار تھے۔ ایک بڑے زمیندار اور اس کے باوجود منکسر آدمی۔ صدیوں سے اس دیار کے پرانے مکین۔ عملی زندگی کا آغاز سول سروس سے کیا ۔ مزاج میں ترتیب اور شائستگی۔ افسر شاہی کی اس دلآویز اور پراسرار دنیا سے وابستہ رہتے تو ایک ایک زینہ عبور کرتے‘ بام پہ جا پہنچتے۔ اختیار و اقتدار کی اس دنیا میں ان کا جی نہ لگا۔ ان کا جی لائبریری میں لگتا تھا۔ اگلے دو عشروں میں‘ دس پندرہ کتابیں‘ انہوں نے لکھیں۔ ایک آدھ تو ایسی ہے کہ قاری مبہوت رہ جاتا ہے‘ مثلاً تازہ تصنیف‘ ''مونجھ اور مزاحمت‘‘ یعنی محبت اور مزاحمت۔ اس خطے کی پوری تاریخ کے تناظر میں ادب‘ شاعری اور سرائیکی وسیب کی لسانی روداد۔ ایسے قلم کار ہمارے عہد میں کم ہیں۔ خوش چہرہ‘ طویل قامت‘ دل جیت آدمی۔ سرکار سے چند برس ہی وابستہ رہے۔ ایک دن اچانک خیرباد کہہ دیا ؎
نہ کوئی فال نکالی‘ نہ استخارہ کیا/بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
اب وہ ایک بین الاقوامی کمپنی سے وابستہ ہوگئے۔ سیروسیاحت کے شوقین۔ یونان کے صنم کدوں میں‘ کبھی مشرقِ بعید کے سبزہ زاروں میں‘ ساگوان کے جنگلوں پہ‘ جہاں ابر برستا رہتا ہے‘ چاندنی راتوں میں ہرن چوکڑیاں بھرتے‘ پرندے گیت گایا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود‘ اپنے گرد آلود دیہات سے وہ جڑے رہے۔ صدیوں سے غربت و فلاکت نے جہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ صدیوں سے‘ جہاں بہار کا موسم طلوع نہیں ہوا۔ عربی کی شدبد‘ فارسی سے شغف‘ انگریزی پہ دسترس‘ اردو سے رفاقت مگر دل سرائیکی زبان کی صوفیانہ شاعری میں اٹکا ہوا۔ خواجہ غلام فرید کی دنیا میں۔ اس نواح کا کون طالب علم ہے‘ جو سالک سے رہائی پا سکتا ہے۔ کوئی رومان پسند تو ہرگز نہیں۔ جو خوابوں کی جنت بسایا کرتے ہیں‘ اسی میں بسر کیا کرتے ہیں۔
میڈا گریہ آہ فغان وی توں
میڈا شعر عروض قوافی توں
میڈا بحر وی توں اوزان وی توں
میڈا اوّل آخر‘ اندر باہر
ظاہر تے‘ پنہان وی توں
ایک شخص نہیں‘ یہ ایک جہان ہے۔ جان ملٹن کی Paradise Lost جنت ِگم گشتہ‘ آدمی جس سے نکالا گیا۔ جس کی تمنا میں وہ جیتا ہے۔ رومان پسندوں میں بھی دو طرح کے آدمی ہوتے ہیں۔ خود اپنا ہی طواف کرنے اور خود اپنی ہی تمنائوں میں بسر کرنے والے۔ دوسرے بھی جو بہشتِ ارضی کی آرزو میں جو اپنے گردوپیش کو بدل ڈالنے کا سپنا دیکھتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا:
اب یہ ارماں کہ بدل جائے جہاں کا دستور
ایک اک آنکھ میں ہو عیش و فراغت کا سرور
ایک اک جسم پہ ہو اطلس و کم خواب و سمور
آدمی ایک عجیب چیز ہے‘ ایک محشرِ خیال۔ کبھی متضاد احساسات کی لہریں بھی اس کے باطن میں اٹھتی ہیں۔ جنتِ گم گشتہ ہی کے مصنف جان ملٹن نے کہا تھا To reign is worth the ambition, though in hell۔انسانی تمنا کا حصول اور حسن‘ اقتدار ہی میں ہے‘ خواہ یہ اقتدار اسے جہنم ہی میں عطا ہو۔ نعمتوں کے سائے میں آسودہ ہونے کے باوجود‘ اس نے سیاست میں قدم رکھنے کا خواب دیکھا‘ہر نجیب آدمی‘ جس سے گھبراتا ہے۔ع
یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں
