بات وہی پرانی ہے ۔ بار بار دہرانے کے سوا مگر چارہ بھی نہیں ۔ لولے لنگڑے لشکروں کے بل پہ معرکے سر نہیں کیے جاتے ۔ مردانِ کار درکار ہیں ، مردانِ کار ۔
مختصر سے ایک تجزیے کی نقل وزیرِ اعظم عمران خان کے ایک ذاتی دوست نے بھیجی ہے۔ بظاہر کاروبارِ حکومت سے آشنا یہ کسی جہاندیدہ شخصیت کی تحریر ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایک سو دن تک انہوں نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ مسلسل غلطیوں نے لیکن لب کشائی پہ مجبور کر دیا۔ وزیرِ اعظم کو انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ وزیرِ خزانہ اسد عمر کو فوری طور پر سبکدوش کر دیں ۔ نازک ذمہ داری کسی ایسے شخص کو سونپیں جو مالیاتی امور کے اسرار و رموز سے آشنا ہو۔
کرنسی کے بحران اور پنجاب میں آئی جی کی تبدیلی نے یہ تاثر اور بھی اجاگر کر دیا کہ حکومت کے سامنے کوئی جامع منصوبہ نہیں، کوئی لائحۂ عمل ہی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ خرابی اندازِ فکر میں ہوتی ہے ۔ بہت دیر تک اس بات پہ غور کیا کہ وزیرِ اعظم کے طرزِ احساس میں مغالطہ کہاں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ دعویٰ کرنے کی روش میں ۔ بار بار ان کا یہ جملہ ذہن میں گونجتا رہا ''میں ٹیکس جمع کر کے دکھائوں گا‘‘ غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک آدمی کے عزمِ صمیم سے دنیا بدل سکتی ہے۔ وہی نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو کی خود پسندی ۔ نواز شریف کہا کرتے کہ وہ قوم کی تقدیر بدل ڈالیں گے۔ بھٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ تاریخ کے دوام میں زندہ رہیں گے ۔ نواز شریف کے حصے میں ایک بد عنوان حاکم کی شہرت آئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت ان کی صاحبزادی اور داماد نے برباد کر دی۔
عمران خان اور نواز شریف کے مقابلے میں بھٹو کہیں زیادہ ذہین تھے۔ بہت پڑھے لکھے، عصری دنیا کو سمجھنے والے۔ اظہار پہ قدرت رکھنے والے ۔ کارِ سرکار کا طویل تجربہ تھا، جب وہ وزیرِ اعظم بنے۔ غالباً مائوزے تنگ اور کم اِل سنگ ایسے ہم عصروں سے متاثر ہو کر ایک بات انہوں نے بھلا دی ۔ قدرت کے دائمی اور ابدی قوانین سے انحراف کر کے کوئی کاوش کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ سوشلزم کا تجربہ ناکام تھا اور سرکاری اہتمام سے کاروبار کا بھی۔ بھٹو نے صنعتوں کو قومیا کر پہاڑ ایسی غلطی کا ارتکاب کیا ۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مخلص ساتھیوں سے دور ہوتے گئے ، خوشامدیوں میں گھرتے گئے ۔ 1977ء تک مکمل طور پر وہ روایتی جاگیرداروں اور افسروں کے نرغے میں تھے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کامیاب حکمرانی کا راز بہترین مشیروں اور ساتھیوں کے انتخاب میں ہے ۔ شہنشاہ ہمایوں کی ناگہانی موت نے مغل سلطنت کو دہلا کے رکھ دیا تھا۔ جانشینوں کے حواس مگر قائم رہے۔ زمامِ کار عبد الرحیم خانِ خاناںکے سپرد کر دی گئی۔ شہزادے کی اس نے تربیت کی اور نظم و نسق چلاتا رہا؛ تا آنکہ باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہو گیا ۔ تربیت بھی کیسی کہ اکبر کا شمار نظم و نسق کے عظیم ترین اکابر میں ہوتا ہے ۔ برصغیر کے بہترین دماغ اس کے دربار میں جمع تھے ۔ آگرہ سے ہاتھی پر سوار، 16 دن کی مسافت طے کر کے وہ چونیاں پہنچا کہ ٹوڈرمل کو ساتھ لے جائے ۔ شیر شاہ سوری کا یہ رفیق خوف کا شکار تھا کہ عتاب سے مارا نہ جائے۔ اکبر نے یقین دلایا کہ نہ صرف امان دی جائے گی بلکہ بہترین منصب بخشا جائے گا۔ پورا اعتماد اس پہ کیا جائے گا۔ اپنا وعدہ بادشاہ نے پورا کیا۔ ایسی آزادی بخشی کہ بندوبستِ اراضی کے میدان میں ایک انقلاب اس نے برپا کر دیا۔
