کسی بھی گروہ، کسی بھی آدمی اور ان کے عزائم کو تقاریر اور بیانات نہیں بلکہ دفترِ عمل سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ واقعات کی شہادت یہ ہے کہ جوڑ توڑ میں اس جاگیردار اور صنعت کار جہانگیر ترین کا کوئی ثانی نہیں۔
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
وہ دن یاد آیا جب ترین اور ان کے پندرہ سولہ دوست بحث میں جتے تھے کہ تحریکِ انصاف میں انہیں شامل ہونا چاہئے یا نہیں۔ یہ سابق ارکان اسمبلی تھے یا سینیٹر۔ ترین ان کے لیڈر نہیں تھے بلکہ میزبان لیکن سرکردہ۔ صدر فاروق لغاری مرحوم کے دونوں فرزند اویس لغاری اور جمال لغاری بھی موجود تھے۔ اکثر کا خیال یہ تھا کہ انہیں ایک گروپ تشکیل دینا چاہئے۔ یہ گروپ عمران خان کا حلیف بن کر الیکشن لڑے۔
30 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے تاریخی جلسۂ عام نے فضا بدل ڈالی تھی۔ شاہ محمود قریشی کے فرزند جلسہ گاہ کے آس پاس گھومتے رہے۔ اپنے گرامی قدر والد کو‘ جنہیں سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا، عوامی اجتماع کے مناظر اور کیفیات سے آگاہ کرتے رہے۔ وزیرِ خارجہ کی ذمہ داری تیاگ کر پیپلز پارٹی سے وہ الگ ہو چکے تھے۔ بعد میں مدّتوں جس طرح پی ٹی آئی میں ان کا مسئلہ جاوید ہاشمی رہے اور پھر جہانگیر ترین، اس وقت ان کی دل سوزی کا سبب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔ آصف علی زرداری کو انہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ یوسف رضا بد عنوان ہیں۔ زرداری صاحب کا جواب یہ تھا: تو پھر کیا؟ برہمی کی شدت میں ایک بہانہ ان کے ہاتھ آ گیا۔ ایک امریکی وحشی نے لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو قتل کر ڈالا۔ معاہدہ تاشقند کے ہنگام جس طرح شاطر بھٹو نے فوجی حکمران کی نا مقبولیت سے فائدہ اٹھایا تھا، قریشی نے ویسا ہی کھیل کھیلنے کا ارادہ کیا۔
محض ایک حماقت، وہ سپنے جو دن کی روشنی میں دیکھے جاتے اور شبنم کے قطروں کی طرح تحلیل ہو جاتے ہیں۔ بایں ہمہ قریشی کے اقدام کو پسند کیا گیا۔ انہیں اس کا ادراک تھا؛ چنانچہ فصل کاٹنے کا انہوں نے منصوبہ بنایا۔ نون لیگ یا پیپلز پارٹی؟ پہلے وہ نواز شریف سے ملے مگر سودا طے نہ پا سکا۔ پھر کسی کے توسّط سے، عمران خان کے عم زاد حفیظ اللہ خان سے رابطہ کیا۔ 30 اکتوبر 2011ء کی خیرہ کن کامیابی کے بعد، عمران خان کو لاہور میں ٹھہرنا چاہئے تھا۔ شہر میں ممبر سازی کی مہم برپا کرنی چاہئے تھی‘ جس کی لہریں وسطی پنجاب تک پھیل جاتیں۔ میں ششدر رہ گیا‘ جب رات گئے فون پر ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ وہ کہاں ہیں۔ ''میں چین جا رہا ہوں‘‘ اس نے کہا۔ مشورہ دینے سے اب کچھ حاصل نہ تھا۔ ایک بہترین موقع ضائع کر دیا گیا تھا۔ بہت لوگ متوجہ ضرور ہوئے مگر اہم سیاسی شخصیات جوق در جوق شامل نہ ہوئیں جس کی امید کی جا رہی تھی۔ حفیظ اللہ خان سے شاہ محمود نے منوا لیا کہ عمران خان کے بعد انہیں پارٹی میں سب سے زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ وہ پارٹی کے وائس چیئرمین ہوں گے۔ عمران خان سے پہلے آخری مقرر ہمیشہ وہ ہوا کریں گے۔
اسی فضا میں جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں کا اجلاس تھا۔ وہی ایک ڈھیلے ڈھالے گروپ کی تشکیل اور عمران خان سے معاہدے کی تجویز۔ صاف الفاظ میں اس ناچیز نے ان سے کہا کہ وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں یا کسی اور پارٹی میں۔ یہ گروپ والا دھندہ چلے گا نہیں۔ ایسی ہی ایک دوسری کوشش بھی ہوئی، انجام جس کا عبرت ناک ہوا۔ حامد ناصر چٹھہ اور ہمایوں اختر کی قیادت میں ''ہم خیال‘‘ کے نام سے ایک گروپ تشکیل پایا۔ عمران خان کے دبائو کا شکار، نواز شریف نے ان سے معاہدہ کر لیا کہ اس قدر سیٹیں ان کے لئے وہ خالی چھوڑ دیں گے۔ الیکشن سے چند دن پہلے وہ مکر گئے۔ یہ دھڑا بادلوں کی طرح بکھر گیا، برسنا جن کے نصیب میں نہ ہو۔
اجلاس میں اچانک ایک پُرجوش آواز حمایت میں اٹھی۔ یہ گوجرنوالہ کے کرنل ریٹائرڈ غلام سرور چیمہ تھے۔ 1993ء میں پہلی بار، قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے بعد، وہ بے نظیر بھٹو کے وزیرِدفاع رہ چکے تھے۔ ہوا کا رخ پہچاننے والے خوش بیان لیڈر نے فروری 1997ء کا الیکشن نون لیگ کے ٹکٹ پر لڑا۔ مشرف مارشل لاء کے بعد وہ نون لیگ سے الگ ہو گئے۔ ایک جھرنے کی طرح جو اچانک پھوٹ پڑا ہو، ماحول کو ان کی تقریر نے بدل ڈالا۔ پھر جہانگیر ترین کے ساتھ، ایک مختصر سی میٹنگ اور ہوئی۔ لغاری برادران کے سوا تقریباً باقی سب پی ٹی آئی کا حصہ بننے پر آمادہ ہو گئے۔ ترین کے بعد ریل کے سابق وزیر، نجیب اسحٰق خاکوانی ان میں نمایاں تھے۔ بہت بعد میں وہ تحریک انصاف جنوبی پنجاب کے سربراہ بنائے گئے اور ان کی کارکردگی شاندار رہی۔ نون لیگ کو جنوب میں انہوں نے شہ مات دی۔ بالکل برعکس وسطی پنجاب میں علیم خان نے 42 میں سے 33 سیٹیں ہار دیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ حالات کی ستم ظریفی سے خاکوانی صاحب خود ہار گئے۔ وضع دار اور مرتب خاکوانی ورنہ آج وفاقی کابینہ کا حصہ ہوتے۔ خیر، اب بھی ان پر اتنا ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔ اتنی ہی ان کی توقیر ہے اور اتنی کی ریاضت وہ کرتے ہیں۔ ہر وقت اگر جہانگیر ترین سے نہ جڑے رہیں تو ان کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو جائے۔
کرشمہ جہانگیر خان ترین نے دکھایا، 2012ء میں کسی منصوبہ بندی کے بغیر عمران خان نے پارٹی میں الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا تو ترین نے ایسا کھیل کھیلا جو کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ انہوں نے اپنے مہرے آگے بڑھانے اور ایسے لوگوں کو پیچھے دھکیلنے کا فیصلہ کیا جو موصوف کو مانتے نہیں تھے۔ سولہ برس تک پارٹی کی بے ریا خدمت کرنے والی فوزیہ قصوری کے خلاف ایک غیر معروف خاتون کو انہوں نے لا کھڑا کیا۔ جسٹس وجیہہ الدین رپورٹ کے مطابق، دھڑلّے سے پارٹی کونسلروں کے ووٹ انہوں نے خریدے اور اس خاتون کو شعبۂ خواتین کا صدر بنا دیا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ وہ پرویز خٹک کو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنانے میں کامیاب رہے، وہی ووٹوں کی خریداری کا اعجاز۔ موقع شناسی میں ترین کا کوئی ثانی نہیں۔ جب ضرورت ہو بے دریغ وہ سرمایہ خرچ کرتے ہیں۔ رام کرنے اور لبھانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اپنا ہوائی جہاز انہوں نے عمران خان کو پیش کر دیا۔ 14 اگست 2014ء کو شروع ہونے والے دھرنے پر انہوں نے کروڑوں روپے صرف کئے۔ عمران خان کے آس پاس وہ موجود رہتے۔ انہیں آسودہ رکھتے، ان کی مدد کرتے۔ الیکشن 2018ء کے بعد آزاد امیدواروں کو گھیرگھار کر وہی پارٹی میں لائے۔ کوئی دوسرا بھی یہ مہم نمٹا سکتا، لیکن وسائل؟ لیکن بروقت پیش قدمی؟
اب بھی عمران خان ہی لیڈر ہیں اور ہمیشہ وہی رہیں گے۔ ان کا عزمِ صمیم اور دلاوری۔ ٹکرا جانے کی اور کھڑا رہنے کی خو۔ مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کی غیر معمولی صلاحیت جو عامی کو ممتاز اور ممتاز کو اساطیری شخصیت بنا دیتی ہے۔ جہانگیر ترین ان خوبیوں سے محروم ہیں لیکن مردم شناس، موقع شناس اور معاملہ فہم؛ اگرچہ وہ تردید کرتے ہیں لیکن اخبار نویسوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ ان کا نامزد کردہ ہے۔ بعض اخبار نویسوں کا خیال یہ بھی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سپریم کورٹ کی عائد کردہ پابندی سے نجات پانے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ اس دن عثمان بزدار شاید جہانگیر ترین کے حق میں دستبردار ہو جائیں، ورنہ پیچھے رہ کر ڈوریاں ہلاتے رہیں گے۔ یہ گمان درست ہو سکتا ہے اور غلط بھی؛ البتہ یہ طے شدہ ہے کہ عوامی مقبولیت سے محروم ہونے کے باوجود جہانگیر ترین ہی پارٹی کے دوسرے اہم ترین لیڈر ہیں۔
کسی بھی گروہ، کسی بھی آدمی اور ان کے عزائم کو تقاریر اور بیانات سے نہیں بلکہ عمل سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ واقعات کی شہادت یہ ہے کہ جوڑ توڑ میں اس جاگیردار اور صنعت کار کا کوئی ثانی نہیں۔
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا