عمران خاں یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد ان کا طرزِ عمل دوسرا ہے۔ ان کے حامی بھی جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ لیں‘ اتنا ہی اچھا ہے۔ ع
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
چند ساعتیں حکومت کے زاویے سے سوچا تو منظر کچھ اور طرح سے ابھرے۔ حکومت کو کیا چاہیے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ امن و سکون۔ سنا کہ این اے 35 سے مولانا فضل الرحمن ضمنی الیکشن میں حصّہ لیں گے‘ جو عمران خان خالی کرنے والے ہیں۔
ایک ٹویٹ لکھا ''این اے 35‘ عمران خاں کی چھوڑی سیٹ پر مولانا فضل الرحمن کی فتح ملکی مفاد میں ہوگی۔ جذبہ انتقام کی تسکین نہیں‘ قومی استحکام۔ تمام گروہوں کی نمائندگی۔ کامن سینس اور پولیٹیکل سائنس کا تقاضا تو یہی ہے‘‘۔ ردّعمل کا ایک طوفان اٹھا۔ ایک صاحب نے لکھا: وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ آپ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پرمولانا کی حمایت کردی۔ آپ پارلیمنٹ کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں۔ پھر دوسرا: اور سرکار یہ ضروری تو نہیں کہ فضل الرحمن اسمبلی میں آئیں‘ تبھی اس حلقے کی نمائندگی ہوگی۔ اس کے بعد پے بہ پے o اگر انہوں نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کا مطالبہ کیا؟ o بچپن سے ان کو دیکھتے آئے ہیں اب ہمارا بڑھاپا تو ان کے دیدار کے بغیر آنے دیں۔ o کم از کم چودہ اگست کے دن تو یہ بات آپ کو نہیں کرنی چاہیے تھی۔ o آپ کو مسئلہ کیا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کی بجائے کوئی دوسرا آدمی یہ عبارت لکھتا ہے۔ o حضورِ والا‘ اس ملک کے نہ ماننے والوں کا گروہ؟؟؟ سبحان اللہ‘ کیا کہنے۔ o بھائی صاحب کسی ایک جگہ ٹھہر جایا کریں۔ o اچکزئی اور منظور پشتین بھی کچھ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہیں بھی لے آئیں۔ o تو کیا یہ سیٹ ان کو پلیٹ میں رکھ کر دے دی جائے۔ o اس منطق کے مطابق تو نواز شریف صدر پاکستان‘ زرداری کو چیئرمین نیب‘ محمود خان اچکزئی گورنر بلوچستان‘ اسفند یار ولی کو گورنر پختونخوا اور مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہی ہونا چاہیے۔ o عمران خاں کی چھوڑی ہوئی سیٹ کیوں؟ کسی نون لیگ والے کی سیٹ سے جیت جائے۔ o آپ ہیں کس طرف؟ سمجھ سے باہر ہیں آپ۔ کیا سیاست زور زبردستی کی ہوتی ہے۔ o مختلف گروہوں کی نمائندگی اگر مطلوب ہے تو ہر گروہ کے لیڈر کو الیکشن کے بغیر ہی اسمبلی میں بٹھا دیا جائے۔ o اس ملک پر کچھ رحم کریں۔ o لعنت ہو ایسی پولیٹیکل سائنس پہ۔ o آپ بھی ڈر گئے؟o پھر نوازشریف اور مریم نواز کو بھی الیکشن لڑنے کا موقع دیا جائے۔ o کبھی کبھی تو آپ کی کامن سینس بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ o ماشاء اللہ اس قدر سمجھوتہ۔ o کوئی ایک کام بتا دیں ملکی مفاد میں جو مولانا صاحب سے سرزد ہوا ہو۔ o جن صاحب پہ ان کے والدِ گرامی کو مکمل اعتبار نہ تھا‘ آپ ان کی وکالت کر رہے ہیں۔ o مولانا فضل الرحمن کا برخوردار موجود ہے اسمبلی میں‘ کیا وہ کافی نہیں۔ o اس سیٹ کا فیصلہ کرنے والے آپ کون ہیں۔ o میں نے آئندہ سے آپ کی ٹویٹ نہ پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ o 71 سال سے ہم اسی طرح کی کامن سینس سے کام لیتے آ رہے ہیں‘نتیجہ واضح ہے۔ o آپ حافظ سعید کے بارے میں یہ بات کیوں نہیں کرتے۔ o آدھی رات سے ہم آپ کے ٹویٹس دیکھنا شروع کرتے ہیں۔ دن بھر انتظار کیا تو یہ ٹویٹ آیا مگر آج آپ نے خوف زدہ ہی کر ڈالا۔ o آپ بوڑھے ہو چکے ہیں لکھنا بند کردیں۔ o میں آپ کا قائل تھا مگر اس طرح کی بات کا کبھی گمان تک نہ تھا۔ o آپ کیوں عمران خاں سے آج کل بیزار سے لگ رہے ہیں‘ کیا ہوا؟ o آپ کو کیا ہو گیا ہے‘ کبھی آپ نجم سیٹھی اور کبھی آپ فضل الرحمن کی وکالت کرنے لگتے ہیں۔ o کیا آپ ملک میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں۔ o آپ بیمار کیوں نہیں ہو جاتے۔
