تاریخی قوتیں بے لگام ہیں۔ کوئی قوم جاگ اٹھے تو پیرِ تسمہ پا بہت دن اس پہ سوار نہیں رہ سکتے۔ وقت کا دھارا شریف خاندان کے حق میں نہیں... اور وہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔
تازہ ترین فیصلہ نظامِ انصاف کے الم ناک افلاس کا مظہر ہے۔ عام لوگوں کے لیے ضرور تعجب خیز ہو گا۔ وکلا اور اخبار نویسوں کو زیادہ حیرت نہیں ۔ نیب نے کچھ زیادہ تیاری نہیں کی تھی۔
کیا ان لوگوں کا تقرر قمر زمان چوہدری نے کیا تھا؟ ایک سبکدوش فوجی افسر بریگیڈیئر ترمذی نے بعض انکشافات کئے تھے‘ میڈیا میں جن کا چرچا نہ ہو سکا۔ قمر زمان صدر ضیاء الحق کے دفتر سے وابستہ تھے تو کاروبار بھی کیا کرتے۔ عرب ممالک کے لیے افرادی قوّت فراہم کرنے کا سلسلہ زوروں پہ تھا۔ اس دیار کے لوگ خوب پھل پھول رہے تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمن کے اس قریبی ساتھی کے بقول‘ افرادی قوّت کے وفاقی وزیر چودھری ظہور الٰہی سے بیگم شفیق ضیاء الحق نے ان کی سفارش کی: ہر ماہ پانچ سو افراد بیرون ملک بھیجنے کی اسے اجازت دی جائے۔ قدرے احتیاط سے کام لیا گیا اور دو سو کی اجازت دے دی گئی۔ ایوان صدر میں براجمان قمر زمان سارا دن اس کام میں جتے رہتے۔ پاسپورٹ لے کر ملازمتوں کے خواہش مند ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان کی میز پہ دستاویزات کے انبار پڑے رہتے۔ عام لوگوں کی آمد و رفت کا آئی ایس آئی نے نوٹس لیا۔ جنرل کو اس بارے میں بتایا گیا مگر سلسلہ جاری رہا۔ بریگیڈیئر صاحب کے بقول آئی ایس آئی کے سخت گیر سربراہ کو انہوں نے یاد دہانی کرائی۔ یہ کہ انہیں صدر کے ساتھ قطعیت کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ایک حفاظتی خطرہ (Security risk) ہے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ تھم سکا۔ ان صاحب پر کہیں زیادہ سنگین الزامات بھی ہیں۔ ان کا ذکر پھر کبھی۔
ان کا تقررکیسے ہوا؟ بتایا جاتا ہے کہ ایک مشہور پراپرٹی ڈیلر وزیر اعظم کی خدمت میں پیش ہوا۔ ان سے کہا کہ قمر زمان چوہدری کو نیب کا چیئرمین بنا دیں۔ پھر موصوف کو ساتھ لے کر وہ کراچی گیا اور جنابِ آصف علی زرداری مدظلہ العالی سے بات کی۔ سفینہ کنارے پہ جا لگا۔ قوموں کی کشتیاں اسی طرح ڈوبتی ہیں۔ لیڈر بگڑیں تو پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔
بنیادی سوال ایک ہے۔ برطانیہ میں شریف خاندان کی جائیداد کیا جائز کمائی سے خریدی گئی۔ عدالت پوچھتی رہی کہ شریف خاندان کے اثاثے زیادہ ہیں تو کیا نیب نے آمدن کا تعین کیا ہے۔ کافی وقت ملنے کے باوجود نیب کے وکلاء اس سوال کا جواب کیوں نہ دے سکے؟
سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی نے بھرپور رپورٹ پیش کی تھی۔ ان نکات کو قانونی دلائل میں ڈھالنا نیب کے ماہرین کا کام تھا۔ اپنا فرض وہ نبھا نہ سکے۔
رسول اکرمﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے: ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی غلط شواہد پیش کر کے ایک فیصلہ مجھ سے حاصل کر لے۔ اس کا ذمہ دار وہ شخص ہو گا۔ ختم المرسلینؐ کو تو کوئی کیا دھوکا دے سکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ بنیادی اصول امّت کی رہنمائی کے لیے تھا۔ بار بار جسے بتایا گیا کہ سماج کے پھلنے پھولنے کا انحصار عدل پہ ہوتا ہے۔ سرکارؐ کے مبارک عہد اور خلفائے راشدین کے اندازِ حکمرانی میں‘ جن امور پہ زیادہ توجہ تھی‘ نمایاں ترین ان میں انصاف کا قیام تھا۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ''ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب‘‘ اے وہ لوگو جو غور کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو‘ قصاص میں تمہارے لیے زندگی رکھی گئی۔ سادہ ترین الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے قصور وار کو سزا ملنی چاہیے۔ اتنی ہی سزا جتنا کہ اس کا قصور ہو۔ اگر کوئی معاشرہ پورے عزم کے ساتھ اس کو شعار کر لے تو لازماً وہ فروغ پذیر ہو گا۔ اس بنیادی اصول سے انحراف ہو گا تو بتدریج اس کی موت ۔ اس کی صلاحیت مرجھاتی جائے گی۔ اس کے ظالم طاقت ور ہوتے جائیں گے ۔ اس کے عامی خستہ و خوار۔ وہ مایوسی اور ابتری کا شکار ہوں گے۔ معاشرے کی اجتماعی قوّت بروئے کار نہ آ سکے گی۔ وہ پسماندہ‘ پست اور ابتر ہوتا جائے گا۔
سرکارؐ کا وہ مشہور فرمان : خدا کی قسم میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔ پچھلی امّتیں اس لیے برباد ہوئیں کہ وہ اپنے کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقت وروں کو معاف کر دیا کرتیں۔ چوری تو بہت دور کی بات ہے‘ رسول اکرم ﷺ کی صاحبزادیؓ‘ ظاہر ہے کہ اس طرح کی ایک ادنیٰ ترین خطا کا ارتکاب بھی نہ کرتیں۔ ایک اہم ترین اصول کو اجاگر کرنے کے لیے‘ سرکارؐ نے ان کا نام لیا۔
فیصلے کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ نون لیگ کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑا ہے۔ پژمردگی اور ماندگی سے نجات پا کر‘ کم از کم وقتی طور پہ وہ جاگ اٹھے گی۔ یہ کوئی راز نہیں‘ تیس پینتیس برس سے شریف خاندان ڈٹ کر مالی بے قاعدگیاں کرتا آیا ہے۔ اس پر وہ شرمندہ بھی نہیں اور اس روش سے باز آنے کا ہرگز کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اب ان کی معصومیت کا گیت گایا جائے گا۔ نواز شریف کے فدائین اپنی جگہ‘ مغرب نواز لبرل پورے جوش و خروش کے ساتھ چیختے رہیں گے۔ اچھلتے رہیں گے۔ نون لیگ کی پروپیگنڈا مشینری بہت موثر ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں شاید ہی کبھی کسی سیاسی جماعت نے اس میدان میں ایسی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہو گا۔
آصف علی زرداری اور شہباز شریف پہلے ہی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ ان جیسے بہت سے دوسرے لوگ بھی۔ رائے عامہ پر اس صورت حال کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ مایوسی پھیلتی جائے گی۔ عام آدمی کو قانون اور شواہد کی باریکیوں سے غرض نہیں ہوتی۔ ان چیزوں پر وہ دماغ سوزی نہیں کرتا۔ وہ یہ محسوس کرے گا کہ لوٹ مار کرنے والا اگر طاقت ور ہو تو کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ ظاہر ہے کہ ہمارا نظامِ انصاف اس کا ذمہ دار ہے۔ سادہ الفاظ میں نیب کا ادارہ۔ بے شک یہ حتمی فیصلہ نہیں۔ اس صحرا کے پار اور بھی صحرا ہیں۔ قصوروار انشاء اللہ سلامت نہ گزریں گے۔ حدیبیہ پیپر ملز سمیت اور بہت سے مقدمات باقی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ معاشرے میں انصاف کی تڑپ موجود ہے۔ قوم کی تربیت ابھی نہیں ہوئی۔ بے ترتیبی اور بد نظمی ہے۔ ہیجان کارفرما ہے۔ دھڑے بندی ہے اور تعصبات سے بالا ہو کر سوچنے کی استعداد کم ہے لیکن تڑپ موجود ہے۔ کرایے کے دانشور دلائل کے انبار لگائیں گے۔ شور و غوغا بڑھتا جائے گا لیکن انشاء اللہ آخر کار انصاف کا علم لہرائے گا۔ اللہ نے اپنی دنیا شیطان کے حوالے نہیں کر دی۔ قوم اب ایسی بھی خوابیدہ نہیں کہ لوٹ مار کرنے والے من مانی کرتے چلے جائیں۔
جنگ سیاسی میدان میں بھی لڑی جائے گی۔ پی ٹی آئی کو زیادہ ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ بار بار عمران خان کو احساس دلانے کی کوشش کی گئی کہ پارٹی میں تنظیم کی اہمیت کتنی ہے۔ شاید اب انہیں اس کا ادراک ہو۔
کیا نواز شریف ہنگامہ آرائی پہ اتریں گے۔ بیشتر کی رائے میں‘ اس سے وہ گریز کریں گے۔ شاید اسی لیے کوئی جلوس برپا کرنے کی بجائے‘ جہاز کے ذریعے وہ راولپنڈی سے لاہور پہنچے۔ طوفان اٹھانے کی کوشش کی تو شاید ان کا سامنا ایسے ہی طوفان سے ہو گا۔ ان کے حریف بھی کمزور نہیں۔ پرویز رشیدوں اور احسن اقبالوں کی بات مانی تو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ زرداری اور شریف خاندان کا طرزِ سیاست اکثریت کے لیے اب قابل قبول نہیں۔ بالآخر اسے دفن ہونا ہے۔ تھوڑی سی مہلت اسے مل سکتی ہے‘ حیاتِ نو نہیں۔
رہائی کے بعد اپنی بے گناہی کے اعلان میں اللہ کو انہوں نے گواہ بنایا۔ 1990ء میں ایسی ہی حماقت کا ارتکاب پیپلز پارٹی نے کیا تھا۔ جب یہ نعرہ لگایا ''یا اللہ یا رسول‘ بے نظیر بے قصور‘‘ لیجئے‘ کوئی دن جاتا ہے کہ قادر و عادل کی گواہی سامنے آئے گی‘ جس طرح بے نظیر کے باب میں آئی تھی۔
تاریخی قوتیں بے لگام ہیں۔ کوئی قوم جاگ اٹھے تو پیرِ تسمہ پا بہت دن اس پہ سوار نہیں رہ سکتے۔ وقت کا دھارا شریف خاندان کے حق میں نہیں... اور وہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