اس دوران ادارے‘ اس دوران اجتماعی ریاضت اور اجتماعی دانش۔ صرف پولیس‘ عدالت اور افسر شاہی نہیں‘ تھنک ٹینک بھی۔ غور و فکر کرنے والے شہ دماغ۔اس پہ پھر کبھی۔ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔
اسلام آباد سے ایس پی طاہر داوڑ کا اغوا‘ افغانستان میں اس کا قتل اور اس کے بعد لاش حوالے کرنے پہ افغان حکومت کے نخرے؟ کوئی لبرل چیخ کر کہے گا : سب گنا ہ ہماراہے‘ ہماری فوج کا‘ اور سب سے زیادہ جنرل محمد ضیاء الحق کا‘ تیس برس سے جو مٹی اوڑھ کر سوئے پڑے ہیں۔ افغانستان خطاکار ہے بھارت اور نہ ان پہ چھتری تانے امریکہ بہادر۔
کوئی پاکستانی اسی طرح چیخ کر کہے گا افغان مہاجرین کو سرحد پار اٹھا پھینکو۔ سرحد بند کر دو اور امریکہ سے تعلقات ختم نہیں تو محدود۔
مسئلے اس طرح حل نہیں ہوتے۔ میر تقی میرؔ کو خدائے سخن کہا گیا۔ مگر نقاد کہتے ہیں‘ غالبؔ اس لیے میرؔ سے بڑا شاعر ہے کہ دانش اور جذبہ اس میں آمیز ہو تے ہیں۔ تغزل میرؔ میں زیادہ ہے‘ جذبے کی فراوانی بھی لیکن خیال‘ کو بہت دیر وہ تھامے نہیں ر کھتا۔ اس کے دیوان میں جا بجا ایسے خوش رنگ پھول ہیں کہ دیکھنے والا ٹھٹک جاتا ہے۔
حیرتِ گل سے آب جو ٹھٹکا
بہے بہتیرا ہی بہا بھی جائے
لیکن رطب و یابس؟ مگر وہ بے پناہ رطب و یابس۔تعلّی کی فراوانی کے باوجود عجیب بات یہ ہے کہ خود میرؔ کے اندر بھی یہ احساس کارفرما ہے کہ آخر کار جو چیز‘ زندگی کو ثمر بار کرتی ہے‘ وہ جذبے کی یورش نہیں سلیقہ مندی ہے۔
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
دانشوروں کی بات دوسری ہے‘ جو ہر گھاٹ کا پانی پیتے اور خیالات کے جنگلوں میں بھٹکتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے لیے بہترین نمونۂ عمل کون ہے؟ ایک عامی یا عالم‘ سب پکار کر کہیں گے: اللہ کے آخری رسول ﷺ۔ان کی زندگی کیا کہتی ہے؟ ان کے ارشادات کیا ہیں؟
فرمایا: حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے۔ فرمایاکہ آدمی کو جو کچھ بھی عطا کیا جاتا ہے‘ دانش کے طفیل۔ جو کچھ بھی وہ کھو دیتا ہے ‘ حماقت کے سبب۔
یہی ان کی زندگی کا سبق ہے۔ طائف‘ دارِ ارقم‘ شعب ِ ابی طالب‘ ہجرت‘بدر اور احد۔ بھوک اور ابتلا۔ صلحِ حدیبیہ اور جنگ بندی۔ فتح مکّہ سے پہلے ان سب سے گزرنا پڑتا ہے۔ میدانِ جنگ سے واپس آتے ہوئے آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ''جہادِ اصغر سے اب ہم جہاد ِاکبر کی طرف جاتے ہیں‘‘۔
جہاد اکبر کیا ہے؟ اپنی خامیوں کا جائزہ اور اپنی اصلاح... ظاہر ہے کہ علم کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ خود تنقیدی کے بغیر ممکن نہیں‘ اس جذباتی توازن کے بغیر ممکن نہیں‘ جس میں دانش بروئے کار آتی اور غلطیوں کا تناسب کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ سارے ناقص اعمال ‘ تمام ناقص حکمتِ عملیوں کی بنیاد۔ خام تجزیئے کے سوا اور کیا ہوتی ہے۔ جذبات اور تعصبات سے مغلوب ہونے کے سوا اور کیا؟
افغانستان کے باب میں ہمارا تجزیہ غلط ثابت ہوا‘ بھارت اور امریکہ کے باب میں بھی۔ حتیٰ کہ سعودی عرب اور چین ایسے دوست ممالک کے باب میں بھی۔ عرب صحرائوں کے نیچے تیل کے دریا ہیں۔ دس بیس ارب ڈالر ان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں؟ انکل سام کو آسودہ رکھنے کے لیے‘ ہر سال سو‘ پچاس ارب ڈالر کا اسلحہ وہ خرید لیتے ہیں۔ ہمیں کیوں نہیں دیتے جب کہ ان کی آخری دفاعی لائن ہم ہیں۔ صرف پاکستانی سپاہ ہی حجاز مقدس کی حفاظت میں کٹ مر سکتی ہے ۔
چین کیوں‘ دس ارب ڈالر دے دیتا۔ اس لیے کہ دنیا میں کوئی قوم دوسری قوم کا بوجھ نہیں اٹھایا کرتی۔ افراد کی طرح اقوام کو بھی وہی کچھ ملتا ہے ‘ جس کی وہ مستحق ہوں۔ امریکہ چین کا دشمن ہے مگر اسے 3000 ارب کے قرضے بیجنگ نے دیئے ہیں۔ بھارت اس کا حلیف ہے‘ چین کا دشمن مگر اس کے ساتھ 50 ارب ڈالر سالانہ تجارت وہ کرتے ہیں۔ اس لئے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے مال کی ضرورت ہے۔ اقوام کے باہمی تعلقات‘ باہمی مفادات پہ استوار ہوتے ہیں۔
