یہ اس نادر روزگار کا مرثیہ نہیں ہے ۔ مرثیہ پھر کبھی لکھا جائے گا۔ ایسا آدمی اٹھ گیا ہے کہ شہر خالی دکھائی دیتا ہے۔ دل بھی خالی خالی ہے۔
دل تو مرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
مولانا عبدالقادر گرامی دنیا سے اٹھے تو اقبالؔ نے ان کا مرثیہ نہ لکھا ۔ ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا : گرامیؔ کو دیکھ لو ، آنے والی نسلوں کے سامنے اس پہ فخر کر سکو گے۔ ہفتوں اور مہینوں اقبالؔ کے ہاں قیام کرتے۔ جانا چاہتے تو حیلے بہانے سے کبھی اقبالؔ انہیں روک لیتے۔ ایک مصرع لکھتے اور کہتے : مولانا گرہ نہیں لگ رہی ۔ کبھی مولانا بہانہ تراش لیتے۔ ایک دن مصرع پہ گرہ لگاتے دروازے پہ کھڑے رہے۔ جالندھر سے بھیجا گیا ملازم یاد دہانی کراتا رہا۔ مجبوراً تانگے کی طرف بڑھے۔ اس پہ ہاتھ رکھا اور لوٹ آئے۔ روہانسا ہو کر نوکر نے کہا : بیگم صاحبہ سے کیا کہوں گا؟ بولے : کہنا کہ تانگہ گرم ہو گیا تھا۔
لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اقبالؔ خاموش کیوں ہیں۔ حتیٰ کہ اس پہ نظمیں لکھی گئیں۔ چھ ماہ بیت چکے تھے جب مرثیہ منظر عام پہ آیا
یادِ ایامے کہ با او گفتگوہا داشتم
چہ خوشا حرفیِ کہ گوید آشنا با آشنا
آرکیٹیکٹ امجد مختار کی موت کا یقین ہی نہیں آتا۔ بھلے چنگے تھے اور مدتوں کے بعد تھوڑے شاد کام بھی۔ تین چار برس ہوتے ہیں شہباز شریف نے بابِ پاکستان پہ کام رکوا دیا تھا۔ یہ مرحوم کا خواب تھا۔ کس دلجمعی اور ریاضت سے خاکہ انہوں نے بنایا تھا۔ سیمنٹ اور سریے سے شغف رکھنے والے شریف خاندان کے سپوت کو معلوم نہ تھا کہ جب کوئی فنکار ایک سپنا پالتا ہے تو اولاد کی طرح عزیز رکھتا ہے۔ امجد مختار کے لیے یہ دل کا زخم تھا ۔ شہباز شریف کے خیر خواہوں نے سمجھانے کی کوشش کی مگر مان کر نہ دیئے۔ سننے کے روادار بھی نہ تھے۔ ہمیشہ کے ضدّی ہیں۔ اب یہ عالم تھا کہ التجا میں کوئی اصرار کرتا تو بگڑ جاتے۔ پچھلے برس دیسی دوائیں بنانے والوں پہ چڑھ دوڑے ۔ بمشکل ایک وفد کو شرفِ باریابی بخشا۔ ارشاد کیا : کینسر کا مریض ہوں۔ اللہ سے دعا کرو کہ مجھے اس دنیا سے اٹھا لے۔
خیر سے زندہ سلامت ہیں لیکن سنائونی آ گئی۔ اقتدار چھن گیا اور غالباً اس لیے کہ امجد مختار ایسے مظلوموں کی فریاد عرش تک پہنچی۔ ''بابِ پاکستان‘‘ اس جگہ تعمیر کیا جانا تھا، 1947ء میں جہاں مشرقی پنجاب سے آنے والے مہاجرین نے پڑائو ڈالا تھا۔ اسی کیمپ میں اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے گئے، جس کے آہنی عزم کی ہمیشہ مثال دی جاتی رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ پنجاب کا قتلِ عام قائد اعظم کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا ۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اندیشے کے ساتھ آپ والٹن کیمپ میں گئے کہ لٹے پٹے لوگ ، اپنے لیڈر کے خلاف نعرہ زن ہو سکتے ہیں۔ بالکل برعکس جیسے ہی وہ ہجوم کے سامنے آئے، زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی اور دیر تک گونجتی رہی۔ قوم نے سب کچھ کھو دیا تھا مگر سپنا سلامت تھا۔
فارسی کا محاورہ یہ ہے ''ہیچ خیر از مردم زر کش مجو‘‘ دولت کے پجاری سے خیر کی امید کم رکھا کرو۔ امجد مختار نے اس ماحول، فضا اور خواب کو مجسّم کرنے کا خواب دیکھا اور کر دکھایا، لیکن شہباز شریف کو یہ گوارا نہ تھا۔ کسی طرح یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کروڑوں روپے ایک ایسی عمارت اور چمن پہ کیوں لٹائے جا سکتے ہیں ، جس سے کوئی آمدن نہ ہو۔ جس پر کوئی داد نہ ملے۔ ایک دن وہ اور بھی چڑ گئے جب آرکیٹیکٹ چادر اوڑھے انہیں بریفنگ دینے گیا ۔ اس کے بعد اس کا نام سن کر ہمیشہ وہ بگڑ جاتے ۔ اسے ''چادر والا‘‘ کہہ کر یاد کرتے۔ ایک بار اپنے مدّاح ایک مدیر سے کہا : میرے سامنے اس کا نام نہ لیجیے۔ برصغیر کا مرض احساسِ کمتری ہے۔ یہ صدیوں کی غلامی کا ثمر ہے۔ تمیزِ بندہ و آقا یہاں شعار ہے۔ جب تک کوئی رعایا میں شامل ہے ، بے بسی ، لاچارگی اور التجا ہے ۔ جیسے ہی منصب نصیب ہو ، عامی دیوتا ہو جاتے ہیں۔ خدائی کے تیور خاک کے پتلوں میں جاگ اٹھتے ہیں ۔ تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے لگتے ہیں۔ آنکھ اس وقت کھلتی ہے ، جب رسوائی آ لیتی ہے۔ حیرت سے میں نے سوچا ، نیب کی بالشت بھر حوالات میں پڑے شہباز شریف کو امجد مختار کی کبھی یاد آئی ہو گی۔ ان بے شمار مظلوموں کی کبھی یاد آئی ہو گی ، بیتے برسوں میں جو ان کے قدموں تلے کچلے گئے۔
