رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں ۔ ارے بھائی، رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں ۔ جنگل میں راہ تلاش کرنا کبھی مشکل بھی ہوتا ہے ، ناممکن کبھی نہیں۔ مالک مہربان ہے اور آسمان ستاروں سے بھرا رہتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے : انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالا جاتا۔
''بالآخر میں نے وہ آدمی تلاش کر لیا ہے‘ جو آپ کا مسئلہ حل کر سکتا ہے‘‘۔ یہ اس پیغام کا خلاصہ ہے‘ جو ابھی ابھی وزیر اعظم عمران خان کو بھیجا ہے۔
آئے دن کوئی اصرار کرتا ہے کہ کپتان سے مجھے رابطہ رکھنا چاہئے۔ گنتی کے یہ چند لوگ ہیں۔ وہ جنہوں نے عبادت کی سی زندگی بسر کی ہے۔ درد مند لوگ‘ کسی بھی معاشرے میں جو کمیاب ہیں۔ ہمارے ہاں اور بھی کم یاب۔ اخبار نویس کی مشکل یہ ہے کہ دربار سے وہ دور رہنا چاہتا ہے۔
کالم نگار کا وظیفہ عجیب ہے۔ کبھی ان موضوعات پر اسے بات کرنا ہوتی ہے‘ جن کے اور چھور سے وہ واقف نہیں ہوتا۔ ایسے میں وہ کیا کرتا ہے؟ اہلِ کمال اور اہلِ ہنر کو تلاش کرتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کوئی چیز خریدنا ہو تو تین سے نرخ پوچھ لیا کرو۔ قول مبارک پہ غور کرتے ہوئے خیال آیا کسی بھی موضوع پر تین ماہرین سے مشاورت نتیجہ خیز ہونی چاہئے۔
ایسے دن ہوتے ہیں موضوعات جب سنہری یادوں کی طرح یلغار کرتے ہوئے آتے ہیں۔ ایسے دن ہوتے ہیں جب خیال نہیں سوجھتا۔ ایسے بھی دن ہوتے ہیں جب خیال سے رعنائی رخصت ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کیا کرنا چاہئے؟ اہل علم کے‘ درد مندوں کے دروازے پہ دستک۔ اس سے پہلے دعا کرنی چاہئے ''یا ذوالجلال والاکرام‘‘ اے بے پناہ عظمت اور بے کراں بزرگی والے پروردگار۔ اللہ کے آخری رسولﷺ کا ارشاد ہے ''مانگو جو اس نام سے مانگتے ہو‘‘ کتاب میں لکّھا ہے ''مضطرب کو وہ جواب دیتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے‘‘۔
آخر کار ایک آدمی مل گیا۔ پاک فوج کا ایک جہاندیدہ، سبکدوش انجینئر۔ پوچھا: جنرل صاحب! کیا پچاس لاکھ گھروں کے منصوبے پر آپ نے غور کیا ہے؟ ممتاز ماہرین کے نام لئے اور کہا : ان کے ساتھ سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یا للعجب ان میں سے ایک قریبی دوست تھا۔ دوسرے دانا سے بھی نیاز حاصل تھا۔
چند روز قبل وزیر اعظم نے ایک عدد اجلاس طلب کیا تھا۔ سول کے علاوہ‘ فوجی ماہرین بھی طلب کئے گئے۔ سول افسر نے‘ جو محکمے کا سربراہ ہے، یہ کہا: میں اس بارے میں کچھ زیادہ عرض نہیں کر سکتا۔ با وردی افسروں نے فوجی منصوبوں کی تفصیلات بیان کیں۔ ان کی رائے یہ تھی کہ پچاس لاکھ تو مشکل ہے مگر لاکھ ڈیڑھ لاکھ مکان بنائے جا سکتے ہیں۔ اس پہ وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ ''لاکھ‘ ڈیڑھ لاکھ...؟‘‘ پریشان آدمی نے کہا۔ تیس سال پہلے کا وہ منظر یاد آیا ہے جب 29 میں سے 28 ڈاکٹروں نے کہا تھا: کینسر کے مریضوں کا مفت علاج کرنے والا ہسپتال نہیں بن سکتا۔ انتیسویں کا کہنا یہ تھا: بن تو سکتا ہے، چل نہیں سکتا۔
پچاس لاکھ مکانوں کا تصور پیش کرنے والے اسحق خاکوانی سے ہر روز میں رابطہ کرتا ہوں۔ روزانہ کی اس مغز ماری‘ سے وہ بدمزہ نہیں ہوتے۔ ان کا خیال اب بھی یہی ہے کہ مکان تعمیر کرنے کی بجائے‘ پلاٹ دیئے جائیں۔ ایک گروپ تشکیل دیا جائے۔ ماہرین کا ایک پینل، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور بیت المال کے مدد سے‘جو درخواست دہندگان کے کوائف کا جائزہ لے۔ جو مستحق ہوں‘ مفت پلاٹ فراہم کر دیئے جائیں یا برائے نام قیمت پر۔ شہری علاقوں میں کچھ فلیٹ تعمیر کئے جا سکتے ہیں۔