2008ء کے الیکشن میں قسمت آزمائی کی... دو چار ہاتھ لب بام رہ گیا‘ صرف تین سو ووٹوں سے وہ ہار گیا۔ 2011ء میں عمران کی خود نوشت کا ترجمہ کرتے ہوئے‘ جس کے لیے پچپن روز تک ایک ہوٹل میں مقید رہنا پڑا‘ رانا صاحب سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ علامہ اقبالؔ پر لکھے گئے‘ ایک مشکل باب کا ترجمہ کرتے ہوئے رہنمائی کی ضرورت آن پڑی‘ تو خالد مسعود خان نے رانا سے تعارف کرایا۔اس ناچیز نے انہیں تحریکِ انصاف میں شمولیت کی ترغیب دی۔ خان کو بتایا کہ ایسے سلیقہ مند ہمارے ہاں خال ہوتے ہیں۔ اس کا خیال رکھنا۔ لاہور میں رانا صاحب کپتان سے ملنے گئے تو یہ تاکید اسے یاد تھی۔پھر وہ بھول گیا اور مظفرگڑھ کا ٹکٹ بوسکی کے اسی کرتے کو دے دیا۔ وہ صرف 15000 ووٹ لے سکا۔
30 اکتوبر 2011ء کے تاریخ ساز جلسۂ عام کے بعد‘ آہستہ آہستہ‘ رفتہ رفتہ‘ بتدریج‘ وہ ادنیٰ لوگ‘ خان کے اردگرد جمع ہوتے گئے‘ جن کے خلاف اس نے اعلانِ جنگ کیا تھا۔ رانا محبوب ایسے لوگ پیچھے ہٹتے گئے‘ نذر گوندلوں‘ فردوس عاشق اعوانوں اور صداقت عباسیوں نے‘ اسے گھیر لیا۔ صداقت عباسی اب بھی برقرار ہے۔ کسی بھی دن‘ کوئی بھی گل وہ کھلا سکتا ہے۔ اس کارنامے کے بعد تو اور بھی زیادہ جو محض ایک اتفاق کی پیداوار ہے... شاہد خاقان عباسی ہار گئے۔
محبوب رانا ایسے محبوب لوگوں کے لئے‘ اس کی دنیا تنگ ہوگئی۔ رفتہ رفتہ وہ پیچھے ہٹتے گئے۔نتیجہ کیا ہوا؟ فروری 2012ء اور اس کے فوراً بعد کئے گئے تین مختلف جائزوں کے مطابق قومی اسمبلی کی 90 نشستوں کی بجائے‘ جن کی پیش گوئی تھی‘ وہ 34 تک محدود ہوگیا۔ اگلے پانچ برس ابتلا‘ آزمائش اور امتحان کے تھے؛ اگرچہ جدوجہد بھی سخت جان آدمی نے جاری رکھی۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں‘ برسرِ جنگ رہنا بجائے خود ایک عظیم کارنامہ تھا۔
اب بھی ایسے لوگ‘اس کے اردگرد موجود ہیں اور ڈٹے رہنے پر تلے ہوئے۔ ایک عظیم الشان موقعہ قدرت نے اسے ارزاں کیا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ آنے والا کل اس کے لیے کیا لائے گا؟ ان کاسہ لیسوں اور ابن الوقتوں کو اگر وہ گوارا کرتا رہا تو نعمت کو محض مہلت اور مہلت کو عتاب بننے میں کیا دیر لگتی ہے۔ اس نادرِ روزگار محمد علی جناحؒ کے بعد‘ کون ہے‘ اقتدار کے ایوانوں میں جو رسوا نہیں ہوا۔
اگر پہلی سی فرصت اسے ہوتی۔ اگر اسی پرانی بے تکلفی کے ساتھ میں اس سے بات کر سکتا تو اقبالؔ کا ایک شعر سناتا اور قرآنِ کریم کی ایک آیت۔ مجھے ڈر ہے کہ طفلانہ طبیعت تیری/ اور عیّار ہیں ''مغرب‘‘ کے شکرپارہ فروش۔
فرمان یہ ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس۔ یہ دن ہیں‘ جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیا کرتے ہیں۔
قانون نہیں بدلتا‘ قدرت کا قانون کبھی نہیں بدلتا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ مارگلہ کے دامن میں وہ سرخرو کھڑا ہوگا... یا ان رفتگاں میں شامل جو سونے سے پیتل اور پیتل سے پتھر ہوگئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں