امتحان کا وقت آ پہنچا۔ امید آدمی سے نہیں‘ اللہ سے ہوتی ہے۔ کامیابی کا انحصار اصولوں کی پاسداری اور ریاضت پہ ہوتا ہے‘ فریب دینے اور فریب کھانے والی عقل پہ نہیں۔
نقطۂ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقین
اور عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
ڈاکٹر یاسمین راشد کو شاید صوبے میں وزارتِ صحت سونپنے کا فیصلہ ہے۔ فواد چوہدری کے مبالغہ آمیز دعوے الگ، غیر جانبدار بھی کہتے ہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی اب اکثریت ہے۔ نون لیگ میں فارورڈ بلاک کی سن گن بھی ہے۔ رانا مشہود کو جنوبی پنجاب بھیجا گیا کہ بھیڑوں کو مجتمع رکھا جائے۔ رانا صاحب؟ وہ لین دین کے آدمی ہیں۔ سیاسی مذاکرات کی مہارت ہے‘ نہ ساکھ۔
عمران خان کو وزیر اعظم بنائے بغیر چارہ نہیں۔ سارا ملک اور تمام دنیا ذہنی طور پر اس کیلئے تیار ہے۔ ایک بڑے لیڈر کے میدان سے ہٹ جانے کے بعد‘ دوسرے بڑے لیڈر کو منہا نہیں کیا جا سکتا۔ افسانہ طرازی کی بات الگ ہے‘ پولنگ کے دن ہرگز کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ نون لیگ سے چالیس لاکھ ووٹ اس نے زیادہ لیے ہیں۔بدھ کی دوپہر ایم کیو ایم والے پھر کھسک رہے تھے‘ مگر شام کو عمران خان کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ زرداری صاحب کی طرف سے اہم وزارتوں کی پیشکش سے زیادہ‘ ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ پی ٹی آئی سے اتحاد کے نتیجے میں کیا ان کی پارٹی مرجھا نہ جائے گی۔ باخبر صحافی کہتے ہیں کہ 2013ء میں بھی سات آٹھ سیٹیں پی ٹی آئی نے جیت لی تھیں۔ ایم کیو ایم کے ٹھپے لگانے والوں نے بساط الٹ دی۔ تب الطاف حسین سربراہ تھے اور من مانی کے مواقع ارزاں۔ بلدیاتی الیکشن میں کراچی کے ووٹروں نے تحریکِ انصاف سے ناراضی کا اظہار کیا۔ 2018ء میں امن اور تبدیلی کی آرزو پھر غالب آ گئی۔
یہ امن اور جمہوریت کا ثمر ہے۔ بلوچستان میں بھی‘ جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ اب فیصلہ کن مرحلے میں ہے۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی شفقت نے جتنا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچایا ہے‘ اتنا ہی نقصان بھی۔ اپنی نیک نامی بھی اس کی مجروح ہوئی۔ بعض میڈیا گروپوں کے باب میں اس کا سخت رویہ بھی نقصان دہ ثابت ہو گا۔ میڈیا کی آزادی‘ جمہوریت کا اٹل حصہ ہے۔ غیر ذمہ داری کی حوصلہ شکنی چاہیے لیکن اخبار نویسوں کو کنٹرول کرنے کی خواہش‘ خطرناک ہو گی، جو طاقت کے خمار میں پیدا ہوتی ہے۔
تباہ حال سول اداروں کو مضبوط بنانے میں عسکری قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ملک کا مستقبل عزیز ہے تو بتدریج اسے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ احتساب کو اداروں پہ چھوڑ دینا چاہیے۔ انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے‘ ہوتا نظر بھی آنا چاہیے۔ لوٹ مار کرنے والے صرف نون لیگ ہی نہیں‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں بھی پائے جاتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف نے بیرونی قوتوں سے راہ و رسم بڑھائی اور لوٹ مار کا دھن بیرون ملک منتقل کیا۔ اس کی سزا وہ بھگت رہے ہیں‘ مگر ایک قومی جماعت کی حیثیت سے نون لیگ کا کردار باقی رہنا چاہیے۔ شہباز شریف سمیت جو بھی قانون کی زد میں آئے‘ ضرور آئے‘ مگر اس کی طرح نہیں کہ زرداری ٹولے اور پی ٹی آئی کے نوسر باز پتلی گلی سے نکل جائیں۔
کیا چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنانے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے؟ ابھی ابھی ان سے بات ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ خود خان صاحب نے انہیں پیشکش کی۔ قابلِ فہم یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ گوارا نہ ہو گا۔ پارٹی کے اندر اور پارٹی کے باہر بھی۔ کپتان کو ان سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مگر چوہدری برادران کے بغیر‘ پنجاب میں حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ تجربہ ان کا ہے اور مراسم بھی۔ شریف خاندان‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کا بس چلا تو وہ انہیں دم نہیں لینے دیں گے۔ محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی خان کے علاوہ، میڈیا کا ایک حصہ بھی۔ عمران خان کم قصوروار نہیں، ذاتی تنقید سے باز نہیں آتے۔
کیا اٹک والے طاہر صادق کے وزیر اعلیٰ بننے کی اطلاعات فقط قیاس آرائیاں تھیں؟ کچھ با خبر لوگوں کا دعویٰ یہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اچھے منتظم اور پنجاب کی سیاست کے خم و پیچ سے آشنا ایک سلیقہ مند لیڈر ہیں۔ پنجاب کابینہ ان کے بغیر ادھوری ہو گی۔ وزیر اعلیٰ کو سب کچھ سونپ دینا مناسب نہ ہو گا‘ خوا وہ کتنا ہی لائق اور قابلِ اعتبار ہو۔
پنجاب کو علیم خان یا فواد چوہدری کے حوالے کرنے کا امکان کم ہے۔ فواد میں دوسروں کی تحقیر کا جذبہ غالب رہتا ہے۔ اوروں کو وہ ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔ علیم خان ذاتی طور پر کپتان کے قریب ہیں۔ عنایات کے عادی مگر ٹکٹوں کی تقسیم میں کسی لیاقت کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ وزارت کے زمانے میں بھی کرپشن کا الزام کبھی ان پر نہ لگا۔ مان لیجئے‘ مگر نیب میں مقدمات کے ساتھ وہ ایک مؤثر وزیر اعلیٰ نہیں ہوں گے۔ پرویز خٹک سمیت‘ دونوں سیٹوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں سے‘ عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد کا رخ کریں۔ مسئلہ مرکز میں ہے‘ صوبوں میں نہیں۔
وزیر اعلیٰ کیلئے اب میانوالی کے قصبے پپلاں کے 60 سالہ محمد سبطین خان کا نام لیا جا رہا ہے۔ سبطین کا تعلق ایک چھوٹے سے پشتون قبیلے بلچ سے ہے‘ تین صدیوں سے جو اس دیار میں آباد چلا آتا ہے۔ ان کے جد امجد حاجی محمد بلچ کا مزار ڈیرہ اسمٰعیل خان کے گائوں پنیالہ میں ہے‘ جو حضرت مولانا فضل الرحمن کے حلقۂ انتخاب میں ہے۔ خانہ بدوشوں کا یہ قبیلہ احمد شاہ ابدالی کے ساتھ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد اس چھوٹے سے گائوں میں وارد ہوا تھا‘ جو اب ایک بڑا قصبہ ہے... میانوالی! تاریخی طور پر یہ ایک مسلم لیگی خاندان ہے۔ ان کے جدِ امجد امیر عبداللہ خان نے 1946ء کے الیکشن میں امیر عبداللہ خان روکھڑی کو ہرا دیا تھا۔
بہاولپور کے صادق پبلک سکول سے ابتدا، ایچی سن کالج‘ پھر ایف سی کالج اور آخر کار پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کی ڈگری۔ اسی زمانے میں اساطیری منجّم اور معلّم ایم اے ملک سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ایم اے ملک نے انہیں عملی سیاست سے وابستہ ہونے اور آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا مشورہ دیا۔ ٹائون کمیٹی پپلاں کے علاوہ 1990ئ‘ 1997ئ‘ 2002ئ‘ 2008ء ‘ 2013ء اور 2018ئ‘ سات انتخابات میں حصہ لیا۔ دو ہارے اور پانچ میں ظفرمند رہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے انہیں گریز رہا۔ 1990ء کا الیکشن آزاد امیدوار کے طور پر لڑا اور اسلامی جمہوری اتحاد کو شکست دی۔ 1997ء میں نون لیگ سے شکست کھائی۔ 2008ء میں شہباز شریف سبطین خان کو نون لیگ میں شامل کرنے پر مُصر تھے۔ اس نے انکار کر دیا۔ ''پانچ برس تک میں چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ رہا ہوں۔ اس حرکت کا ارتکاب نہیں کر سکتا‘‘ اس نے کہا۔ وہ دھیمے مزاج کے ایک وضع دار آدمی ہیں‘ جو کبھی اپنی گاڑی کا ہوٹر بجاتے یا اس پر قومی پرچم لگائے‘ علاقے میں داخل نہیں ہوئے۔ خلقِ خدا سے گھلنے ملنے والے سبطین خان فرش نشیں اور منکسر ہیں، تعلیم یافتہ اور متحمل مزاج۔ ان کے حامی البتہ شکایت کرتے ہیں کہ دن چڑھے وہ بروئے کار آتے ہیں‘ دس گیارہ بجے۔ کوئی بری عادت سبطین سے منسوب نہیں۔ سگریٹ تک نہیں پیتے۔ کیا عمران خان نے انہیں وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش کی ہے؟ میں نے ان سے پوچھا ''بالکل نہیں‘‘ انہوں نے کہا ''میری تو ان سے بات تک نہیں ہوئی۔ میں اپنی تقدیر پہ شاکر رہنے والا آدمی ہوں‘‘۔ کپتان کے لیے ناچیز نے پیغام چھوڑا لیکن ظاہر ہے کہ وہ مصروف بہت ہے۔
ماحول کو ٹھنڈا کرنے‘ بہترین اور بے لوث آدمیوں کا انتخاب کرنے اور ترجیحات طے کرکے ایک بھرپور عزم کے ساتھ بروئے کار آنے کی ضرورت ہے۔ ایک ذرّۂ خلوص بھی قدرت ضائع نہیں کرتی... اور عارف نے یہ کہا تھا: کسی لشکر کی نہیں‘ اللہ کو صرف ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر وہ ظاہر و باطن میں سچا اور کھرا ہو تو لشکر فراہم ہو جاتا ہے۔
امتحان کا وقت آ پہنچا۔ امید آدمی سے نہیں‘ اللہ سے ہوتی ہے۔ کامیابی کا انحصار اصولوں کی پاسداری اور ریاضت پہ ہوتا ہے‘ فریب دینے اور فریب کھانے والی عقل پہ نہیں۔
نقطۂ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقین
اور عالم تمام وہم و طلسم و مجاز