ہم نہ کہیں گے تو کوئی اور کہے گا۔ساری کہانی کہہ دی جائے گی۔ فساد پھیلانے کے لئے نہیں کہ اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہوتی ‘ بلکہ ایک چراغ جلانے کے لئے۔میڈیا کے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا وقت آ پہنچا۔
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
امارات کا دورہ سعودی عرب کی طرح کامیاب رہے گا یا چین کی طرح ابہام کا شکار؟ کیا پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر اور ایک کروڑ ملازمتوں کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیا ملک دیوالیہ پن کی دہلیز پہ کھڑا ہے یا کپتان کی قیادت میںایشین ٹائیگر بن کے ابھرے گا؟
جب تک یہ سطور آپ پڑھیں گے‘ اس موضوع پر دنیا ٹی وی کا پروگرام ''تھنک ٹینک‘‘ایک نہیں دو بار دیکھ چکے ہوں گے۔ ٹی وی پروگرام کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ میرے بس میں ہوتا تو کل کے دن اس بحث کو دو گھنٹے تک پھیلا دیتا۔ آئندہ پر اٹھا رکھا۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا۔
کارِ دنیا کسے تمام نہ کرد / ہر کہ گیرد مختصر گیرد
دنیا کا کام کبھی کوئی مکمل نہ کر سکا۔ جس نے ابھی اسے تھاما‘ کچھ دیر کے لیے تھاما۔
ایک وہ ہوتے ہیں ‘ جن کا مفاد جاری بندوبست سے وابستہ ہوا کرتا ہے۔ دوسرے وہ کہ جو بساط لپیٹ دینے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ دونوں کی آرزو پوری نہیں ہوتی۔ وقت کا گھوڑا رک نہیں سکتا۔ رہے انقلاب کے آرزو مند تو تاریخ کی شہادت عجیب ہے کبھی انہیں مہلت مل جاتی ہے۔ طنابیں ٹوٹ جاتی ہیں اور زمانہ تغیرات کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔سوا دو صدی پہلے کے انقلابِ فرانس کی طرح‘ جس میں صبح کے جج شام کے مقتول ہوا کرتے۔پانچ صدی پہلے کے غرناطہ کی طرح‘ آئے دن جس کے حکمران بدلتے رہتے۔ حکمرانوں کے خلاف ایک باغی گروہ اٹھتا۔ انہیں ابلیس ثابت کرکے اقتدار چھین لیتا۔وہ ان سے بھی بدتر ثابت ہوتے‘حتیٰ کہ 1392 ء ،انہدام کا دن!
فیلڈ مارشل ایوب خان‘ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو‘ غازی جنرل محمد ضیاء الحق‘ دختر مشرق بے نظیر بھٹو یا قائداعظم ثانی میاں محمد نواز شرف ‘ حتیٰ کہ نجات دہندہ مائوزے تنگ بھی۔ تضادات ہر حکمران اشرافیہ‘ ہر لیڈر میں ہوتے ہیں۔ علاج ان تضادات کا‘ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے۔ تحمل و تدبر کے ساتھ‘ رفتہ رفتہ بتدریج رفوگری کی جائے۔ ایسا مگر کم ہی ہوتا ہے۔ ہو جائے تو اتنا پھل درخت پہ لگتا ہے کہ تشکّر کے وفورسے شاخیں مٹی کو چومنے لگتی ہیں۔
کوئی لیڈر‘ کوئی ملک اور معاشرہ سرخرو نہیں ہو سکتا‘ اگر وہ منصوبہ بندی اور ریاضت کے جوہر سے خالی ہو۔ ایسا نہیں ہے‘ برصغیر کا معاشرہ ایسا نہیں۔ یہ خطیبوں اور شاعروں کی دنیا ہے‘ وعدوں اور دعووں کی‘ خوابوں کی اور ایک کے بعد آنسو بونے والی دوسری نسلوں کی۔
ایک سیاسی مجدد وقت کی لوح پہ اترا تھا‘ محمد علی جناحؒ۔ مسلم برصغیر میں مخلص لیڈر‘ اس کے ہم عصروں میں بھی تھے۔ لیکن تحمّل اور تدّبر سے عاری۔ محمد علی جوہر کی موت پر اقبالؔ نے کہا تھا۔ رفتِ زاں راہے کے پیغمبر گذشت۔ ان راستوں سے اس کی روح آسماں پر پہنچی‘ رحمۃ اللعالمین کی سواری جن راستوں سے گزری تھی۔ مشرق کے فقید المثال شاعر نے زندگی میں بھی ایسا ہی خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔
ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرہ ٔ نیساں ہے زندانِ صدف سے ارجمند
دوسرے آتش بیانوں کے ساتھ مل کر محمد علی جوہر نے ہندوستان کے خس و خاشاک میں آگ بھڑکا دی۔چٹاگانگ سے چترال تک کار فرما استعمارکے پائوں اکھڑ گئے۔نہ صرف ہندوستان آزاد ہوا بلکہ پاکستان کی صورت ‘ امکانات سے چکا چوند ایک خیرہ کن باب کا آغاز۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ صرف سترہ برس میں چھپن فیصد آبادی کا مشرقی پاکستان جدا ہوگیا... اور ایک خون ریز خانہ جنگی کے بعد۔ دنیا کی بہترین افواج نے جس میں خاک چاٹی۔ ان دلاوروں نے‘ جیسے کبھی کبھی‘ کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔ آخر کیوں‘ آخر کیوں؟سپاہ کی نہیں سیاست کی ناکامی۔
محمد علی جناح ایک سیاسی مجدد تھے۔ اپنی عہد کی جذباتیت اور عصبیت پسندی سے بہت بلند۔ حقیقت پسند‘ منصوبہ ساز‘ ریاضت کیش‘ صداقت شعار اور مدبرّوں کے مدّبر۔ سات برس میں ایک نئی قوم‘ اور ایک نئے وطن کے قیام کا معجزہ انہوں نے کر دکھایا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟
قوم ایک بار پھر‘ جذبات اورتعصبات کے گرداب میں پھنس گئی۔ کشتی بھنور میں گھومتی رہی۔ ملک منزل نا آشنا‘ لیڈر اور دانشور ژولیدہ فکر۔ افواج کا سربراہ غرق مئے ناب اور افواج لاچار۔ اقتدار کی وحشیانہ آرزو میں 99 فیصد نشستوں کے فاتح شیخ مجیب الرحمن نے خود کو بھارت اور عالمی استعمار کے قدموں میں ڈال دیا۔ قومی اتحاد اور بقا کی بجائے‘ فخرِ ایشیا قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے‘ چند برسوں کے اقتدار کو چنا اور پھانسی پر جھول گئے۔ اپنے حریف شیخ مجیب الرحمن کی طرح‘ جنہیں ان کی فوج نے قتل کر ڈالا۔ پاک باز سید ابو الاعلیٰ مودودی کے آخری ایام‘ ایسی پژمردگی ایسی Depression میں گزرے کہ خدا کی پناہ!
