احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
تنقید کرنے والوں نے بہت تنقید کی۔ یہ ایک بہت نرم لفظ ہے۔ طعنے‘ الزام تراشی اور گالیاں۔ نون لیگ کے لوگ بگڑتے ہیں تو تعجب نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی والوں کو ہرگز یہ زیبا نہیں۔ اب وہ حکومت میں ہیں۔ تنقید انہیں سننا ہوگی۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ان کا دفاع کیا۔ میرے لیے مگر وہ ایک لیڈر ہے‘ دیوتا نہیں۔سولہ برس پہلے پروفیسر احمد رفیق اختر کی خدمت میں لے گیا تو وہ مطمئن نہ تھے۔ برسوں قائل کرنے میں لگے۔ آخر کو مانے تو یہ کہا: اقتدار میں ہم شریک نہ ہوں گے۔2003 ء میںایبٹ آباد میں‘جلوس میں لوگ امڈ کر آئے تو حیرت زدہ تھا۔ عرض کیا: یہ پروفیسر صاحب کے لوگ ہیں،معزز اور معتبر۔
2013ء کے الیکشن سے پہلے‘ اس کی اجازت سے گوجر خان سے کچھ لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا۔ جتلا دیا تھا کہ اس تحصیل میںٹکٹوں کا فیصلہ مقامی طور پہ ہوگا۔ ایک دن اس نے کہا: ''اچھے‘ ڈھنگ کے لوگ‘‘ اسی رسان سے کہا: جی ہاں‘ ڈھنگ کے لوگ۔ ٹکٹ بانٹنے کا وقت آیا تو اس کے حاشیہ برداروں نے کوئی اور چن لئے۔
غیر مؤثر اور ناکردہ کار۔ ایک شام اس کے پاس گیا اور سمجھایا۔ شہر کا ایک سابق نیک نام ناظم‘ ایک یونین کونسل میں نون لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے مشترکہ امیدوار کو ہرانے والا ایک درویش صفت لیڈر۔ سارا دن جو خلق کو میسر ہوتا۔ وہ مان گیا۔ اس نے اتفاق کر لیا۔ اگلے دن وہ مکر گئے۔ ہمہ وقت گھیرے رکھنے والے مصاحبوں کا اثر وہ بہت قبول کرتا ہے۔ پھر سے وضاحت کی ‘ پھر مان گیا۔ اگلے دن مرغے کی وہی ایک ٹانگ۔ تین دن یہ سلسلہ جاری رہا۔ جس شخص کو اس نے امیدوار کیا تھا‘ ہم جانتے تھے کہ شہر میں دو چار ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکتا۔ آخر کو پروفیسر صاحب نے خود زحمت کی۔ اس کے ہاں تشریف لے گئے۔ تین برس نواز شریف کہتے رہے‘ ان کی سن کر نہ دی تھی۔ اونچ نیچ انہوں نے سمجھائی ۔ کہا کہ گوجر خان سے گوجرانوالہ تک ایک بھی امیدوار اس کا جیتے گا نہیں۔ بات سمجھ میں آ گئی۔ برآمدے میں کھڑے ہو کر اس نے اعلان کیا: پروفیسر صاحب یہ تو ہو گیا‘ کوئی اور حکم؟... اگلے دن وہ سب لوگ صاف مکر گئے۔ ٹیلی فون بند ہوگئے۔ کسی کا نام میں نہیں لکھتا۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کے کہتا ہوں۔ معاشرے کا کچرا‘ پرلے درجے کے مفاد پرست اور ابن الوقت۔ اس کے بعد کیا کرنا چاہئے تھا؟
پروفیسر صاحب نے تو خاموشی اختیار کر لی۔ ناچیز نے اس کے باوجود رابطہ رکھا۔ میرا اصرار اس پہ تھا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری تو کسی صورت گوارا نہیں۔ اپنی انا قربان کی جا سکتی ہے‘ ملک کا مفاد نہیں۔ ایک دن اس نے اعلان کیا: کسی شخص نے پارٹی کی ہارون الرشید سے بہتر ترجمانی نہیں کی۔ دہشت گردی کے موضوع پر ایک عالمی سیمینار میں منعقد کروں گا۔ برطانیہ کے جارج گیلوے اور ہارون الرشید جس سے خطاب کریں گے۔ یہ بھی کہا: میں تمہیں سینیٹر بنائوں گا۔ خاموش رہا۔ اور بعد میں معذرت کر لی۔ تفصیل کو چھوڑیئے 2013 ء میں ‘ صرف گوجرانوالہ شہر میں 55 دن بتائے۔ ٹکٹیں تقسیم کرنے کا وقت آیا... تو کسی نے بات نہ کی۔ اس پر بھی میں خاموش رہا۔ اس وقت بھی جب دو دو ٹکے کے آدمیوں سے اخباروں میں لکھوایا گیا کہ ہارون الرشید نے کچھ امیدواروں سے روپیہ اینٹھا تھا۔ ایک بارہارون اسماعیل نے زبانِ طعن دراز کی تو یہ کہا: ایک کمیٹی بنائیے۔ الزام کی تحقیق کیجئے۔ اخبارات اور ٹی وی پہ اس کی رپورٹ جاری کر دیجئے۔ اس شخص پہ خدا کی لعنت ‘ کسی سیاستدان سے ‘ جس نے مالی منفعت کی آرزو کی ہو۔
آج ان سب چیزوں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔پیر کی شام کسی نے مطلع کیا کہ ٹیکس وصولی کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات کا ایجنڈا طے پا گیا ہے۔ بہت دن کے بعد دل کی کلی کھلی۔ ٹویٹر میں نے بند کر رکھا ہے۔ مؤقف میں بدل نہیں سکتا۔جواب میں گالی بھی دے نہیں سکتا۔ پیر کو بہت دن کے بعد ٹویٹر کھولا اور اس پہ لکھا: کل شام طبیعت خراب تھی‘ اسی لیے پروگرام میں شریک نہ ہو سکا۔ دو ہزار پیغامات اس پہ ملے کہ اللہ آپ کو صحت عطا دے‘ لیکن کچھ بگڑے بچوں نے یہ لکھا: تم مر کیوں نہیں جاتے۔ بہانہ ان کا یہ ہے کہ یہ حرکت نون لیگ والے کرتے ہیں۔ ضرور کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی والے بھی عدنان عادل سمیت ‘ پی ٹی آئی کا دفاع کرنے والے کتنے ہی اخبار نویسوں کو گلہ ہے کہ ایک ذرا سے اختلاف پہ بھی گالیوں کی بوچھاڑ آتی ہے۔
تنگ آ کر تین ہفتے قبل عمران خاں کو مطلع کیا ۔ اس کے بعد نوے فیصد کمی آ گئی‘ جب اس بدنام زمانہ شخص کو بلا کر اس نے کہا کہ آئندہ ایسا نہ ہو نا چاہئے۔ ہم کیا بچے ہیں۔ کیا زبان اور لب و لہجہ نہیں پہچانتے۔ اپنے طور پہ طے کر رکھا ہے کہ حمایت اور اختلاف میں ذاتی انا کو حائل نہ ہونے دیں گے۔
اصلاحات کی خبر آئی تو ایک اور ٹویٹ لکھا۔ عمران خاں پہ سخت تنقید کرتا ہوں ؛ لہٰذا اچھا کام کرے تو تعریف بھی کرنی چاہئے۔ ایسی اصلاحات ایف بی آر میں کی جا رہی ہیں کہ انشاء اللہ اگلے برس ایک ہزار ارب روپے زیادہ وصول ہوں گے۔ کل انشاء اللہ اس پہ کالم لکھوں گا۔
ڈیڑھ دو گھنٹے میں سولہ سو پیغام مل چکے تھے‘ اکثریت بشاش۔ بہت دنوں کے بعد طبیعت شاد ہوئی کہ ملک کا ایک بڑا مسئلہ شاید حل ہو جائے۔ نظر آیا کہ پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کو غلاظت پھیلانے سے روک دیا گیا ہے ‘مگر وہ کہ جنہیں جنون کا سبق پڑھادیا گیا ہے ۔ وہ کہ جن کے ماں باپ نے انہیں تمیز سکھائی ہی نہیں۔ احساسِ کمتری کے وہ مریض جو گالی بکنے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ ''دماغ درست ہو گیا‘‘... ''طبیعت صاف ہو گئی‘‘ ...''وزیراعظم نے ملاقات کا وقت دے دیا‘‘۔
اصلاحات کے جس پروگرام پہ اخبار نویس شاد تھا اور اب بھی شاد ہے‘ وہ یہ ہے۔ ٹیکس وصول کرنے والوں کو ٹیکس کی پالیسیاں وضع کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ عالمی بینک‘ برطانیہ کے ترقیاتی ادارےDFID‘ بین الاقوامی معتبر ا دارےMckinsey اور HRMC کی مدد سے ایف بی آر کے لیے ترقی اور فروغ کا ایک منصوبہ زیرِ تشکیل ہے۔ایف بی آرکے اہم ترین ادارے PRAL کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا۔ دس برس سے یہ منصوبہ ملتوی ہوتا آیا تھا۔
بین الاقوامی ادارے بڑے ٹیکس نادہندگان کی نشاندہی میں مدد کریں گے۔ ہارورڈ یونیورسٹی ‘ لندن سکول آف اکنامکس اور آکسفرڈ کے ماہرین سے اس معرکے میں مدد لی جائے گی۔ ایف بی آر کے لیے ایک نیا بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔ اساتذہ اور ممتاز ماہرین شامل ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کچھ اصلاحات ہیں‘ برآمدات میں اضافے اور کاروبار میں سہولت کے لیے۔ زراعت‘ مکانوں کے قرضے‘ سیاحت‘سافٹ ویئر کی برآمدات اور ای گورنمنٹ کے لیے اقدامات میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ پاک فوج میں برسوں سے کاغذ کا استعمال بند ہے۔ سول اداروں میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔
ماہر معیشت ثاقب شیرانی کا کہنا ہے کہ یہ کام ماہرین کی ایک بڑی‘ مخلص اور پر جوش ٹیم نے انجام دیا ... مگر اس کا کریڈٹ ایک آدمی کو جاتا ہے‘ جس کا نام عمران خاں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چار حکومتوں کے وہ مشیر رہے مگر کسی حکومتی سربراہ کو انہوں نے ایسا ریاضت کیش‘ مخلص اور دیانت دار نہ پایا۔
تو بالآخر یہ ایک بڑی خوشخبری ہے۔ بخدا ہم اسے کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں‘ ناکام نہیں۔ناچیز تو آج ان اصلاحات ہی پر لکھتا اور نہایت شادمانی سے لکھتا‘ اس طویل تمہید کی کوئی ضرورت نہ تھی۔اس کے ذمہ دار طعنے دینے والے چھوکرے اور چھوکریاں ہیں۔ جنون کے مارے ‘ جن کا خیال یہ ہے کہ جب اور جسے وہ چاہیں بلیک میل کر سکتے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں