تمام ناقص فیصلوں اور تمام غلط پالیسیوں کی بنیاد ناقص تجزیے ہوتے ہیں۔ بے مہار ملّا‘ الطاف حسین اور براہم داغ ایسے بے مہار قوم پرست‘ بے مہار لبرل۔ کیسی کیسی مخلوق کارفرما رہی اور کس چین سے ہم بسر کرتے رہے۔ خود فریبی سی خود فریبی ہے۔
سالِ گزشتہ سری لنکا کے یادگار دورے میں‘ سب سے زیادہ جس منظر نے متاثر کیا‘ کسی نے اس کا اہتمام نہ کیا تھا۔ اشارے سے بتایا گیا کہ یہ ایوانِ صدر ہے۔ پھر ایک اور پُرشکوہ عمارت: یہ سری لنکا کی افواج کا صدر دفتر ہے... بس ایک آدھ محافظ۔
کوئٹہ میں چار روزہ قیام کے دوران منصور آفاق نے‘ فوجی افسروں سے بار بار پوچھا: وہ دن کب آئے گا‘ دہشت گردی کا مکمل طور پہ خاتمہ ہو چکا ہو۔ اس سوال کا وہ جواب کیا دیتے؟ ناچیز نے البتہ عرض کیا کہ پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں فرق بہت ہے۔ وہ ایک جزیرہ ہے‘ چھوٹا سا۔ ایک لسانی گروپ نے بھارت کی سرپرستی میں فساد کا آغاز کیا تھا۔ جم کر ریاست نے اس کے خلاف جنگ لڑی اور ایک مکمل فتح حاصل کی۔ پاک افواج کا اس میں ایک تاریخی کردار ہے؛ لہٰذا ترکوں کے بعد‘ ایک اور قوم صدیوں تک ہماری دوست رہے گی۔
پاکستان میں صرف یہ بھارت نہیں‘ افغانستان بھی ہے اور اتنا ہی امریکہ بھی۔ امریکیوں کی چشم پوشی کے بغیر‘ یہ کارروائیاں ممکن نہیں۔ بالواسطہ برطانیہ کی ایم آئی سِکس بھی شریک کار ہے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل پر‘ سندھ میں فسادات کی جو آگ بھڑکی‘ انتہا پسند عناصر اس میں سرکردہ تھے۔ ایم آئی سِکس کے وہ کارندے تھے۔ خفیہ ادارے‘ برطانوی ایجنسی کے ایک منصوبے سے واقف ہیں۔ گوادر سے کراچی تک کی پٹّی کو الگ کرنے کا منصوبہ۔ بلوچستان میں گرفتار جاسوسوں میں کل بھوشن یادیو نمایاں سہی‘ لیکن ہمارے ''دوست‘‘ ممالک کے مہربان بھی شامل تھے۔ بھارتی ایجنسی ''را‘‘ بلوچستان میں پانچ سو ملین ڈالر‘ یعنی 65 ارب پاکستانی روپے سالانہ خرچ کرتی ہے۔ براہمداغ بگٹی‘ ہربیار مری اور اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل کو بھارتی ہر سال کم از کم ایک ملین ڈالر ذاتی اخراجات کے لئے عطا کرتے ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا ہدف‘ پاکستان کو ٹکڑوں میں بانٹنا اور بالآخر اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانا ہے۔ امریکہ پاکستان کا خاتمہ تو خیر نہیں چاہتا‘ محتاج اور کمزور رکھنے کا آرزومند ضرور ہے۔ خانہ جنگی کے شکار افغانستان میں بھاڑے کے ٹٹو مؤثر ہیں۔ جہاں تک ایم آئی سِکس کا تعلق ہے‘ وہ امریکیوں کے لئے کام کرتی ہے۔ برصغیر کے باب میں اس کا علم اور انہماک سی آئی اے سے کہیں زیادہ ہے‘ لگ بھگ تین صدیوں کا تجربہ۔ 1857ء سے بہت پہلے ہی حیدر علی اور پھر اس کے فرزند ٹیپو سلطان کے زیر نگین میسور کے سوا‘ ہندوستان میں ہر کہیں‘ وہ انٹیلی جنس نیٹ ورک پھیلا چکے تھے۔ میسور میں غیر ملکیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ انگریز دشمن فرانسیسی ضرور آیا جاتا کرتے مگر سلطان کی اجازت سے۔ فوجی اور تکنیکی امور میں ریاست کی مدد بھی کرتے۔ ٹیپو کی شہادت پر‘ بھارت کی 19 زبانوں کے علاوہ سب سے زیادہ مرثیے‘ فرانسیسی میں لکھے گئے۔
ٹیپو سلطان پہ آخری حملے میں‘ مرہٹوں کے علاوہ‘ نظام حیدر آباد کی افواج شامل تھیں۔ اس وقت کوئی قوم پسپا ہوتی ہے‘ جب اس کے اپنے آزادی کے تقاضوں سے انحراف کریں۔ سب کی سب نہیں مگر کئی این جی اوز اجنبیوں کے لئے سرگرم ہیں۔ عالمِ اسلام میں فساد پھیلانے کے لیے مشہور صہیونی جارج سورس کی قائم کردہ این جی او کا سربراہ ایک پاکستانی اخبار نویس تھا۔ اس کا دفتر اسلام آباد کے ایک پنج ستارہ ہوٹل میں قائم تھا۔ میاں محمد نواز شریف نے ایک اعلیٰ عہدہ بخشا تو یہ اس نے اپنی بیگم کے سپرد کر دی۔ اسی نے نیویارک میں میاں صاحب سے جارج سورس کی ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ اسی زمانے میں ناچیز نے نشان دہی کر دی تھی۔ ہمارے اخبار نویس دوست مگر خاموش رہے۔ دوسروں کی طرح صحافی بھی ایک برادری ہیں۔