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ خود شکنی سے نجات کاہم ارادہ کریں۔ ٹھنڈے دل کے ساتھ ہم تجزیہ کر یں؟نواز شریف پست و پامال ہیں اور آصف علی زرداری بھی۔ شجاعت کے علم لہراتے اور پھر لپیٹ کے رکھ دیتے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی جماعت کا ترجمان ایک ایسا شخص ہے جو ہر صبح کسی حریف کی تذلیل کا ارادہ کرتا ہے اور اس کی پیٹھ ٹھونکی جاتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری جماعت سے وابستہ ہونے والا اداکار! عصر حاضر کے عظیم ترین رہنما جناب عمران خان کا ایجنڈا مختصر ہے۔ اقتدار جاتا ہے تو جائے‘ اپنے مخالفین کو وہ دفن کر کے رہیں گے۔ زمین ان کے اوپر ہموار کر کے گھاس اُگا دیں گے۔
جی نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ قرائن یہ ہیں کہ دسمبر کے وسط یا آخر میں مخالف سیاسی پارٹیوں کے بیس پچیس لیڈر گرفتار کر لئے جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے شعلہ فشاں کارکنوں کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں گے مگر ملک کے باطن میں بے چینی بڑھتی جائے گی۔سرمایہ فرار ہوتا رہے گا۔غربت پھیلتی جائے گی۔سب جانتے ہیں کہ کپتان کو اقتدار کارناموں کے طفیل نہیں ملا‘ بلکہ ان کے حریفوں کی پے در پے حماقتوں کی بنا پر۔ پختون خوا میں پنجاب اور سندھ کی طرح لوٹ مار نہیں تھی۔ ہسپتال‘ سکول اور پٹوارخانے میں ویسی تذلیل عامی کی نہیں تھی‘ جتنی کہ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی سلطنت میں۔ دونوں کا ذاتی کاروبار اتنا بڑھا‘ اتنا بڑھا کہ ان کا شمار برصغیر کی تاریخ کے عظیم ترین ساہوکاروں میں ہونے لگا۔ بڑھتے بڑھتے‘ پھیلتے پھیلتے دونوں کی جائیدادیں‘ دبئی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ امریکہ اور سوئٹزرلینڈ تک پھیل گئیں۔
اس کے باوجود سندھ میں زرداری صاحب نے اتنی سیٹیں کیسے جیت لیں۔ اس کے باوجود پنجاب میں نون لیگ کے ووٹ‘ شوکت خانم ہسپتال کے معمار سے زیادہ کیوں ہیں؟ سب جانتے ہیں کہ عمران خان نے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی ٹکٹیں خود تقسیم کیں اور کتنی دوسروں کی سفارش پر۔ سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو نواز شریف نے اپنی حماقتوں سے برہم نہ کیاہوتا تو آج بھی اقتدار میں ہوتے۔ کراچی میں ایک انقلاب ضرور برپا ہوا کہ درد کے ماروں نے خوش دلی سے کپتان کو ایک موقعہ دینے کا فیصلہ کیا۔
سب کے سب مگر یہ بھی جانتے ہیں کہ بلوچستان کی بغاوت‘ جنوبی پنجاب کی ماہیت قلب چھوٹی پارٹیوں کے لئے اشارہ ابرو اور قبائلی ارکان کی تائید کے بغیر عمران خان پنجاب تو کیا وفاق میں بھی حکومت نہ بنا سکتے۔
پنجاب بے چین ہے اور بہت بے چین۔ واحد قابل اعتماد ادارے کے خلاف بغاوت وہ نہیں کرے گا لیکن وہ ناراض ہے۔ پنجاب کا مینڈیٹ عمران خان کو نہیں دیا گیا... اور انتقام کا تو ہر گز نہیں۔ بہت دن صبر کیا‘ بہت دن لیکن اب کھل کر بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ہم نہ کہیں گے تو کوئی اور کہے گا۔ساری کہانی کہہ دی جائے گی۔ فساد پھیلانے کے لئے نہیں کہ اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہوتی ‘ بلکہ ایک چراغ جلانے کے لئے۔میڈیا کے فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا وقت آ پہنچا۔
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں (جاری)