زیاں بہت ہے۔ خدا کی کائنات میں زیاں بہت ہے۔ کیسے کیسے دیدہ ور، دلاور اور مدبر کم خوراکی کے شکار بچّوں کی طرح مٹی چاٹتے رہتے ہیں... مٹی!
عبرت ناک، عبرت ناک۔ خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کال کوٹھڑی میں ہیں۔ اب وہ اربوں روپے کس کام آئیں گے، مبینہ طور پر جو ناجائز طریقے سے انہوں نے کمائے؟ سعد رفیق تو قدرے جارحانہ مزاج کے ہیں۔ سلمان بالکل بھولے بھالے، سادہ اطوار اور منکسر سے ہیں۔ ان پہ زیادہ ترس آتا ہے۔
حمزہ شہباز کو اتار لیا گیا، جب لندن جانے کے لیے وہ جہاز میں سوار تھے۔ ابھی کل تک عمران خان کا وہ مذاق اڑایا کرتے کہ اپنا نام وہ وزیرِ اعظم رکھ لیں۔ ''شیروانی میں سلوا دوں گا‘‘۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او ان کی خدمت میں حاضر ہوتے کہ تقرّر کا پروانہ پائیں۔ ایک اخبار نویس سے ملنے گئے۔ اس نے کہا: غریب خانہ آپ کے قابل نہیں۔ بولے ''ہم اس قابل بنا دیں گے۔‘‘
ایک مکھی امیرالمومنین ہارون الرشید کو تنگ کر رہی تھی۔ جھلّا کر امام یوسفؒ سے اس نے کہا: اللہ نے مکھی کو آخر کیوں پیدا کیا؟ جواب ملا ''بادشاہوں کو زچ کرنے کے لیے‘‘۔
سابق وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب کے خلاف نیب نے شواہد جمع کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ لیگی لیڈروں کی توہین، اذیت اور ادبار پہ عمران خان کے وزیرِ اطلاعات شاد ہیں۔ کہا کہ ان کا عہد تمام ہوا۔ کسی دن نیب نے اگر ان کے اثاثوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تو کیا ہو گا؟
شہباز شریف نے مان لیا کہ چار عدد گھروں کو انہوں نے چیف منسٹر ہائوس قرار دے رکھّا تھا۔ اخراجات پچاس کروڑ روپے سالانہ۔ اصرار ان کا یہ ہے کہ زندگی بھر ایک پیسے کی خیانت نہیں کی۔ اگر یہ خیانت نہیں تو اور کیا ہے؟ وہ خیرہ کن خدمات، جس کے بل پر وہ خادمِ اعلیٰ کہلاتے رہے؟
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
ایک دن میں شہنشاہی کے خواب دیکھنے والے نریندر مودی زمین پہ آ رہے۔ راہول گاندھی نے خاک چاٹنے پہ مجبور کر دیا۔ وہی راہول، جسے خود ان کی پارٹی کے کارکن ''پپو‘‘ کہا کرتے۔ پپو سے ٹارزن ہار گیا۔
وہی بھارت، جس کے باب میں پاکستان سے امریکہ کا مطالبہ یہ ہے کہ اس کی سیادت قبول کر لے۔ واشنگٹن نے اس وقت پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب دہشت گردی کے خلاف جنگ اس نے جیت لی ہے۔ لسانی دہشت گردوں کے علاوہ قاتل طالبان کو شکست دے دی ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کو نکیل ڈالی ہے اور اس کی سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کی طرف سے یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کو بلیک میل کرنے کی ایک کوشش۔
بھارت کی بالا دستی تسلیم کرانے کے علاوہ، امریکیوں کا مطالبہ دراصل یہ ہے کہ چین کے ساتھ اسلام آباد اپنے تعلقات محدود کرے۔ اس وقت جب چین، پاکستان میں 56 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پہ ہے، وہ اپنے ہاتھ کاٹ کر واشنگٹن کے حوالے کر دے۔
دبائو اور اتنا دبائو کہ پاکستان جھک جائے۔ اسی لیے تو عالمی بینک نے 250 ملین ڈالر کی امداد روک دی ہے۔ آئی ایم ایف کی توثیق درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف تائید نہیںکرے گی۔ اس کی شرائط ہیں اور وہی شرائط جو امریکہ بہادر کی ہیں۔
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ عشروں تک انکل سام پہ ہم نے انحصار کیے رکھا۔ اب اس نے منہ پھیر لیا ہے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ پنڈ کیسے چھڑائیں۔ اپنے پائوں پر کیسے کھڑے ہوں۔
لاہور میں ایک رئیس ہوا کرتے تھے۔ اس طرح لاڈ پیار میں پلے بڑھے کہ آٹھ نو سال کی عمر تک نوکرانیاں گود میں اٹھائے پھرتیں۔ ماں باپ دنیا سے اٹھے تو اربوں کی جائیداد کے باوجود مفلس ہو گئے۔ ایک دن ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر ہیروئن کی پوٹلی سمیت پکڑے گئے۔