نادانستہ طور پر‘ ادنیٰ مفادات کے لیے یہ آدمی استعمال ہوتے ہیں۔ ملک و ملت ثانوی حیثیت رکھتے ہوں تو چھوٹے موٹے مفادات حاصل کرنے میں کیا حرج ہے؟
نئی اقوام اور نئی ریاستوں میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام‘ آدمی کو آزمائش کے لیے پیدا کیا گیا۔ قصور ہمارا یہ ہے کہ ہم چوکس نہیں‘ اور جو چوکس نہیں‘ وہ خسارے میں ہے۔ 15 اگست 2016ء کو دہلی میں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے‘ نریندر مودی نے کہا تھا: بلوچستان اور گلگت سے پیہم پیغام آتے ہیں۔ کن کے پیغام؟
پاکستان کی تزویراتی اہمیت اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ ہر اثاثے کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ جہاں خزانہ ہو‘ وہاں چور بھی آیا کرتے ہیں‘ ڈاکو بھی۔ یہ گھر والوں کام ہے کہ نگران رہیں۔ غیر ملکیوں کے باب میں‘ ہمارا نفسیاتی روّیہ ناقص ہے۔ یہ صدیوں کی غلامی کا ثمر ہے۔ بھارت کے ذکر میں آصف علی زرداری اور نواز شریف ہی نہیں‘ کسی زمانے میں عمران خان کا لہجہ بھی شیریں ہو جایا کرتا۔ آصف علی زرداری نے کہا تھا: ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی اور ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی بستا ہے۔ کیا ہر پاکستانی کے دل میں‘ ایک بھارتی بستا ہے؟ کیا ہر بھارتی کے دل میں پاکستان کے لیے محبت بھری ہے؟... نواز شریف نے کہا تھا: ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور وہ بھی۔ انہیں یاد نہ رہا کہ ہندو سرے سے گوشت ہی نہیں کھاتے۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل عمران خان ممبئی گئے تو مرکزی تقریب کے شرکاء کو مدعو کرتے ہوئے‘ ان سے مشورہ کیا گیا۔ اتفاق سے اس وقت میں موجود تھا۔ نہایت احترام سے میں نے انہیں کہا کہ وہ عدمِ احتیاط کے مرتکب ہیں۔ چونکہ یہ ایک نجی گفتگو تھی؛ لہٰذا تفصیل سے گریز۔
حقائق اب ان پہ کھل رہے ہیں۔ حسنِ ظن یہ ہے کہ وہ مختلف ثابت ہوں گے۔ اس لئے کہ انہیں روپیہ جمع نہیں کرنا۔ عسکری قیادت کو وہ دشمن نہیں سمجھتے اور اس لئے کہ آخر کار ان کا تعلق ایک روایتی لیگی خاندان سے ہے۔ ان کے مرحوم والد 1940ء کے اس اجتماع میں موجود تھے‘ قرار داد پاکستان جس میں منظور کی گئی۔
کراچی میں چینی قونصلیٹ پہ خوفناک حملہ اور ٹھیک اسی روز اورکزئی ایجنسی میں ایسا ہی المناک دھماکہ‘ کیا یہ دہشت گردی کے ایک نئے دور کا آغاز ہے؟ سول ادارے کمزور ہیں‘ بہت کمزور۔ پاکستانی فوج نے ملک کو بچا لیا ہے۔ اگر یہ فوج نہ ہوتی تو یہ ملک عراق‘ شام یا لیبیا بن گیا ہوتا۔ دہشت گردی کا سدِ باب تنہا فوج کی ذمہ داری نہیں‘ بد قسمتی سے سیاسی پارٹیوں کا اندازِ فکر یہی ہے۔
کراچی کا سانحہ اور بھی المناک ہوتا‘ اگر ایک بھی چینی شہری کو نقصان پہنچتا ۔ یہ اس وقت ہوا‘ جب دفاعی پیداوار کی سالانہ عالمی نمائش برپا ہے۔ دنیا بھر سے مبصر اور ماہرین جسے دیکھنے آتے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران‘ دفاعی پیداوار کے میدان میں ‘ ملک نے ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔ بعض ایسی ایجادات بھی ہیں‘ نمائش کے لیے جو پیش نہیں کی گئیں۔ شاید مدتوں نہ کی جائیں۔
کل بھوشن کے اعترافات میں سے ایک یہ ہے کہ ''را‘‘ نے تہران میں پاکستانی سفارتخانے پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا‘ جس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی قبول کرتی۔ اغلب یہ ہے کہ کراچی کا منصوبہ بھی ''را‘‘ ہی کا مرتب کردہ ہے؛ اگرچہ پاکستانی شہری اس میں استعمال ہوئے ۔ گم کردہ راہ پاکستانی!
تمام ناقص فیصلوں اور تمام غلط پالیسیوں کی بنیاد ناقص تجزیے ہوتے ہیں۔ بے مہار ملّا‘ الطاف حسین اور براہم داغ ایسے بے مہار قوم پرست‘ بے مہار لبرل۔ کیسی کیسی مخلوق کارفرما رہی اور کس چین سے ہم بسر کرتے رہے۔ خود فریبی سی خود فریبی ہے۔
پسِ تحریر: عمران خان کے بارے میں سلسلۂ مضامین میں کوئی دن میں الگ سے لکھوں گا۔