سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: اپنے بھائی کی مدد کرو، ظالم ہو یا مظلوم۔ اسی سے اخذ کردہ قاعدہ شاید یہ ہو گا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ باخبر ہو یا بے خبر، نادان ہو یا دانا۔ ہنر مند ہو یا بے ہنر۔
سحر ڈاکٹرز ہسپتال والے سرور صاحب نے کہا: عمران خان کے بیان کردہ فارمولے کو ملحوظ رکھا جائے تو تونسہ سے پی ٹی آئی کے کسی ایم پی اے کو وزیراعلیٰ بنائے جانے کا امکان ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں اسلم اقبال، حسنین دریشک، سبطین خان اور ہاشم بخت، ہر روز ایک نیا نام سامنے آتا اور نئے گردوغبار میں کھو جاتا ہے۔ میں نے سوچا۔
اب صرف ایک قابلِ اعتبار اطلاع تھی۔ یہ کہ امیدوار کا تعلق جنوب سے ہو گا، ملتان سے آگے، جہاں قدیم خراسان کی حدود تمام ہوتی ہیں۔ دو ہزار سال پہلے اس خطے کو یہ نام ایرانی فاتحین نے دیا تھا۔ افغانستان اور ایران کے کچھ حصے بھی اس میں شامل تھے۔ اب اس نام کا ایک صوبہ ایران میں ہے ۔ یہ لفظ ایک اساطیری اہمیت بھی رکھتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا تھا :آخر زمانے میں، لشکر یہاں سے اُٹھیں گے۔ ہند کے مشرکین کو شکست دینے کے بعد، ابنِ مریمؑ کی قیادت میں یہودیوں سے آخری جنگ ہو گی، پھر ساری دنیا پہ آپ ﷺ کے علم لہرائیں گے۔
اتنے میں اطلاع آگئی کہ خان صاحب کے مجوزہ امیدوار عثمان بزدار ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی قبائلی پٹی میں آباد بزدار قبیلے کے سردار فتح محمد خان کے فرزندِ ارجمند۔ سردار فتح محمد خان دو بار خود بھی ایم پی اے رہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں آزاد اور جنرل پرویز مشرف کے عشرے میں قاف لیگ کے ٹکٹ پر ۔ پھر عنان اپنے صاحبزادے کو سونپ دی۔ ایک بار وہ بھی ایم پی اے رہے، قاف لیگ ہی کے پلیٹ فارم سے۔ پھر وہ نون لیگ میں شامل ہو گئے۔ رکنِ اسمبلی تو نہیں، شریف خاندان کی طرف سے وہ تونسہ کی ٹائون کمیٹی کے ناظم بنائے گئے۔ بی اے ایل ایل بی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان بار ایسوسی ایشن کے ممبر مگر عملاً وکالت سے کوئی دلچسپی نہیں۔
آدمی کیسے ہیں؟ ان کے ایک قریبی رشتہ دار سے پوچھا۔ بات کرنے پر وہ آمادہ مگر خوف کا شکار کہ پتہ چل گیا تو خرابی ہو گی۔ اس پختہ پیمان پر کہ کبھی کسی کو بتایا نہ جائے گا، کچھ افواہوں کی اس نے تردید کی جو اب گردش میں تھیں، کچھ کی تصدیق۔
ملتان کے ایک مشہور اخبار نویس کا دعویٰ تھا کہ عثمان بزدار کے والد سردار فتح محمد خان بزدار مشتعل مزاج واقع ہوئے ہیں۔ ایک ایسے پولنگ سٹیشن پر، جہاں ووٹروں کی اکثریت، ان کے خلاف تھی، تصادم ہوا تو سات آدمیوں کو انہوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ علاقے میں منشیات، بھتہّ خوری اور ڈاکہ زنی کا جو سلسلہ ہے، بالواسطہ ہی سہی، قبیلے کا سردار خاندان اس کا ذمہ دار ہے۔ عثمان بزدار کے رفیق نے کہا: سو فیصد غلط، نری الزام تراشی۔ یہ خاندان کبھی قتل وغارت میں ملوّث ہوا، منشیات اور نہ بھتہ خوری میں۔ مخالفین کی یہ اختراع ہے یا کسی بدگمان وقائع نگار کی۔ اب ایک دوست کے توسط سے، تونسہ کے ایک مشہور اور نیک نام وکیل سے رابطہ کیا۔ ان دوست نے جو خود بھی قابلِ اعتماد راوی ہیں، یہ کہا کہ ان صاحب کی رائے پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
