اللہ تو اپنے بندے کو بچانا چاہتا ہے ، بہرحال بچانا چاہتا ہے ، وہ خود نہیں بچتا۔ پھر وہ تقدیر کو دوش دیتا ہے ، جی نہیں ، تقدیر اٹل نہیں ، جس نے رقم کی ہے ، وہ اسے بدل سکتا ہے ۔ بدل دیتا ہے۔
دو طرح کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی توانائی عمل میں کھپاتے ہیں ۔ دوسرے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ جس طرح بھوک اور پیاس میں رزق درکار ہوتا ہے ، اسی طرح بے رنگ زندگی میں رفاقت بھی ۔ دوسروں کے درمیان ہی آدمی آسودہ رہ سکتا ہے ۔ اپنے آپ سے، جنت سے نکالے گئے آدمی کو ہمدردی ہے۔ فرشتہ اس آدمیؐ پہ اترا ، جسؐ کے فضائل شمار نہیں کیے جا سکتے ۔ وہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے پاس تشریف لے گئے ۔ سیدہ ؓ بھی اپنے ماموں زاد ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں ۔ یہاں تک تو بالکل ٹھیک لیکن اس سے آگے...
توانائی اگر بوجھ ہٹانے ہی پہ لگے تو عمل کو کیا باقی بچے گا؟ مردم بیزاری شعار ہو جائے تو نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں ۔ تنہائی میں آدمی کڑھتا اور انجمن میں دوسروں کو کوستا رہتا ہے ۔ ایک عالمگیر سروے کے مطابق ہر آدمی اوسطاً 120 منٹ تک خود ترسی کا شکار رہتا ہے ۔ ابوالکلام آزاد نے کہا تھا : ہمہ وقت خود کو مصروف رکھو۔ بجا کہا مگر یہ مکمل علاج نہیں ۔ کبھی تو آدمی تنہا ہو گا ۔ کولہو کے بیل کی طرح جتا نہ رہے گا۔
خود تنقیدی درکار ہوتی ہے ۔ اپنے اندازِ فکر کا جائزہ لینا اور سلجھانا ہوتا ہے ۔ چار عشرے ادھر کی بات ہے ۔ لاہور کے ایک دانشور نے لندن میں اپنے دوست کو لکھا: I have grown a jungle in my mind , I dare not to enter in۔ اپنے فکر و خیال کی دنیا میں ایک جنگل اگا لیا ہے ، جس میں داخل ہونے کی جرأت مجھ میں نہیں ۔ نہیں ، خود سے آدمی فرار نہیں ہو سکتا ۔
دوسروں کی نہیں ، اپنی حماقتوں کے طفیل مشکل میں آدمی گرفتار ہوتا ہے ۔ آدمی کو آزمائش ہی کے لیے پیدا کیا گیا ۔ یہ ایک اٹل ، اور ابدی قانون ہے ۔ تکلیف بری ہوتی تو پیغمبرانِ عظامؑ کو کبھی نہ پہنچتی ۔ اصحابِ رسولؓ نے فریاد کی ''متیٰ نصر اللہ‘‘ ۔ اللہ کی مدد کہاں ہے ۔ انہیں بتایا گیا کہ پچھلی امتوں کے صالحین زیادہ بڑے مصائب سے گزرے ۔ ان کے بدن آروں سے چیر دئیے گئے ۔ خطا کار نہیں، شاید وہ اللہ کے پسندیدہ لوگ تھے، پسندیدہ ترین۔ بڑے آدمی کے لیے پیمانہ سخت ہوتا ہے ۔
یونس علیہ السلام کی کہانی سے سب واقف ہیں ۔ وہیل مچھلی کے پیٹ میں ڈالے گئے ۔ پھر نجات دیے گئے۔ کدّو کی بیل ان پر اگا دی گئی، جس نے ان کی نقاہت دور کر دی ، توانائی جلد بحال کر دی ۔ رسولِ اکرمؐ ، ہماری اولاد ان پہ قربان ہو، سب سے زیادہ جاننے والے تھے، اس لیے کدّو انہیں پسند تھا۔ شوربے میں انگلیاں ڈال ڈال کر اس کے قتلے کھایا کرتے۔
خود انؐ پہ مصائب کے کیسے پہاڑ ٹوٹے۔ طائف کا دن ، جسے وہ اپنی حیات کا سب سے مشکل دن قرار دیا کرتے ۔ شعبِ ابی طالب سے بھی زیادہ ، سوا دو سال جب انؐ پہ اور انؐ کے خاندان پہ رزق کا دروازہ بند رکھا گیا۔ درختوں کے پتے کھانا پڑے اور ابلا ہوا چمڑا۔ کیا نعوذ بااللہ وہ اللہ کے معتوب تھے بلکہ سب جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ محبوب۔ قرآنِ کریم میں ان کے بارے میں لکھا گیا ۔ رضی اللہ عنہم و رضو عنہ۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ عالی جنابؐ کے بارے میں ارشاد یہ ہوا '' لعمرک‘‘ قسم ہے تیری عمرِ عزیز کی۔ اس کی ہر ساعت، ہر سیکنڈ کی۔
یہ مقام بلند کرنے اور استعداد میں اضافے کے لیے ہوتا ہے ۔ فرشِ خاک سے آپؐ عرشِ بریں پہ لے جائے گئے ۔ قابِ قوسین، دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ۔
اُس پولیس افسر نے جب اس خطا کار کو برا بھلا کہا اور جواب میں اس نے اس سے بھی زیادہ سخت بات کہی تو رسوائی کا اسے سامنا کرنا پڑا ۔ کوئی سزا آدمی کو نہیں دی جاتی ، جس کا وہ مستحق نہ ہو ۔ پائلو کوئلو نے کہا تھا: غلطی نام کی کوئی چیز زندگی میں نہیں ہوتی ۔ بس سبق ہوتے ہیں ۔ سیکھنے سے اگر گریز کیا جائے تو ہمارے لیے قدرت انہیں دہراتی رہتی ہے ۔ اللہ نے کرم کیا کہ سوچنے کا اسے موقع دیا ۔
پیہم غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ بات نہ کہنی چاہیے تھی ۔ کہہ دی تھی تو اسی وقت معافی مانگ لینی تھی۔ جواز تلاش کر کے خود کو دھوکہ نہ دینا چاہیے تھا کہ ایک بے گناہ پہ اس نے ظلم کیا ہے۔ وہ ایک دوسری بات ہے ۔ اگر اس نے ایسا کیا اور میری معلومات کے مطابق ایسا ہی کیا تو اپنے کیے کی وہ خود سزا پائے گا۔ مزید برآں میرا نہیں ، یہ اس کے بالاتروں کا کام تھا ۔ پیغام مجھے ملا تھا کہ لکھ کر دے دوں تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ عارف نے یہ پیغام دیا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اپنی غلطی کی تم معافی مانگ لو۔ میں اس سے معافی مانگتا ہوں اور غیر مشروط۔ مکمل طور پہ غیر مشروط ۔ رہی سزا کی بات تو جن کا یہ دردِ سر ہے ، انہی کا یہ دردِ سر ہے۔
ناچیز ایک مغالطے کا شکار ہوا ۔ میرا خیال یہ تھا کہ کردار کشی کی مہم تمام ہو جائے تو اپنا فرض پورا کروں ۔ جی نہیں، اسی وقت یہ کر ڈالنا چاہئے تھا ۔ صوفی نے کہا تھا : بندوں سے معاملہ درپیش ہو تو خود کو بھول جائو۔ خالق سے واسطہ ہو تو مخلوق کو بھول جائو۔
خیال بھٹک جاتا ہے ۔ آج اس موضوع پہ لکھنے کا ارادہ نہ تھا۔ لکھ دیا ہے تو اللہ کا شکر ہے کہ دل سے بوجھ اتر گیا۔
جن دوستوں نے اس اثنا میں ہمت بندھائی ، ان کا شکریہ ۔ جو لطف اٹھاتے رہے ، کوئی شکایت ان سے نہیں ۔ اس لیے کہ دوست تو وہ تھے ہی نہیں؛ البتہ انہیں دشمن بھی نہ سمجھنا چاہئے۔ اصول یہ ہے کہ اپنا بوجھ ہر ایک کو خود اٹھانا پڑتا ہے۔ اتنا ہی پختہ اصول یہ ہے کہ استطاعت سے زیادہ بوجھ کسی پر نہیں ڈالا جاتا۔
کہانی کا آغاز لکھنے والا خود کرتا ہے ، جوں جوں وہ آگے بڑھتی ہے ، لکھنے والا اس کے سپرد ہوتا چلا جاتا ہے ۔ آخر کو صرف کہانی رہ جاتی ہے۔
ذہن میں موضوع یہ تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف پھنکارنے والے سیاسی لیڈروں کو ایک اصول کی یاددہانی کرائی جائے۔ یہ کہ کوئی کسی کی کامیابی یا ناکامی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص خود اپنے آپ ... مکمل طور پر اپنے آپ۔ اچھا ہے، نوبت خود کو یاد دہانی تک پہنچی۔
ایک عشرہ ہونے کو آیا ۔ ان سطور میں لکھا کہ پختون خوا میں اے این پی حکومت نے جو طرزِ عمل ہزارہ صوبے کی تحریک پہ اختیار کیا ہے ، اس کا نتیجہ خون ریزی ہو گا۔ ایسا ہی ہوا۔ عارف کی خدمت میں چند دن بعد حاضر ہوا ، سفر کے ہنگام جب اوکاڑہ میں تھے۔ یہ تحریر ان کی خدمت پیش کی۔ فرمایا: کوئی خود نہیں لکھتا ، لکھوانے والا لکھواتا ہے ۔
اپنی تقدیروں کے ہم مالک نہیں ، وہی ہے ، آدم کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل جس نے مہر لگا دی تھی ۔ رسولِ اکرمؐ کی دعائوں میں سے ایک دعا یہ ہے : یا رب ان برائیوں سے مجھے بچا لے جو میرے مقدّر میں رقم ہیں ۔
اللہ تو اپنے بندے کو بچانا چاہتا ہے ، بہرحال بچانا چاہتا ہے ، وہ خود نہیں بچتا۔ پھر وہ تقدیر کو دوش دیتا ہے ، جی نہیں ، تقدیر اٹل نہیں ، جس نے رقم کی ہے ، وہ اسے بدل سکتا ہے ۔ بدل دیتا ہے ۔
آدمی کو آزمائش ہی کے لیے پیدا کیا گیا ۔ تکلیف بری ہوتی تو پیغمبرانِ عظامؑ کو کبھی نہ پہنچتی ۔ اصحابِ رسولؓ نے فریاد کی ''متیٰ نصر اللہ‘‘ ۔ اللہ کی مدد کہاں ہے ۔ انہیں بتایا گیا کہ پچھلی امتوں کے صالحین زیادہ بڑے مصائب سے گزرے ۔ خطا کار نہیں، شاید وہ اللہ کے پسندیدہ لوگ تھے، پسندیدہ ترین۔ بڑے آدمی کے لیے پیمانہ سخت ہوتا ہے ۔