فوجی انجینئر سے برسوں کی یاد اللہ ہے۔ خوش مزاج اور خوش خیال آدمی ہیں۔ ان سے پوچھا کہ کیا یہ خواب محض خواب ہی رہے گا۔ کیا افواج پاکستان وزیر اعظم کی مدد نہیں کر سکتیں ''کیوں نہیں کر سکتیں‘‘ انہوں نے کہا: لیکن کوئی نیا اور مختلف حل تلاش کرنا ہو گا۔ ترکی اور چین جیسے ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا ہو گا۔ بنی بنائی دیواریں اور بنی بنائی چھتیں۔ اس سے پہلے کہ استفسار کیا جاتا، انہوں نے کہا: ایک نہیں، آٹھ منزلہ عمارتیں بنائی جا سکتی ہیں۔ اینٹوں سے نہیں‘ سیمنٹ اور ریت کے بلاکوں سے۔ پاکستان ان خطّوں میں سے ایک ہے‘ قدرت نے جسے سیمنٹ بنانے والا پتھر فراوانی سے بخشا ہے۔ افریقی ممالک تک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں سینکڑوں عظیم الجثہ بحری جہاز‘ پاکستانی سیمنٹ کے تھیلوں سے لدے‘ سمندروں کے سینے پہ تیر رہے ہوتے ہیں۔ سیمنٹ اور ریت کے آمیزے سے بننے والے یہ بلاک اینٹوں سے سستے پڑیں گے۔ تعمیری کام زیادہ برق رفتاری سے ممکن ہو گا۔ موسم کی شدّت کم اثر انداز ہو گی، سونے پہ سہاگہ۔
معلوم نہیں‘ مصروفیات میں گھرا وزیر اعظم میرے پیغام کا جواب دے یا نہ دے‘ جو آج کل شاید کچھ ناراض بھی ہے۔ ازراہِ احتیاط ‘ وزیر خزانہ اسد عمر کو فون کیا۔ معجزہ یہ ہوا کہ پہلی ہی گھنٹی پر فون اٹھا لیا۔ اسد عمر سے بات کرنا ہمیشہ خوشگوار ہوتا ہے۔ کہا: آج کے پاکستان میں سب سے زیادہ اذیت ناک کام خزانے کی وزارت چلانا ہے۔ عرض کیا: ایک کام اس سے بھی ذلّت آمیز ہے، حکمرانوں سے رہ و رسم رکھنا ۔ اس پر خوش دلی سے وہ ہنسے۔ میں نے روداد بیان کی اور اس پیغام کی تفصیل بھی، کچھ دیر پہلے جو وزیرِ اعظم کو بھیجا تھا۔ اس آدمی کا نام بتایا، ماہرین کے خیال میں جو اس چیلنج کو خوش اسلوبی سے نمٹا سکتا ہے ۔ سندھ اور پنجاب کے سیلاب زدگان کے لیے جس نے اپنے اور دوستوں کے سرمایے سے دو عدد گائوں تعمیر کیے، مثالی گائوں ۔ چند ماہ کے دوران خواب کو متشکّل کیا ۔ سینکڑوں لوگ ان گھروں میں مقیم ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کو صرف ساڑھے سات سو روپے ماہوار ادا کرنا ہوتے ہیں ۔ گلیاں پختہ ہیں ۔ بجلی کا دوہرا نظام ہے ۔ ایک سرکاری اور دوسری شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی۔ نکاسیٔ آب کا بندوبست ہے۔ سو فیصد لوگ برسرِ روزگار ہیں ۔ ایسے چولہے ان کے لیے بنائے گئے ، جن میں آدھی لکڑی صرف ہوتی ہے ۔ ضروری ترامیم اور اضافوں کے ساتھ، انہی دیہات کو نمونہ کر لیا جائے تو انقلاب برپا ہو جائے۔ صدیوں سے مالی اور ذہنی پسماندگی کی یہ سرزمین جس کی منتظر ہے۔ جس میں لوٹ کھانے والے زرداروں، جنت بیچنے والے ملّائوں اور بھاڑے کے این جی اوز والوں کی بن آتی ہے۔ انجینئر صاحب نے کہا : اگر یہ منصوبہ بروئے کار آ سکا تو قومی آمدن میں ایک سے ڈیڑھ فیصد اضافہ ممکن ہو گا، اربوں ڈالر۔
شاعر نے کہا تھا: کج شہر دے لوک وی ظالم سن، کج سانوں مرن دا شوق وی سی ۔ ایک تو نوآموز حکمرانوں کی غلطیاں ۔ اوپر سے شریف خاندان کے پروپیگنڈے کی یلغار ۔ ڈاکٹر فرّخ سلیم پھٹ پڑے۔ کامران خان سے انہوں نے کہا : آپ مایوسی پھیلا رہے ہیں ۔ صرف پاکستان میں نہیں، سارے عالم میں حصص کے بازاروں میں مندی آئی ۔ وہاں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹی ۔ کامران خان حیرت زدہ رہ گئے ۔ انہوں نے کہا: امریکہ کے صدر سمیت ، وہاں بھی بہت سے لوگوں نے رنج کا اظہار کیا ہے ، خلق دل شکستہ بھی ہوئی ۔ ایک ٹی وی میزبان کے ستائے فرّخ سلیم کی آواز کچھ اور بلند ہو گئی ''مجھے اپنی بات تو مکمّل کرنے دیجیے‘‘۔ اخبار نویس حکومت کا ترجمان بنے تو کس الم سے گزرتا ہے۔ صحافت آزادی ہے، افسری ایک طرح کی غلامی۔
آخری بار کالم کا پروف پڑھ رہا تھا کہ کپتان کا پیغام ملا ''میں اس آدمی سے بات کروں گا‘‘
رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں ۔ ارے بھائی، رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں ۔ جنگل میں راہ تلاش کرنا کبھی مشکل بھی ہوتا ہے، ناممکن کبھی نہیں۔ مالک مہربان ہے اور آسمان ستاروں سے بھرا رہتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے : انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں ڈالا جاتا۔