زندگی کرنے کا ایک ڈھنگ یہ ہے کہ اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے جائیں۔ دوسرا یہ ہے کہ دستِ سوال دراز رکھا جائے۔ قائدِ اعظم کے بعد کوئی لیڈر نہ اٹھا جو قوم کو اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے کا درس دے۔ ہر شعبدہ باز نے یہ کہا: مجھے اقتدار بخش دو تو معجزہ کر دکھائوں گا۔ ان میں سے ہر ایک رسوا ہوا۔ سرکارؐ کا فرمان ہے: زندگی ایک ایسی سواری ہے‘ جو اس پہ سوار نہ ہو سکے‘ زندگی اس پہ سوار ہو جاتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق کا چہرہ آنکھوں میں گھوم رہا ہے۔ اوّل اوّل ان سے ملاقات ہوئی تو سعد رفیق ہی کی عمر کے ہوں گے۔ تیوروں میں بے باکی اور تازگی، نجابت اور شرافت۔ آواز میں تکبر نہ التجا۔ اپنے فرزندوں کی طرح نکلتے ہوئے قد کا آدمی۔ گندم گوں چہرہ۔ رفتار میں استواری، انداز میں استقامت۔ اپنے لیڈر نواب زادہ نصراللہ خاں سے بات کر رہے ہوں یا کسی عام سیاسی کارکن یا اخبار نویس سے، لہجہ یکساں رہتا۔ سیاست میں جو چند غنی دیکھے، وہ ان میں سے ایک تھے۔ جماعتِ اسلامی کے میاں طفیل محمد اور صدیق الحسن گیلانی مرحوم۔ بعد کے ادوار میں کراچی کے میئر نعمت اللہ خاں۔ جس نے انہیں دیکھا، اس نے دیکھ لیا کہ بے ریا آدمی کیسا ہوتا ہے۔
کراچی کا ایک احمق سا صنعتکار تھا۔ ذہین اور طباع مگر لالچی۔ ہنر مند ایسا کہ از کارِ رفتہ بحری جہازوں کی مشینری کے پرانے کل پرزے جوڑ کر فلور مل کھڑی کر دیتا۔ حماقت اس نے یہ کی کہ ساتھ پڑی خالی زمین اپنی فیکٹری میں شامل کر لی۔ پریشان حال ایک دن آیا کہ وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم سے سفارش کرو، حکومت اب میرے درپے ہے۔ وہ بولے: بھائی، یہ نعمت اللہ خاں کا دائرۂ کار ہے ، وہ کسی کی نہیں سنتے۔
ناچیز کی بات سنی ہی نہیں، مان بھی لی۔ اس سے کہا: نیلامی کا اشتہار دوں گا۔ زمین کی پوری قیمت وصول کروں گا۔ وہ رو دیا: سرکار! ایم کیو ایم والے میرے دشمن ہیں، ٹانگ اڑائیں گے۔ اشتہار کسی چھوٹے سے اخبار میں دے دیجیے۔ کڑے لہجے میں خان صاحب نے کہا: اشتہار تو اسی اخبار میں دوں گا، جس میں ہارون الرشید کا کالم چھپتا ہے۔ رہی بلیک میلنگ کی بات تو اس کا بندوبست میں کر دوں گا۔ پوری قانونی کارروائی کے بعد بلدیہ کی مہر لگا دی۔
کراچی کا ترقیاتی بجٹ خان صاحب نے دو ارب روپے سے چالیس ارب پہ پہنچا دیا۔ ستر برس کا بوڑھا آدمی مگر چھٹی کا پورا دن تھر میں گزارتا۔ گاڑی میں نیند پوری کرتا۔ صحرا میں سینکڑوں کنویں کھدوائے۔ چرچا کیا، نہ داد مانگی۔ عمران خان کے وزیر کوئی لمحہ کمرے کے فرش پہ بیٹھ جائیں تو تصویر نشر فرماتے ہیں۔ ڈھابے میں چائے پی لیں تو احسان جتلاتے ہیں۔ دیکھو اے لوگو! کیسا عظیم کارنامہ ہم نے انجام دیا ہے۔
2002ء میں جماعتِ اسلامی کے ایک رہنما بس پہ سوار ہو کر پشاور سے لاہور پہنچے۔ اخبار نویسوں سے فرمائش کرتے رہے کہ ان پہ کالم لکھیں۔ فقر کی دنیا میں جنید ؒ و بایزیدؒ کے ہمسر ہو گئے۔ بایزیدؒ نے کہا تھا: مرد وہ نہیں جو جنت کی آرزو پالے۔ مرد وہ ہے، بہشتِ بریں جس کی تمنا کرے۔
اب ایسے لوگ مسلط ہیں، منہ پھاڑ کر جو کہتے ہیں، مدینہ ایسی ریاست ہم قائم کریں گے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے کبھی یہ دعویٰ نہ کیا۔ صلاح الدین ایوبی ؒ کو یہ جسارت نہ ہوئی، مغرب جس کی اخلاقی عظمت کا گیت گاتا ہے۔
خدا کے بندو، او خدا کے بندو۔ ریاستِ مدینہ کے دو عوامل تھے۔ اللہ کے آخری رسول رحمۃ للعالمینؐ اور ان کے اصحابِ کرام ؓ۔ وہ اب کہاں سے آئیں گے؟ یہی غنیمت ہے کہ کردار کشی کرنے والے لشکر پالنا چھوڑ دو۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے ''جس کا مقصود آخرت ہو، اللہ اس کے دل میں بے نیازی اگا دیتا ہے۔ اسے دل جمعی عطا کرتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ جس کا مقصود دنیا ہو، اللہ اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان رکھ دیتا ہے اور اس کی یکسوئی بکھیر دیتا ہے اور دنیا اس کو اتنی ہی ملتی ہے، جتنی اس کے مقدر میں ہے‘‘۔
زیاں بہت ہے۔ خدا کی کائنات میں زیاں بہت ہے۔ کیسے کیسے دیدہ ور، دلاور اور مدبر کم خوراکی کے شکار بچّوں کی طرح مٹی چاٹتے رہتے ہیں... مٹی!