چہار جانب اجالا تھا۔ صحرا میں ستارے جھک کر قریب آ گئے تھے۔ ان کے تعاقب میں چاند اترا۔ لگا کہ سرما کی صبح کا مہرباں آفتاب بھی۔
کبھی دل چاہتاہے کہ افسانہ لکھا جائے ۔ مگر طبع کی موزونیت بس اتنی ہے کہ ڈھنگ کا جملہ لکھا جا سکے‘ جو اخبار میں چھپ جائے۔ بدقسمتی نہیں‘ یہ خوش قسمتی ہے۔ کہانی اگر لکھتے تو کشکول لیے آج اخبار کے دروازے پہ کھڑے ہوتے۔ایک مولانا ظفر علی خاں بھی تھے۔ شعر کہتے ‘خطاب فرماتے تو مجمع مٹھی میں ۔ ترجمہ کرتے تو اصل سے بڑھ جاتا۔ سیاست میں آئے تو طوفان اٹھا دیا اورعشروں تک اٹھائے رکھا۔آخر عمر میں ایک اتائی کی دوا کھا کر معذور ہو گئے۔ موچی دروازے کے جلسۂ عام میں صدارت کی کرسی پہ بٹھا دئیے گئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ان کے چہرے کولاڈ سے تھاما اور یہ کہا: ظفر علی‘ تیرے ''ستارہ ٔصبح‘‘ نے میرے جگر میں آگ لگا دی تھی۔
صحافت اپنے عہد کے ظاہر کو بیان کرتی ہے۔ادب اس کے باطن میں سرسراتی تاریکیوں‘ جھٹپٹے اورروشنیوں کوبھی ۔ ایسی غزل لکھنے کی توفیق خورشید رضوی کو عطا ہوئی کہ گردش لیل و نہار میں شاید تابندہ رہے۔انہیں کیا پڑی کہ اخبار میں لکھیں۔
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لئے
اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ
اِک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
باایں ہمہ کوئی بات ایسی ہوتی ہے کہ زیب ِداستاں کے بغیر بیان نہیں ہو سکتی۔زیب ِداستان کالم میں بھی ہوتا ہے مگر کم کم‘ جانا پہچانا۔ افسانے میں کہانی اگرچہ سچی ‘ اور کردار حقیقی ‘کنایہ لطیف ہوتا ہے...اور حسب و نسب کے بغیر۔
کالم کمتر نہیں۔ احمد ندیم قاسمی لکھا کرتے تھے‘ شورش کاشمیری اور زبان و بیان کا وہ شہسوار‘ چراغ حسن حسرت لیکن وہ ایک دوسری اور بلند سطح ہے ۔ ایم ڈی تاثیر نے لکھا ہے کہ ایک دن وہ اقبالؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔کہا: جاوید نامہ لکھنے کے بعد میں تونچڑ چکا ‘ تمہی کچھ سنائو۔ جواں سال شاعر نے تازہ کلام سناناشروع کیا۔
تیری صورت سے تجھے دردِ آشنا سمجھا تھا میں
چند لمحے کا استغراق اور شعر اس طرح ڈھلتے گئے‘ جیسے خطیب برسرِ منبر ہو ۔ خادم علی بخش‘ اقبالؔ کے سب سے بڑے احوال آشنا تھے۔ انہیں تالی بجا کر بلایا کرتے کہ شرفا کا دستور تھا۔ کبھی کسی شب‘ اچانک تالی سنائی دیتی۔ بھاگم بھاگ پہنچتے تو وہ کاغذ طلب کرتے۔ لکھتے اورپھر سے گہری نیند سو جاتے۔ سحر اسے دیکھتے‘ شاذ ہی کوئی تبدیلی کرتے‘ حالانکہ تکمیل پسند تھے۔ ایک ایک مصرعے پہ کبھی پہروں غور کیا کرتے۔مولانا عبدالقادر گرامی ایسا کوئی ہم نفس میسر آتا تو مشورہ بھی کرتے۔
ایم ڈی تاثیر نے جیسے ہی شعر پڑھا‘اقبالؔ کے قلب میں جاگزیں خیال کا شجر شاخوں سمیت پھوٹ پڑا۔ پھولوں سے لدی ٹہنیاں۔ ہارون الرشید کے محل میں ایک درخت ایسا بھی تھا‘ جس کے گل اور پرندے ہیروں سے ڈھلے تھے۔ اقبالؔ نے کہنا اور تاثیر نے لکھنا شروع کیا۔
اپنی جولاںگاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہرو ماہ ومشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں رازِ محبت پر دہ داری ہائے شوق
تھی فغان وہ بھی جسے ضبطِ فغان سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ راہ رو کی صدا ئے دردناک
جس کو آوازِرحیلِ کارواں سمجھا تھا میں
اتنے میں کوئی در آیا۔ شاعر متوجہ ہوا۔ملاقاتی چلا گیا۔توفرمائشی نگاہ سے مداح نے دیکھا۔ فرمایا:وہ لہر تمام ہوئی۔
کبھی کبھی بہت دانا بھی نہیں سمجھتے کہ جومقدر میں لکھا ہے سو لکھا ہے۔
مہینوں سے بند پڑے پرانے موبائل کو کھولا اور پرانی ڈاک دیکھی۔ ایک ممتاز لیڈر‘ مصنف اور خطیب کا شکوہ۔ تمہارا بیٹا کالم نگار ہو گیا اور عطاء الحق قاسمی کا بھی۔ اخبار میں بھی کیا موروثیت ہوتی ہے۔ ایسی قدرت ہے کہ خود میں نے ان سے خود نوشت لکھنے کی فرمائش کی۔ اخبار میں کیوں بار نہ پا سکے؟ اس لئے کہ اس کام کے لئے بنے ہی نہیں۔یہ دوسری دنیا ہے۔وعظ و خطابت کی نہیں۔ شکوہ سنج کیوں ہیں؟ اس لئے کہ آدمی کی فطرت یہی ہے۔ کسی کے لئے بھی سب فنون اور سب کامیابیاں نہیں ہوتیں۔ شاکی نہیں‘ اس پہ شکرگزارہونا چاہئے۔ کبھی کبھی یہ نکتہ ہم سب بھول جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ قابل رشک اہل علم بھی۔ صرف ایک سچا صوفی ہی شکایت کو گہرا دفن کرتا ہے۔ اتنا گہرا جتنا اورنگ زیب عالمگیر نے موسیقی کو دفن کرنا چاہا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو یہ کہتے سنا گیا: ''کسی زندہ قوم میں اللہ نے مجھے پیدا کیا ہوتا‘مثلاً: جاپان میں‘‘...یہ الفاظ تو خود خاکسار نے سنے‘ ''میں صبر کرتا ہوں‘ لیکن صرف میں جانتا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ اعصاب پہ کیا گزرتی ہے‘‘۔
وہ کوئی خیال تھا‘ افسانہ لکھنے کی‘ جس نے آرزو پیدا کی۔ قاعدہ یہ ہے کہ خیال اپنے لفظ ساتھ لے کر آتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خیال قلب میں جاگزیں ہوتا ہے۔ ٹھہر جاتا ہے مگر موزوں الفاظ نہیں پاتا۔ اس لمحے کو لکھنے والا ٹال دیتا ہے۔ اگر وہ ایک صالح خیال ہے ۔اس کی شخصیت اور مزاج سے ہم آہنگ تو اچانک بہہ نکلتا ہے‘جھرنے کی طرح۔احمدندیم قاسمی نے کہا تھا۔
رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں رکے نہ سمجھ
کلیجہ چیر کے نکلیں گے‘ کوہساروں کا
صوفی کی بارگاہ میں ایک مسافر آیا۔ اس نے کہا: عجب حادثہ ہوا اور کئی بار۔ نماز پڑھنے کا ارادہ کیا‘ نیت باندھی۔ برسوں سے پڑھتا چلا آیا تھا مگر اس روز یہ ہوا کہ آغاز ہی نہ کر سکا۔ سبحانک اللھم و بحمدک ہی کہہ نہ سکا۔حافظے کا ورق کورا۔
سر اٹھا کر درویش نے اسے دیکھا۔ درد اور شفقت کی نگاہ‘ جو صوفیوں کا شیوہ ہے۔ فقیہہ نہ جانے کیا کہتا۔ درویش نے یہ کہا: دوسری چیزوں کی طرح یادداشت بھی نیّت کے تابع ہوتی ہے۔ ترجیحات میں جو اہم ترین ہے‘ اس کی جزئیات بھی یاد رہتی ہیں۔ بھول جائیں توپھر اجاگر ہو جاتی ہیں‘ بارش‘ جس طرح کھنڈرات کو اجال دے۔ نماز تو عشروں آپ نے پڑھی لیکن فقط فرض جان کر۔ فرض تو یقینا ہے‘ لیکن فقط فرض ہی نہیں‘ اس کے سوا بھی ہے۔فرمان ہے کہ اللہ کو اس طرح یاد کروجیسے اپنے اجداد کو کرتے ہو۔اُلفت اورمحبت کے ساتھ۔فراموشی کا وہ لمحہ‘ عجز اور انس سے خالی تھا۔
خوف اس کے چہرے پہ اتر آیا۔ فرمایا: ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ بندوں کی نہیں‘ یہ اللہ کی بارگاہ ہے۔ وہ کہ جس کی صفتِ رحمت اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔ پھر قرآن کریم کی آیت پڑھی: اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے۔
چہار جانب اجالا تھا۔ صحرا میں ستارے جھک کر قریب آ گئے تھے۔ ان کے تعاقب میں چاند اترا۔ لگا کہ سرما کی صبح کا مہرباں آفتاب بھی۔