ہاں ! مگر عدل بھی، روزگار بھی ، امن ہی نہیں ، استحکام بھی ۔ مٹی سے نہیں انسانوں کو اس ماحول سے محبت ہوتی ہے ، جس میں الفت کی فصل اُگے اور اُگتی رہے ۔ کاش کہ لیڈرانِ کرام کو ادراک ہوتا، کاش کہ میڈیا کو بھی، شاید شاید۔
دہلا دینے والا انکشاف بلوچستان فرنٹیئر کور کے سربراہ جنرل ندیم انجم نے کیا ہے : پاکستان کے دشمن بلوچستان میں بڑے پیمانے کی شورش برپا کرنے پہ تلے ہیں ۔ اتنی کہ اقوامِ متحدہ مداخلت کرے۔ اس کی آزادی کا اعلان کر دے ۔ یہ دشمن بھارت اور افغانستان کے سوا کون ہے ؟ جنرل صاحب نے اس کا نام کیوں نہ لیا ؟ شاید اس لیے کہ نام لینے کی ضرورت ہی نہیں ۔ اس کا مربّی انکل سام کے سوا کون ہے ۔ اس کا نام کیوں نہ لیا؟ شاید اس لیے کہ عسکری اور سیاسی قیادت امریکہ سے مراسم بہتر بنانے پہ تلی ہے ۔ ممکن ہے کہ شکیل آفریدی کے بدلے میں عافیہ صدیقی کو چھڑایا جا سکے ، شاید شاید۔ ممکن ہے کہ ملّا برادر کی رہائی سے مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے ۔ ممکن ہے کہ امریکہ کے غیظ و غضب میں کچھ کمی آ جائے، شاید شاید!
میاں محمد نواز شریف اچانک کوئٹہ کے سابق کور کمانڈر جنرل ناصر جنجوعہ کے گھر تشریف لے گئے ۔ قیاس آرائی یہ ہے کہ ای سی ایل سے اپنا نام نکلوانے کے لیے ۔ جنرل کا اس سے کیا تعلق؟ کاش یہ توفیق وزیرِ اعظم کو ہوتی ۔ کاش ڈھنگ کا کوئی آدمی ان موصوف کے ارد گرد بھی ہوتا ۔ جنرل کیانی کے عہد میں جنرل جنجوعہ کے تقرر سے اس دور کا آغاز ہوا ، جس نے تاریخ کا ایک سنہری باب رقم کیا۔ بلوچستان پہ ان سے بہتر مشیر کوئی نہیں ۔
14 اگست 2015ء کو زیارت میں ایک پریشان بلوچ لڑکے کو دیکھا۔ اپنا دکھ اس نے بیان کیا۔ اپنا پتہ لکھوایا اور بولے : تمہارا مسئلہ اب میرا مسئلہ ہے ۔ اگلے برس جنرل عامر ریاض کو یہی جملہ ڈیرہ بگٹی کے ایک نوجوان سے کہتے سنا۔ رخصت ہوتے جنرل جنجوعہ نے کہا تھا: صرف نام بدل گیا ہے ، کل بھی کوئٹہ میں ، میں ہی موجود رہوں گا اور پرسوں بھی ۔ بلوچستان کی وسعتوں میں جنرل جنجوعہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس کے گھر گھر میں ہمیشہ بسیں گے۔
سینیٹ کمیٹی کو جنرل ندیم انجم نے بتایا : بلوچستان کے ویرانوں میں تعینات ایف سی کا سپاہی سب سے زیادہ جفاکش اور ایثار کیش سورما ہے ۔ ساری عمر وہ انہی ریگ زاروں میں بِتا دیتا ہے ۔ سالِ گزشتہ چاغی سے پرے ، ریگستان کے علاقے میں 108 افراد پر مشتمل بارات ہلاکت سے دوچار تھی ۔ قریب کی چوکی پر صرف پانچ سپاہی تھے ۔ منفی 8 درجے کی ، ہڈیوں میں گودا جما دینے والی ٹھنڈ میں ، ان سب کو وہ کندھوں پر اٹھا کر لائے ؛ حتیٰ کہ دو جانبار بے ہوش ہو گئے۔
ان دلاوروں کے الائونس اسلام آباد ، راولپنڈی ، ملتان ، لاہور اور سرگودہا میں خدمات انجام دینے والوں سے 50 فیصد کم کیوں ہیں ؟ آزردہ جنرل نے کہا : آج تو میں آپ سے صرف بجٹ مانگ رہا ہوں ، خدانخواستہ کل وہ تھک گئے تو آپ کو جیتی جاگتی زندگیاں دینا ہوں گی ۔ سینیٹ کے ارکان نے وعدہ کیا کہ ڈٹ کر وہ اس مطالبے کی تائید کریں گے ۔ زیادہ ذمہ داری جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہے ۔ اپنے فرزند کی شادی سے فارغ ہو کر انہیں بلوچستان جانا چاہیے ۔ سیاچن کے بعد جہاں ان کے بیٹے دھوپ اور کہر میں کھڑے رہتے ہیں ۔ کوئی یکسو معاشرہ ہوتا تو شہریوں کے وفود بھی جاتے ۔
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
بھارت کے اس مکروہ دہشت گرد اجیت دیول نے کہا تھا: طالبان کی مدد سے بلوچستان کو ہم الگ کر دیں گے۔ خدا کی قسم وہ نہیں کر سکتے ۔
ہم چٹانیں ہیں، کوئی ریت کے ساحل تو نہیں
شوق سے شہر پناہوں میں لگا دو ہم کو
جنرل جنجوعہ کے بعد اپنائیت کیا بڑھی ؟ ایک فوجی افسر کا جواب حیران کن تھا ''چار پانچ سو فیصد ‘‘۔ پھر اس نے بتایا کہ سالِ گزشتہ 290 آپریشن عام لوگوں کی مدد سے ہوئے ۔ مثلاً سکول جاتی کسی بچّی نے بتایا کہ فلاں مقام پہ ایک مشکوک آدمی ہے۔ کبھی محبت بھی بلندی سے لڑھکتے ہوئے برف کے گولے کی مانند ہوتی ہے، بڑھتی جاتی ہے ۔
چیلنج کی نوعیت اب دوسری ہے ۔ اس سے پہلے یہ مقامی بغاوت ہوا کرتی تھی ۔ اب عالمی طاقتیں ہیں، ان کے پالے علیحدگی پسند، طالبان ، لشکرِ جھنگوی اور دوسرے مذہبی فرقہ پرست بھی۔ دنیا کا بہترین اسلحہ تخریب کاروں کے ہاتھ میں ہے ۔ ایک برس میں تین ارب روپے کے ہتھیار برآمد کیے گئے ۔ ان میں طیارہ شکن میزائل بھی تھے۔ پانچ ہزار کلو بارود پکڑا گیا۔ ایک کلو سے کم از کم 20 افراد ہلاک کیے جا سکتے ہیں ۔ افغانستان ، بھارت اور مغرب کی پروپیگنڈا مشینری علیحدگی پسندوں کی پشت پہ کھڑی ہے ۔
سارے کا سارا یورپ نپولین نے روند ڈالا تھا ۔ موسم کے ہاتھوں، روس کی ہولناک ہزیمت کے باوجود، سپین کے سوا کہیں بھی وہ ناکام نہ ہوا۔ واٹر لو میں کیوں ہار گیا؟ مؤرخ متفق ہیں کہ اب رائے عامہ اس کے خلاف تھی ۔ پروپیگنڈے کی اہمیت اسلحے سے کم نہیں ہوتی ۔ چین کے سارے مخالف ، تجارتی راہداری کے خلاف ہیں ۔ پاکستان میں کچھ اخبار نویس بھی۔ کرایے کے ایک صحافی نے لکھا کہ فلاں مقام پر پانچ ماہ کی حاملہ عورت کو ایف سی نے قتل کر دیا۔ عورت نہیں ، وہ ایک دہشت گرد تھا ۔ جس خاتون کی تصویر ڈان نے چھاپی ، اسے کوئٹہ لا کر اخبار نویسوں سے ملوایا گیا۔ بھارت کا عزم بلوچستان کی علیحدگی ہے ۔ فوج دشمنی میں اس کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے لیڈروں ، ''سیفما ‘‘ اور بھاڑے کی این جی اوز کے سوا سب لوگ یہ بات جانتے ہیں ۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ایک ہزار فراری ہتھیار ڈال چکے ۔ افغانستان میں چھپے فراریوں کی تعداد اب کیا ہے ؟ چند سو سے زیادہ نہیں ۔ کسی وقت بھی مگر بڑھ سکتی ہے ۔ بھارت 500 ملین ڈالر سالانہ بلوچستان پہ صرف کرتا ہے ۔ امریکہ چھتری تانے کھڑا رہتا ہے ۔
ایف سی کے اس دلاور کا ماتھا چومنے والا کوئی نہیں ، سارے زمانے سے جو نبرد آزما ہے ۔ اپنے بجٹ سے ایف سی 100 عدد سکول چلاتی ہے ۔ ہر سال 190 فری طبی کیمپ، ڈیڑھ لاکھ مریضوں کا علاج ۔ وہ کہ معالج تک جن کی رسائی ہی نہیں ۔ بلوچستان ایک عظیم ویرانہ ہے ۔ ارکانِ اسمبلی ، افسروں اور وزرا کی اکثریت پتھر دل۔
یہی ایف سی کبھی سمگلنگ میں حصہ بٹانے کے لیے بدنام تھی۔ اب چیک پوسٹوں سے گزرنے والوں کو بسکٹ اور پھلوں کا رس پیش کیا جاتا ہے ۔ پچھلے دنوں ایک گلاس منظور پشتین نے بھی پیا تھا ۔ رمضان المبارک میں چار پانچ ہزار راہ گیروں کو افطاری پیش کی جاتی ہے ۔
تاریخ ساز تبدیلی کا آغاز جنرل کیانی کے عہد سے ہوا۔ بلوچستان سے فوجی بھرتی کے لیے بعض شرائط جنرل نے نرم کر دیں ۔ کبھی چھ سات سے زیادہ فوجی افسر اس نواح کے نہ ہوتے ۔ اب 20 ہزار ہیں۔ اکتوبر میں 70 افسروں کی پاسنگ آئوٹ پریڈ تھی ۔
انشاء اللہ ایک دن آئے گا، جب کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر اترنے والے مسافر سے کہا جائے گا
جس سمت کو چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
ہاں ! مگر عدل بھی، روزگار بھی ، امن ہی نہیں ، استحکام بھی ۔ مٹی سے نہیں انسانوں کو اس ماحول سے محبت ہوتی ہے ، جس میں الفت کی فصل اُگے اور اُگتی رہے ۔ کاش کہ لیڈرانِ کرام کو ادراک ہوتا، کاش کہ میڈیا کو بھی، شاید شاید۔