شہباز شریف اقتدار سے رخصت ہوئے تو تاریخی یادگار کی تعمیر کا امکان پیدا ہوا۔ مبینہ طور پر شریف خاندان کے خفیہ شراکت دار، سعد رفیق سے مل کر جسے وہ ایک کاروباری منصوبہ بنانے پہ تلے تھے۔ بہت مسرّت سے ایک دن مرحوم نے خبر دی کہ بابِ پاکستان کے لیے ایک نیا بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دینے کا فیصلہ ہے۔ ناچیز کا نام بھی شامل ہے۔ تحریک انصاف کا ایسا ایک لیڈر بھی جسے تحریک انصاف کا خواجہ سعد رفیق کہنا چاہئے۔ ناگوار تو بہت ہوا لیکن صبر کا ارادہ کیا۔ کہا کہ سمری وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بھیجی جا چکی۔ توثیق کا انتظار ہے۔ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ شاید بعض نام قبول نہ کیے جائیں۔ یا للعجب کچھ دن میں پتہ چلا کہ خود امجد مختار ہی کا نام حذف کر دیا گیا ۔ یہ پرنس آف ڈنمارک کے بغیر ''ہیملٹ‘‘ سٹیج کرنے کے مترادف تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے کوئی قائد اعظم کے بغیر تحریک پاکستان کی تاریخ لکھنے کی کوشش کرے۔ عرض کیا کہ خاکسار تو پہلے ہی اس کارخانے میں شامل ہونے پہ تیار نہ تھا ۔ اب تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بعض اعتبار سے ساری حکومتیں ایک سی ہوتی ہیں۔ عدم تحفظ کے مارے معاشرے میں اختیار جتلانے کا شوق بہت زیادہ ہوتا ہے۔ نا معلوم کا خوف ، تحلیل ہو جانے کا خوف۔
تیسرے دن جناب عدنان عادل نے امجد مختار کے انتقال کی خبر دی۔ پہلا تاثر یہ تھا : یا رب یہ کیا ہوا۔ عمر بھر ایک آدمی ایک خواب دیکھتا رہا۔ پورا ہونے کا وقت آیا تو زندگی تمام ہو گئی۔ ان استثنائی لوگوں میں سے ایک جو اپنے ذہن سے سوچتے اور جو اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھتے ہیں۔ جو اپنے عہد میں اٹھنے والے بیشتر اہم سوالوں پہ غور کرتے ہیں۔ کمال خواہ ایک ہی فن میں پیدا کریں لیکن دوسرے تمام فنون پر بھی نگاہ رکھتے ہیں۔ امجد مختار ان میں سے ایک تھے ، جنہیں گنگا جمنی تہذیب کے فرزند کہا جاتا ہے ۔ دینیات، ادب، تصوف اور تاریخ سے آشنا ۔ اسلام کی علمی روایت سے آشنا۔ پہلی بار تشریف لائے تو شب آٹھ بجے سے طلوع سحر تک مکالمہ برپا رہا۔ طالب علمی کا زمانہ اسلامی جمعیت کے ساتھ بتایا تھا۔ اس کی روداد کہی ، جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کیے۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی طرح ، تصوّف کے باب میں ان کے کچھ تحفظات تھے۔ مگر ایک تخلیقی آدمی کے تحفظات۔ سوچنے سمجھنے والے ایک دانشور کے سوالات۔ فنِّ تعمیر ان کے لیے محض فنِّ تعمیر نہ تھا بلکہ اسلامی ثقافت کا ایک امتیاز ، ایک جگمگاتا پہلو، جس میں ترقی اور فروغ کے بے شمار امکانات پوشیدہ تھے۔ ملال کے ساتھ کہا کہ اس دیار میں داخل ہوتے ہی ، ہمارے مذہبی لوگ اندھے ہو جاتے ہیں۔
ایسے آدمی کو زندہ رہنا چاہئے تھا۔ یہ تو مگر خالق ہی جانتا ہے کہ کسے جیتا رکھنا اور کسے واپس بلا لینا ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السّلام اور خضر کا قصّہ یاد آیا۔ کچھ راز ایسے ہیں جو پیغمبران عظام پہ بھی تاخیر سے کھلتے ہیں۔ ہما شما کی حیثیت کیا، مجال کیا۔
یہ اس نادر روزگار کا مرثیہ نہیں ہے ۔ مرثیہ پھر کبھی لکھا جائے گا۔ ایسا آدمی اٹھ گیا ہے کہ شہر خالی دکھائی دیتا ہے۔ دل بھی خالی خالی ہے۔
دل تو مرا اداس ہے ناصرؔ
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے