گالیاں بکنے والوں کی خدمت میں آداب۔ اپنے اعمال کی سزا سے کبھی کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا۔ احمد فراز کا ایک مصرع یوں ہے: چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔
جسٹس افتخار چیمہ‘ پولیس افسر ذوالفقار چیمہ اور معالج نثار چیمہ کے گرامی قدر والد محمد اسلم خان مرحوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک گوہرِ شب چراغ تھے۔ 1946ء کے الیکشن میں مسلم برّ صغیر کے مقدر کا فیصلہ صادر ہونا تھا۔ ان کے گائوں میں ڈالے گئے 500 میں سے 499 ووٹ قائد اعظمؒ کے نکلے۔
یہ اس کے طفیل تھا‘ جس کے حسنِ اخلاق نے دھوم مچا رکھی تھی۔ تینوں بھائی نیک نام ہیں۔ ہم جولی ایک دوسرے سے الجھا کرتے ہیں۔ ایک کشمیری خاندان کے فرزندوں کو زچ کیا۔ اسلم خان نے چوک میں عدالت لگائی اور اپنے بچوں کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ ذوالفقار چیمہ سے اچھے پولیس افسر بھی پائے جاتے ہیں لیکن قومی تاریخ سے دس بارہ بہترین پولیس افسروں کا انتخاب کرنا ہو تو چیمہ صاحب کو شمار کرنا ہو گا۔ جہاں گئے‘ جرائم پیشہ پہ زندگی دشوار اور شرفا پہ آسان کرنے کی کوشش کی۔
کتنے ہی ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا۔ نثار چیمہ سے بہتر معالج بہت مگر ان سا درد مند شاذ دیکھا۔ حسنِ اخلاق میں اپنے باپ کی تصویر۔ ہولی فیملی ہسپتال۔ چوہدری پرویز الٰہی نے تبادلہ کیا تو شہر کا شہر سراپا احتجاج تھا۔ مجھ سے انہوں نے کہا: حیران ہوں کہ کوئی ڈاکٹر اتنا مقبول بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی دوسرا شخص حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چیمہ کو آسانی سے ہرا نہ سکتا۔ وہ ایک بہت با صلاحیت اور پر عزم آدمی ہے۔ ایک صدی سے چٹھہ خاندان میں سیاست چلی آتی ہے۔
ان دونوں کے بڑے بھائی جسٹس افتخار چیمہ کے بارے میں ایک اخبار نے جھوٹی خبر چھاپی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اس پہ کہا تھا: اپنی دیانت کی میں قسم نہیں کھاتا مگر جسٹس افتخار چیمہ کی امانت و دیانت پہ حلف دے سکتا ہوں۔ پانچ برس ہوتے ہیں کہ انتخابی مہم کے ہنگام ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پہ پھیلائی گئی۔ ایک سیاسی لیڈر کو کھانے کا چمچ پکڑا رہے ہیں۔ کئی دن تک ایک سے ایک گھٹیا تبصرہ۔ چھچھوروں کو کیا خبر۔ ایک معزز آدمی اپنے مہمان کو پلیٹ یا چمچ پیش کرے تو یہ عالی ظرفی کا اظہار ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پہ سنجیدہ کم اور خرافات کے خوگر زیادہ ہیں۔ نئی آزادی‘ اپنے ساتھ غیر ذمہ داری لے کر آتی ہے۔ اس معاشرے میں ہمیشہ جو بادشاہوں کے زیرِ نگیں رہا‘ آدمی کھلے تو ریوڑ ہو گئے۔ ان کا اپنا لیڈر دیوتا ہے۔ اس دیوتا سے اختلاف کرنے والے ابلیس۔
جس معاشرے میں‘ جسٹس افتخار چیمہ ایسے آدمی کو گالی دی جائے‘ اس میں کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ آئے دن جنرل کیانی کے بارے میں سفید جھوٹ کی تکرار ہوتی ہے کہ وہ آسٹریلیا میں ہیں۔ اللہ کے بندو ویزے کے بغیر کوئی سمندر پار نہیں جاتا۔ طرح دینے والے آدمی ہیں۔ اسد اللہ خان غالب کی طرح زبانِ حال سے کہتے ہیں:
یا رب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہوں میں
ایک صدی ہوتی ہے‘ لاہور کے قلعہ گجر سنگھ میں ایک خاندان مقیم تھا۔ موچیوں سے جوتے سلوا کر بازار میں بیچا کرتے۔ گزشتہ چار عشروں میں اس کے فرزند‘ سیاست اور صنعت میں بلندیوں پہ چمکے۔ اجداد نیم خواندہ تھے۔ چالیس برس ہوتے ہیں‘ رانا نذر الرحمن نے بتایا کہ علامہ اقبالؒ کو گالیاں بکا کرتے۔ حافظ شیراز پہ حرفِ اعتراض کہا تو کتنے ہی لوگوں نے دانائے راز کو دشنام کا ہدف کیا۔ اتنا کہ کبھی ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔ اقبالؔ اگر آج ہوتے تو کیا این جی اوز کے خود فروش اور ملّا انہیں معاف کرتے؟