اتنے میں ڈیرہ غازی خان کے ایک مشہور سیاستدان کی رائے اس اخبار نویس تک پہنچ چکی تھی کہ یہ بدترین انتخاب ہو گا۔ سوال یہ تھا کہ کیا اس تاثر میں نفرت کا دخل تو نہیں؟۔ تحریکِ انصاف کے ایک جہاندیدہ اور سرکردہ سیاستدان سے پوچھا تو بولے : اور تو کسی خطا کے وہ مرتکب ہو سکتے ہیں، غلط بیانی کے قطعی نہیں۔ عمران خان کے دوست ہیں اور پارٹی کے خیرخواہ۔ میں ان صاحب کو جانتا تھا مگر غائبانہ۔ ان کے ایک بزرگ سے رابطہ کیا۔ اس بیان کی انہوں نے تصدیق کی۔ کہا: براہِ راست آپ انہی سے پوچھ لیجئے۔ عرض کیا: ان کا فون بند ہے۔ انہوں نے علاقے کی ایک معزز خاتون کا نام لیا۔ کہا: بالکل جھوٹ نہیں بولتیں نہایت نجیب اور معتبر ہیں۔ اس خاتون کی تلاش شروع کی۔ گھنٹے بھر کے بعد ان سے رابطہ قائم ہو سکا ''عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنائے جا رہے ہیں۔ اطلاع کی تصدیق ابھی نہیں ہوئی مگر پی ٹی آئی کے لیڈروں سمیت بیشتر لوگ اس اطلاع کو درست سمجھتے ہیں۔ بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ بول اٹھیں ''کیا کہا؟ کیا کہا؟ عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ؟‘‘۔ عرض کیا کہ خبر ٹی وی پہ نشر ہو رہی ہے۔ اسی لئے تو یہ سارا تردد ہے۔ ''خدا کی پناہ‘‘ بے ساختہ انہوں نے کہا‘ ''جب ٹائون کمیٹی کا ناظم تھا تو کیا کیا کرشمے اس نے دکھائے نہیں۔ اس کی بجائے ڈھنگ کے کسی آدمی کو کیوں نہیں بناتے۔‘‘ خاتون غصے میں تھی۔ عرض کیا: میں اخبار نویس ہوں‘ صرف رائے دیتا ہوں ۔ اب تک حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر، میرا خیال بھی وہی ہے جو آپ کا۔ سیاست کے اس طالب علم سمیت بہت سے لوگوں نے، کئی نام تجویز کئے ہیں۔ فیصلہ تو عمران خان صاحب کو کرنا ہے۔
ٹائون کمیٹی میں کیا کیا کرشمے عثمان بزدار نے دکھائے تھے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ذمہ داری مشہور مزاحیہ شاعر اور روزنامہ دنیا کے کالم نگار خالد مسعود خان کو سونپی گئی۔
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
دوست وہ ہوتا ہے مشکل میں جس سے مدد طلب کی جائے اور وہ آپ کا ہاتھ بٹائے۔ فوراً ہی خالد مسعود نے ٹیلی فون گھمانا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے انہوں نے مجھے بتایا: کہا جاتا ہے کہ ٹائون کمیٹی کے موصوف جب ناظم تھے تو تعمیراتی ٹھیکوں میں روپیہ بنایا، دھاندلی کی۔کہا جاتا ہے کہ درجۂ چہارم کے بھوت (Ghost) ملازمین بھرتی کئے۔ خالد مسعود نے یاد دلایا کہ یہ ان کی رائے ہے نہ کوئی مصدقہ اطلاع بلکہ یہ وہ بات ہے جو تونسہ کے اکثر مکین کہتے ہیں۔ اب کچھ اور لوگوں سے رابطہ کیا۔ شہر کے مکینوں، ایک آدھ اخبار نویس اور ان سے جن کا تعلق تونسہ سے ہے مگر اب کسی اور دیار میں بستے ہیں۔ ان سب کا تاثر یہی تھا۔
اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر پارٹی کے ایک لیڈر نے بتایا: عثمان بزدار نے تحریکِ انصاف کی ضلعی، علاقائی شاخ سے رابطہ کیا اور نہ صوبائی سے۔ تونسہ سے سیدھے اسلام آباد پہنچے۔ معلوم نہیں پارٹی کا ممبر شپ فارم بھی پر کیا یا نہیں، ٹکٹ مل گیا ۔ کوئی بڑی سفارش؟ کسی بڑے آدمی کی سرپرستی؟ کچھ معلوم نہیں۔ اطلاع عام ہونے کے بعد ردِ عمل شروع ہوا؛ چنانچہ اب ضروری نہیں کہ انہیں وزیر اعلیٰ بنایا جا سکے۔ یہ کہانی اس لئے لکھی ہے کہ پاکستانی سیاست کے طوراطوار واضح کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بھی کہ آج کل اخبار نویس کس آزمائش سے دوچار ہیں۔ فوجی حکومت ہو، بھٹو، شریف یا چوہدری خاندان کی، امتحان میں وہ ہمیشہ رہتے ہیں۔ نوعیت بدلتی رہتی ہے۔
ہر کہانی کا ایک سبق ہوتا ہے۔ اس تازہ ترین خود بیتی کا سبق کیا ہے؟ نیک نیت ہو سکتا ہے مگر اس ملک کا نیا لیڈر، سیاسی حرکیات سے آشنا نہیں۔ خیر، یہ تو معلوم ہی تھا۔ وزارتِ اعلیٰ کے لئے، اس کی ٹامک ٹوئیوں سے انکشاف ہوا، وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ معلومات کے حصول اور مشاورت کا معقول طریق کیا ہوتا ہے۔اب کیا کیجئے؟ اس کی مدد کرنی چاہئے؛ مدد!
اصول یہ ہے: اپنے بھائی کی مدد کرو، ظالم ہو یا مظلوم۔ اسی سے اخذ کردہ قاعدہ شاید یہ ہو گا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ باخبر ہو یا بے خبر، نادان ہو یا دانا۔ ہنر مند ہو یا بے ہنر۔
پسِ تحریر: آخری اطلاع یہ ہے کہ ان کا نام جہانگیر ترین نے تجویز کیا تھا‘ جو سپریم کورٹ سے اپنی بحالی کے بعد خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتے ہیں۔