آخری ٹویٹ کے جواب میں لکھا: اللہ سے آپ دعا کیجئے۔ ظاہر ہے کہ میں تو اپنے لیے صحت مندی کی دعا ہی کر سکتا ہوں۔ فوراً ہی ان صاحب نے جواب دیا: آپ کی صحت کے لیے ہم دعا گو ہیں لیکن آپ کی طرف سے پارلیمنٹ میں مولانا کے تشریف لانے کی بات اچھی نہ لگی۔
نجم سیٹھی والا قصّہ اور بھی دلچسپ ہے۔ چند دن پہلے سوال کیا تھا کہ اگر کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے نجم سیٹھی کی کارکردگی اچھی ہے تو کیوں نہ انہیں برقرار رکھا جائے۔ اس پر بھی ایسا ہی شدید ردّعمل سامنے آیا تھا۔ بہتیرا کہا کہ صرف سوال پوچھا ہے‘ حمایت نہیں کی۔ ازراہِ احتیاط عامر خاکوانی سے پوچھا: کیا کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے‘ سیٹھی صاحب کامیاب رہے۔ ان کا جواب یہ تھا: صرف سپرلیگ کی حد تک۔
اندازہ ہوا کہ تحریک انصاف کے حامی ابھی تک‘ الیکشن میں پیدا ہونے والی جذباتی کیفیت سے باہر نہیں آ سکے‘ ورنہ اختلاف پہ اکتفا کرتے برہم نہ ہوتے۔
مولانا فضل الرحمن سے عمران خاں کے حامیوں کی ناراضی اور بھی شدید ہے۔ ابھی تک مشتعل ہیں۔ معاف کرنے کی بات کرتے ہوئے‘ خواہ فتح مکّہ کی مثال ہی کیوں نہ دی جائے‘ غور کرنے پہ آمادہ نہیں ہوتے۔ مکّہ کے سفاک مشرکین کو رحمت اللعالمینﷺ نے معاف کر دیا تھا۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو معاف نہیں کر سکتے۔ اس وقت بھی نہیں جب خود ہمارا مفاد اس سے وابستہ ہو۔
پارلیمنٹ میں مولانا فضل الرحمن کی موجودگی کے حوالے سے ناچیز کی رائے یکسر غلط ہو سکتی ہے۔ یہ اندازِ نظر کی بات ہے۔ ایسی شدید بدگمانی مگر کیوں کہ اسے مولانا کا حامی فرض کر لیا جائے۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ شرارت پر آمادہ ہے۔ ناراض نوجوانوں میں سے اکثر نوجوان ابھی سکولوں اور کالجوں یا زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیوں میں تعلیم پا رہے ہوں گے‘ جب سولہ برس تک یہ اخبار نویس تنِ تنہا عمران خاں کی حمایت کرتا رہا‘ تنِ تنہا۔ ایک بھی کوئی دوسرا صحافی تائید پہ آمادہ نہ تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ میں حماقت پر تلا ہوں۔ سیاست اور صحافت کے آداب سے ناآشنا ہوں۔ اخبار نویس کے اندازے درست ہوتے ہیں اور غلط بھی۔ کوئی ہوش مند یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ آنے والے کل کو دیکھ سکتا ہے۔ اس طالب علم کے بہت سے اندازے بھی غلط ہوئے۔ ظاہر ہے کہ چند ایک کے درست ہونے پر زعم کا شکار ہو جانا حماقت ہوگی۔ عصرِ رواں کے عارف کا کہنا یہ ہے کہ دعویٰ باطل ہوتا ہے۔
اس بدگمانی کا مگر کوئی جواز نہیں کہ عمراں خاں اور ان کے ساتھیوں کو میں ناکام دیکھنا چاہتا ہوں۔ ان کی کامیابی ملک و ملت کی کامیابی ہے۔ آج بھی ان کے ساتھیوں سے رابطہ رکھتا ہوں۔ کہیں سے ڈھنگ کی کوئی تجویز ملے‘ اخبار میں لکھتا اور ٹی وی پر بلند آواز میں اظہار کرتا ہوں۔
ابھی ابھی مستقبل کے صدرِ پاکستان سے تفصیل کے ساتھ بات ہوئی‘ جن کا نام ابھی اخفا میں ہے۔ اللہ کا شکر ہے دانا لوگوں سے مشورہ کرتا ہوں؛ چنانچہ بعض تجاویز پہ غور بھی کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ صوبہ بنانے سے پہلے ہی جنوبی پنجاب کے لیے ملتان‘ بہاولپور یا کسی اور شہر میں ایک سیکرٹریٹ تعمیر کیا جائے۔ ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا جہاں تقرر ہو۔ ایک سینئر وزیر جس کا نگران رہے۔ اسی طرح شمالی پنجاب کے لیے نسبتاً ایک چھوٹا سیکرٹریٹ۔
جذبات سے نہیں‘ کاروبارِ حکومت صرف دانش‘ احتیاط‘ تدبیر اور ایثار سے چلایا جا سکتا ہے۔ جذبہ انتقام کو خیرباد کہے بغیر ملک کو سرسبز نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران خاں یہ بات سمجھ چکے ہیں۔ منتخب ہونے کے بعد ان کا طرزِ عمل دوسرا ہے۔ ان کے حامی بھی جس قدر جلد یہ نکتہ سمجھ لیں‘ اتنا ہی اچھا ہے۔ ع
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
پسِ تحریر: مولانا کے الیکشن لڑنے کی اطلاع غلط ثابت ہوئی۔