لمبی ہو کر زبانیں گھٹنوں کو چھو رہی ہیں۔ ایک پلید جانور کے بارے میں فرمایا گیا کہ سیر ہو تو زبان لٹکی رہتی ہے‘ بھوکا ہو‘ تب بھی۔ وحشت کا یہ دور بالآخر تمام ہو گا۔ چین اور ایران کی طرح اس کی نگرانی کا نظام بنانا ہی پڑے گا۔ فی الحال سبھی کو بھگتنا ہے۔ لوگوں کی نجی گفتگوئیں ٹیپ پر نشر کی جاتی رہیں گی۔ برصغیر کے ہر تیسرے‘ چوتھے خاندان میں ایک گالی دینے والا ضرور ہوتا ہے۔ بھارت‘ بنگلہ دیش اور پاکستان‘ کوئی گائوں‘ کوئی محلّہ نہیں‘ ایسے کردار جہاں نہ پائے جاتے ہوں۔ حسن نثار نے غلط کیا مگر ایسا کیا سنگین جرم سرزد ہوا کہ سینکڑوں ہزاروں چھچھورے چیخ رہے ہیں۔ رئوف کلاسرا کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اختلاف برحق مگر یہ کیا وتیرہ ہے کہ بد تمیزی کو شعار کر لیا جائے۔ ''خطا‘‘ کے جواب میں بد زبانی کیا اس سے بڑی خطا نہیں؟ سیاسی جماعتوں نے چھچھوروں کی ایسی فصلیں اگائی ہیں کہ دوسروں کی زندگیاں عذاب اور ان کی اپنی بھی۔ غالبؔ نے کہا تھا:
اے طفلِ خود معاملہ قد سے عصا بلند
عمران خان کی بڑی بہن علیمہ خان کا چرچا تھا۔ خیال تھا کہ افواہ ہو گی‘ جیسے خواجہ آصف‘ شوکت خانم ہسپتال کے بارے میں پھیلاتے رہے۔ انکشاف ہوا کہ دبئی میں واقعی جائیداد رکھتی ہیں۔ حفیظ اللہ خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا: امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی کمپنی کی نمائندہ رہیں‘ پاکستانی ٹیکسٹائل کی جو بہت بڑی خریدار ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ کروڑوں ڈالر سالانہ کی خریداری پر تین سے پانچ فیصد کمیشن پاتی رہیں۔ علیمہ بہن سے بات نہ ہو سکی۔ شاید اس لئے کہ طوفانِ بد تمیزی میں خاموشی کو زیبا سمجھتی ہیں۔ ان کے ایک رفیق کار نے پیغام بھیجا: سالہا سال ان کے ساتھ کام کیا ہے۔ بہت ریاضت کیش اور بہت سلیقہ مند خاتون ہیں۔
پاکستانی ٹیکسٹائل کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے۔ لگ بھگ دس بلین ڈالر سالانہ۔ امریکی کمپنی American Merchandise int سے ایک زمانے میں وابستگی تھی۔ ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بتدریج ایک سو کاروباری ادارے‘ اس کمپنی سے استفادہ کرنے لگے۔ ممتاز ترین وکلاء کا کہنا یہ ہے کہ سمندر پار کمائی گئی دولت‘ بیرون ملک رکھّی جا سکتی ہے۔ رہے اعداد و شمار تو 60 ارب روپے کا دعویٰ تو مضحکہ خیز ہے۔
ایک قاری نے لکھا: میرے ماموں سعودی عرب میں ٹیکسی چلایا کرتے‘ اب ایک فیکٹری کے مالک ہیں۔ اس ناچیز کے دو رشتہ دار‘ درمیانے طبقے سے اٹھّے اور اب کھرب پتی ہیں۔ ناچیز نے سوشل میڈیا پہ اپنی معلومات منتقل کیں تو گالی گلوچ کا ایک طوفان برپا ہوا۔ ''علیمہ خان کے تم کیا لگتے ہو؟‘‘ لفافہ حلال کرتے ہو؟ دوست کی بہن‘ حتیٰ کہ روٹھے ہوئے دوست کی بہن سے آدمی کا رشتہ کیا ہوتا ہے؟
دو عشروں سے لاکھوں روپے سالانہ ٹیکس دیتا ہوں۔ تنخواہ سے خود بخود کٹ جاتا ہے۔ اس کے باوجود ایک دن وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: بچت سے خریدی جائیداد پر جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ جرم یہ ہے کہ ٹیکس نمبر حاصل نہ کیا۔ ایمنسٹی سکیم آئی تو 17 لاکھ ادا کئے۔ علیمہ خان کو شاید یہی کرنا چاہئے تھا۔ ان کے بھائی سیاستدان ہیں اور ساری دنیا کے محتسب۔
ربع صدی ہوتی ہے سبکدوشی کے بعد صدر غلام اسحق خان سے ملاقات ہوئی۔ عرض کیا: فلاں اور فلاں معاملے میں آپ سے غلطی سرزد ہوئی۔ فرمایا: سزا بھی میں ہی بھگت رہا ہوں‘ شکایت کئے بغیر۔ وہ فلمی مصرع کیا ہے: صدمہ یہ جھیلنا ہے شکایت کے بغیر۔
ایک سیاسی پارٹی‘ ایک ویب سائٹ اور حاسد اخبار نویسوں کے ایک ٹولے نے گزشتہ دنوں کردار کشی کی مہم برپا کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ خان صاحب کا قول یاد تھا۔ الحمدللہ‘ یہ بھی یاد رہا کہ عزت اور ذلّت حاسدوں کے نہیں‘ پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔ رہی الزام تراشی تو اللہ کے جلیل القدر پیغمبر بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔ ہم تم کس شمار میں ہیں۔ افتخار عارف کا شعر یہ ہے۔
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے
گالیاں بکنے والوں کی خدمت میں آداب۔ اپنے اعمال کی سزا سے کبھی کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا۔ احمد فراز کا ایک مصرع یوں ہے: چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