اب سر اٹھا کر ہم اسلام آباد کی طرف دیکھتے ہیں ۔ یہ نعیم الحق ہیں ۔ کسی بھی اہم تقریب کے شرکا کی فہرست جب بنائی جاتی ہے تو بعض کے نام وہ قلم زد کر دیتے ہیں ۔ اس لیے کہ آنجناب کے وہ مدّاح نہیں ۔ باتیں بنانے والے آدمی کو کوئی پروا اس کی نہیں کہ نقصان کسے پہنچے گا ۔ ابھی کل تک اس آدمی کے بارے میں تحقیق کی جا رہی تھی کہ کیا اس نے امیدواروں سے کچھ روپیہ اینٹھا ہے ؟ یہی شکایت عامر کیانی کے بارے میں تھی ، جسے وزارت سونپ دی گئی۔ سیاسی اور انتظامی امور نمٹانے کے لیے عثمان بزدار کو منجھے ہوئے لوگوںکی ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ خود تو وہ کورا کاغذ ہیں ۔ عون محمد ان کے سیاسی مشیر مقرر ہیں ۔ سونے پہ سہاگہ۔
ٹوڈرمل روز روز پیدا نہیں ہوتے لیکن ایسے لوگ قحط الرجال کے اس دور میں بھی موجود ہیں ، جن کی صلاحیت اور خلوص پہ اعتماد کیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے ایک آدمی پچھلے دنوں خان صاحب سے ملنے گیا۔ وزیرِ اعظم کو اس نے پریشان اور الجھا ہو ا دیکھا ۔ ایک ایسا آدمی ، جسے بیابان میں راستہ سجھائی نہ دیتا ہو۔ شاید وہ انہیں کچھ مشورے دیتا‘ لیکن وہاں ایک اور صاحب براجمان تھے، جو ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے۔ بیرونِ ملک سے وہ تشریف لائے تھے ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ بے شمار مہارتوں اور خوبیوں کے امین ہیں ۔ وزیرِ اعظم اپنے مہمان کے ساتھ بات چیت کا باقاعدہ آغاز کرتے لیکن پھر یہ آدمی مصر ہو گیا کہ وہ ان کے دوست کو چند لمحے عنایت کریں، جو باہر کھلے میدان میں ٹھنڈی ہوا کا لطف اٹھا رہا ہے۔ پندرہ بیس منٹ اس میں ضائع ہو گئے ۔ اتنے میں وزرائے کرام کا ایک وفد آ پہنچا ۔ کپتان کی پریشانی کچھ اور بڑھ گئی ۔ مہمانِ عزیز سے انہوں نے کہا : آپ سے ایک گھنٹے کی مفصل گفتگو مطلوب ہے لیکن اب کیا کروں ۔ ہفتے کے آخری ایام پر اٹھا رکھتے ہیں ۔ اختتامِ ہفتہ پر وزیرِ اعظم کراچی چلے گئے۔ پھر انہیں کوئٹہ جانا پڑا اور اب کی بار لاہور۔ ان صاحب نے مجھ سے کہا: یہ وہ عمران خاں نہیں تھا، جسے بارہ پندرہ برس سے میں جانتا ہوں ۔ اس کا ذہن منتشر تھا ۔ ایسا لگتا تھا ، جیسے کئی دن سے گہری نیند وہ نہیں سویا اور اس کے چہرے پہ بڑھاپے کے آثار تھے ۔ نعیم الحقوں ، عامر کیانیوں اور فواد چوہدریوں میں گھرا ہوا حکمران ژولیدہ فکری کا شکار نہ ہو تو کیا ہو ۔ فواد چوہدری ، سینیٹر مشاہد اللہ خاں سے حساب چکانے میں لگے ہیں ۔ کسی نہ کسی سے الجھتے رہنا موصوف کا مشغلہ ہے۔ کبھی یہ کام وہ جنرل پرویز مشرف کے لیے کیا کرتے ، کبھی آصف علی زرداری کے دفاع میں ، اس زمانے میں دوسروں کے علاوہ عمران خان بھی ان کا ہدف ہوا کرتے ۔ کپتان پر ایمان لے آئے تو اب ان کی خواہش یہ ہے کہ سارا ملک ان کی بیعت کر لے۔ ایک فصیح، ضدی اور بے لچک آدمی ۔ وہ نہیں جانتا کہ کاروبارِ حکومت چلانے والے اپنا وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوتے ۔ ثانیاً یہ کہ اوروں کو جو زخم لگاتا ہے ، ویسی ہی یلغار کا اسے بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نئی حکومت کو ادراک ہوا مگر تاخیر سے کہ جانے والے اپنے پیچھے کتنا بڑا ملبہ چھوڑ گئے ہیں ۔ حکومتِ پنجاب ہزاروں فنکاروں کو مالی امداد مہیا کرتی ہے ۔ وہ بیمار ، معذور یا لاچار لوگ ، زندگی جن پہ نامہربان ہے ۔ ایک خفیہ ادارے نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک تہائی کا وجود ہی نہیں ۔ اندراج صرف کاغذوں میں ہے ۔ خدا کی اس زمین پہ کبھی وہ جیے ہی نہیں ۔ پرسوں پرلے روز میاں محمد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی غدّاری کے الزام میں عدالت لائے گئے ۔ پنجاب کے ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل نے ان کے خلاف دلائل دینے سے گریز کیا ۔ عدالت مخمصے میں تھی کہ ایسا کیوں ہے ؟ کسی کو شبہ ہوا تو اس آدمی پہ نگاہ رکھی گئی ۔ عدالت سے نکلے تو وہ جاتی امرا تشریف لے گئے ۔ پنجاب کی سول سروس اور پولیس میں ، بلدیاتی اداروں میں شریف خاندان کا رسوخ بہت گہرا ہے۔
بات وہی پرانی ہے ۔ بار بار دہرانے کے سوا مگر چارہ بھی نہیں ۔ لولے لنگڑے لشکروں کے بل پہ معرکے سر نہیں کیے جاتے ۔ مردانِ کار درکار ہیں ، مردانِ کار ۔