کوئی اگر ناکام ہے تو خود ذمہ دار۔ کامیاب تو اپنی سعی سے۔ مولویوں‘ واعظوں‘ دانشوروں اور خطیبوں کو کچھ دیر کے لیے اٹھا رکھئے‘ تاریخ کا سبق یہی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب میں یہی لکھا ہے : لیس الانسان الا ماسعیٰ۔ انسان کو اس کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا‘ جس کی وہ کوشش کرے۔
ہاں توبہ ہے... اور توبہ ماضی کی غلطیوں کویاد کر کے‘پھر جنیدِ ؒبغداد کے بقول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بھلا کر‘ صراطِ مستقیم کا نام ہے۔
صراطِ مستقیم کیا ہے؟ اللہ کے رسولؐ نے ایک تنکا اٹھایا۔ فرشِ خاک پہ بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں کھینچیں‘ پھر ایک سیدھی لکیر... اور فرمایا : یہ ہے صراطِ مستقیم۔ آخرت کی بات دوسری ہے‘ دنیا کی تگ و تاز میں تقویٰ یہی ہے۔
ابھی تیس پینتیس برس پہلے تک چینی مفلس تھے۔ انہوں نے توبہ کی۔ مائوزے تنگ کو اٹھا کر نہیں پھینکا۔ خدمات اور خوبیوں کو یاد رکھا‘ خامیوں سے چھٹکارا پا لیا۔ہم نواز شریف اور عمران خاں کی پوجا کرتے ہیں‘ بلکہ بھٹو کی بھی۔
خوئے انتقام سے زندگی نہیں سنورتی۔ ہمیں بھارت سے انتقام لینا ہے اور نہ افغانستان سے۔ افراد کی طرح اقوام بھی اپنے اعمال کی سز ا پاتی ہیں۔ زیاں کار ہیں تو انجام کو پہنچیں گے۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہے۔
وہ سول ادارے ہمیں تعمیر کرنے ہیں‘ جن کے بغیر کوئی قوم کبھی سرخرو نہ ہوئی۔ جرم کا راستہ روکنے والی پولیس‘ فیصلے صادر کرنے والی عدلیہ‘ عہدِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ افسر شاہی۔ عصرِ رواں کے مسائل سے نمٹنے کی خوگر سیاسی پارٹیاں۔ سیاسی پارٹیوں کا کوئی مذہب‘ عقیدہ اور فرقہ نہیں ہوتا۔ قائداعظمؒ کی حکومت میں غیر مسلم بھی تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کے بقول‘ جو بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے‘ عمر بھر جنہوں نے کبھی جھوٹ نہ بولا‘ خیانت نہ کی اور وعدہ شکنی کے مرتکب نہ ہوئے۔ بار بار جنہوں نے کہا تھا کہ قرآن ہمارا دستور ہے۔ کوئی بھی قوم آزاد اور رفیع ہوتو اپنے عقائد پہ زیادہ یقین اور انہماک سے عمل پیرا ہے۔ قوم کا ا جتماعی ضمیر زیادہ شدت اور وثوق سے بروئے کار آتا ہے۔ ایک آزاد قوم وہ ہے‘ جو معاشی طور پہ آزاد ہو۔ کھلے ہاتھوں سے وہی آزاد خارجی اور داخلی پالیسیاں تشکیل دے سکتی ہے۔رہے پرسوں کے اشتراکی‘ کل کے سیکولر اور آج کے لبرل تو دانش کے چراغ انہیں جلانے دیجئے۔ کبھی کبھی ڈھنگ کی بات بھی وہ کہتے ہیں۔ آخر کار یہ ہیگل ہی تھا‘ جس نے بتایا تھا کہ ہر چیز کے اندر ہی اس کی فنا کا اہتمام ہوتا ہے۔ آخر یہ برٹرینڈرسل ہی تھا‘ جس نے کہا تھا کہ بوریت گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔
رہے ملا تو وہ ازکارِ رفتہ ہیں‘ جذبات سے کھولتے ‘ فرقہ پرست اور ماضی میں زندہ رہنے والے۔ کام کی بات وہ بھی کہتے ہیں‘ بلکہ بہت کام کی۔ قرآن کریم کی آیات اور رسول اکرمﷺ کی احادیث۔ وہ ضرور ان سے لے لینی چاہئے۔ جو فرقہ پرستی سے بالا ہوں انہیں رہنما کرنا چاہئے۔ ایک سچا عالم متعصب کبھی نہیں ہو سکتا۔
عہدِ جدید کے مسائل پیچیدہ ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں۔ پیغمبر اب کوئی نہیں آئے گا۔ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ اب کوئی ابوبکرؓ ‘ کوئی عمرؓ ‘ کوئی عثمانؓ‘ کوئی علیؓ نہیں آئے گا۔ایسی جامع الصفات‘ ایسی خیرہ کن شخصیات کو ایک ہی بار پیدا ہونا تھا۔ کوئی قائداعظمؒ بھی نہیں آئے گا۔اس لئے کہ بڑے لیڈر استثنیٰ کے طور پہ پیدا ہوتے ہیں‘ زمانوں کے بعد ‘ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کم از کم ایک صدی کے بعد۔
اس دوران ادارے‘ اس دوران اجتماعی ریاضت اور اجتماعی دانش۔ صرف پولیس‘ عدالت اور افسر شاہی نہیں‘ تھنک ٹینک بھی۔ غور و فکر کرنے والے شہ دماغ۔اس پہ پھر کبھی۔ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