تو لیجیے ، مسافر اب بیجنگ کو روانہ ہے ۔ دوردراز کی وہ سرزمین ، جس کے بارے میں دو جہاں کے آقاؐ نے یہ کہا تھا: اطلبوا العلم و لو کان بصین۔ علم حاصل کرو، خواہ چین جانا پڑے ۔
علامہ اقبال کا شعار یہ تھا کہ خطوط کا پلندہ ملتے ہی جواب لکھنے بیٹھ جاتے ۔ ارد گرد خواہ ہجوم ہو۔ علیل ہوئے تو یہ ذمہ داری جواں سال میاں محمد شفیع کو سونپ دی ، جو بعد میں م ش ہوئے اور نصف صدی تک اخبارات میں جگمگاتے رہے ۔ امان اللہ خان کی دعوت پر کابل جانے کے لیے گھر سے نکل رہے تھے ۔ ایک قدم دہلیز کے اندر، ایک باہر کہ ڈاکیا نمودار ہوا۔ غالباً ایک فارسی ترکیب کے بارے میں کسی نے استفسار کیا تھا ۔ کھڑے کھڑے مختصر سا جواب لکھا اور کہا کہ تفصیل درکار ہو تو محمود خاں شیرانی سے پوچھ لیجیے۔ وہی شیرانی صاحب ، جن کا اصرار تھا کہ اردو زبان نے پنجاب کے شہروں میں جنم لیا ۔ جن کے فرزند اختر شیرانی نے اپنے لیے شہرت اور باپ کے لیے اذیت کمائی۔
اقبالؔ کا یہ معمولی مداح بھی آج اسی عالم میں ہے ۔ ابھی کچھ دیر میں بیجنگ روانہ ہونا ہے ۔ ابھی تک سامان نہیں سمیٹا۔ کل شام تک عزائم بلند تھے۔ سویرے کالم لکھوں گا ۔ شام کو ٹی وی پروگرام اور وہیں سے ہوائی اڈے روانہ ہو جائوں گا لیکن پھر وہی کاہلی ، وہی تذبذب ، حتیٰ کہ شام ہو گئی ۔ منیر نیازی نے کہا تھا
نگر میں شام ہو گئی ہے کاہشِ معاش میں
زمیں پہ پھر رہے ہیں لوگ رزق کی تلاش میں
پروردگار نے اس کاہل آدمی کو زمین کا گز بننے سے محفوظ رکھا۔ آسانی سے رزق دیا اور وقت گزرنے کے ساتھ فراواں ۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ایک بار کہا تھا : کچھ جیل میں بیت گئی ، کچھ ریل میں ۔ اپنی زیادہ تر تنہائی میں گزری یا کچھ دفتر میں ۔ برسوں سے عالم یہ ہے کہ اخبار پڑھتا ہوں ، فون پر دوستوں سے تبادلۂ خیال کرتا ہوں ۔ ضرورت پڑے تو کسی موضوع پر ماہرین سے ۔ کالم لکھتا ہوں ۔ تھنک ٹینک کے لیے ہفتے میں تین دن دفتر کا رخ کرتا ہوں ۔ پھر ناک کی سیدھ میں گھر واپس۔ ہر چند گریز کسی سے نہیں ۔ دوستوں کے علاوہ کم کسی سے ملاقات ہوتی ہے ۔
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے
سیاحت کا ولولہ بہت ہے ، تاب کم۔ سفر کی کلفت سے گھبراتا ہوں ۔ کوئی دن پہلے تک پابندی سے کراچی اور کوئٹہ جایا کرتا۔ اب ٹی وی دیکھتا ، کتاب پڑھتا اور سوشل میڈیا کی خرافات سے دل بہلاتا ہوں
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
دنیا دیکھنے کی خواہش کبھی بہت تھی ۔ پراسراریت اور تنوع جو اجنبی سرزمینوں میں ہوتا ہے ۔
طلسمِ خواب زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
جدید دنیا کے سفر مختلف ہیں ۔ خاص طور پہ اخبار نویسوں کے۔ منزل تک دوستوں کی رفاقت اور ہوائی اڈوں پہ ازراہِ کرم خیر مقدم کرنے والے پُرجوش میزبان۔ چین جانے کی کوئی آرزو نہ تھی ۔ دوستوں کا اصرار مگر فیصلہ کن ثابت ہوا۔ ستمبر کے وسط میں روانہ ہونا تھا۔ آخری وقت پہ اڑچن آن پڑی ۔ دورہ ملتوی ہو گیا۔ سکھ کا سانس لیا۔ جرمنی کے ایک دوست سے وعدہ کر رکھا تھا۔ خیال تھا کہ آسانی سے ویزہ مل جائے تو برلن سے برطانیہ کا رخ کیا جائے۔ گلاسکو میں اپنی نورِ نظر کے ساتھ دو ہفتے بتائے جائیں۔ چینی سفارت خانے والوں نے پاسپورٹ دبائے رکھا۔ ایسی تاخیر سے واپس کیا کہ جرمن سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی مہلت ہی باقی نہ بچی ۔ جس کے جہاں گشت سفیر مارٹن کوبلر سے ملاقات کی تمنا ہے ، جن کے بارے میں ، میرا خیال یہ ہے کہ تعلقاتِ عامہ اور پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی دو اعزازی ڈگریاں انہیں ملنی چاہئیں۔
چین میں کیا رکھا ہے ؟ بار بار ساتھیوں سے پوچھا: بلند و بالا عمارتیں اور معاشی ترقی کے خبط کی ماری ایک قوم ۔ رانا محبوب نے کہا : کمال کرتے ہو ، بدلتی ہوئی دنیا کو کیسے کیسے چیلنج درپیش ہیں ۔ جوہری جنگوں کا خطرہ ہے ۔ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کا طوفان امڈا چلا آتا ہے ، جو کروڑوں نہیں ، بالآخر اربوں آدمیوں کو بے روزگار کر سکتا ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی ایک ہولناک خطرہ ہے ۔ آئندہ چند عشروں میں دنیا کا درجۂ حرارت چار ڈگری بڑھ جائے گا۔ ان سب معاملات میں ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی حیثیت سے چین کا ایک اہم کردار ہے ۔ اس کے سوا بھی بہت سے سوالات ہیں ۔ گزشتہ تیس پینتیس برس میں اقبالؔ کی پیش گوئی اس قوم کے بارے میں پوری ہو گئی۔
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
مائوزے تنگ کے بعد اس برق رفتاری کے ساتھ چین والوں نے فروغ پایا کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہیں ۔ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ معجزہ کس طرح برپا ہوا ۔ پھر تجارتی راہداری کے بارے میں اٹھنے والے سوالات ہیں ۔ چین کا ہدف اور ترجیحات کیا ہیں ؟ سب فوائد وہ خود ہی اٹھانے کے آرزومند ہیں یا پاکستان کا بھی کچھ بھلا ہو گا ۔ ان سے یہ بھی پوچھنا کہ مشرق میں جن اقوام کی سرپرستی وہ فرما رہے ہیں ، وہ ان سے نالاں کیوں ہو جاتی ہیں ؟ افریقی ممالک میں بعض لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ ان کا رویہ مغربی استعماریوں سے مختلف نہیں۔ تین صدیوں کے استعماری تجربے نے کسی قدر مغربی اقوام کو تراش دیا مگر چینی ابھی گنوار ہیں ۔ پاکستان میں کچھ افسوسناک واقعات پیش آئے۔ سری لنکا کو اپنی ایک بندرگاہ بیجنگ کے حوالے کرنا پڑی۔ کینیا میں ایک عجیب حادثہ ہوا۔ چینی نے ایک سیاہ فام سے کہا : یہ ایک کیلا لے جائو اور بندر کو دو ۔ تم بھی اسی کی مانند ہو۔ افریقی ہوشیار نکلا۔ یہ گفتگو اس نے ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پہ نشر کر دی ۔
ہاں ہاں! کمزور اور طاقتور قوموں کے تعامل میں وہی ہوتا ہے ، جو بالا تر اور کمتر افراد کے رشتہ و پیوند میں ۔ غلبے کی وہ قدیم انسانی جبلت جو اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ ان کے باپ ، تمام انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام شاید ابھی زندہ تھے جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر ڈالا۔ سید الطائفہ جنیدِ بغدادؒ کا وہی قول: ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔
ہاں مگر زندگی تو اجتماع سے زیادہ فرد کی ہوتی ہے ۔ روزِ حساب اس کے سوا شاید اس سے کچھ نہ پوچھا جائے گا: میرے بندے ، کیا تو نے مجھے یاد رکھا ؟ عقل و علم کی جو امانت تجھے بخشی تھی، اس کا کیا مصرف ہوا؟ اسد اللہ خاں غالبؔکی جان میں شاید یہی سوال ابھرا ہو گا کہ اس نے کہا
گو میں رہا رہین ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
ابھی ابھی یہ سطور مکمل ہوئیں تو ضمنی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا سلسلہ بھی تمام ہوا۔ اپنی نوعیت کے یہ پہلے انتخابات ہیں ، حکومت کا عمل دخل جن میں برائے نام ہے ۔ پٹواری متحرک ہیں اور نہ پولیس والے ۔ اس کے باوجود نون لیگ کی چیخ و پکار جاری ہے ۔ ضمنی الیکشن سے کوئی بڑی تبدیلی آنے والی نہیں لیکن یہ آشکار ہے کہ لاہور کے سوا ہر کہیں عمران خان کا پلّہ بھاری ہے۔ گو سب سے بڑا معرکہ لاہور میں ہے ۔ اخبار نویس نون لیگ کی برتری کا ڈنکا بجاتے رہے ۔ میرا اندازہ مختلف ہے ۔ ہمایوں اختر ہارے تو مشکل سے ہاریں گے ۔ ایم کیو ایم اور اختر مینگل کا دبائو کم ہو جائے گا۔ اپوزیشن ، کاروباری طبقات، سول سروس اور اپنی غلطیوں سے دبائو کا شکار نئی حکومت شاید تھوڑی سی آسودہ ہو سکے ۔
تو لیجیے ، مسافر اب بیجنگ کو روانہ ہے ۔ دور دراز کی وہ سرزمین ، جس کے بارے میں دو جہاں کے آقاؐ نے یہ کہا تھا: اطلبوا العلم و لو کان بصین۔ علم حاصل کرو، خواہ چین جانا پڑے ۔