آسمان دور ہے
اور اللہ بے نیاز ہے
مگر آسمان اتنا بھی دور نہیں
اور اللہ اتنا بھی بے نیاز نہیں
اچھے برے وقت آتے رہتے ہیں۔ملک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں۔ حالات گمبھیر ہیں اور مسائل پیچیدہ۔ دلدل سے نکلنے میں وقت لگے گا لیکن آخر کار وہ سویر لازماً انشاء اللہ طلوع ہوگی، مدتوں سے قوم کو جس کا انتظار ہے۔ شاعر نے کہا تھا؎
دیر کی معذرت سحر ہوں میں
مجھ کوپڑتی ہے رات رستے میں
جس برے حال میں آصف علی زرداری اور شریف خاندان ملک کو چھوڑ گئے‘ اس کا نتیجہ یہی ہونا تھا۔ اس پہ مستزاد عمران خان اور ان کی ناتجربہ کار ٹیم۔ احتجاج جس کے مزاج میں رچ بس گیا ہے۔ ہمہ وقت جو مخالفین کو کوستے رہتے ہیں۔ باتیں زیادہ، کام کم۔
وزیراعظم اور ان کے ساتھی دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ فواد چوہدری کو اگر سندھ جانا تھا۔ وزرائِ کرام اور پی ٹی آئی رہنمائوں کو اگر ایک سیاسی مہم سر کرنا تھی تو اس قدر شور شرابے کی ضرورت کیا تھی۔ گورنر کا کردار یہ ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت سے رہ و رسم رکھّے اور مرکز کو مطلع کرتا رہے ۔ وہ کیوں ملوث ہوئے اور وہ بھی علی الاعلان۔
عبدالعلیم خان کے تازہ بیان پہ غور کیجئے تو پوری بات سمجھ میں آتی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اورنج ٹرین ہر لحاظ سے عذاب ہے۔ بند رکھیں تو صرف ہونے والا سرمایہ برباد، چلائیں تو خسارہ ہی خسارہ۔ کیسے بے درد حکمرانوں سے پالا پڑا تھا۔
گرفتاری کے بعد خادمِ پنجاب سے پوچھا گیا کہ کوئلے کے مہنگے اور ماحولیات کے لیے تباہ کن بجلی پلانٹ لگانے کی بجائے، بھاشا ڈیم کیوں تعمیر نہ کیا۔ جواب ملا، اس میں چھ برس لگ جاتے، ایک برس پہلے ہماری حکومت تمام ہو جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ بھاشا ڈیم میں ہر سال پانی کا جو ذخیرہ جمع ہوگا اس کی مالیت 8 ارب ڈالر ہوگی۔ بجلی کے چار ہزار یونٹ اس کے سوا۔ سب جانتے ہیں کہ پن بجلی سستی بہت پڑتی ہے۔ غالباً زیادہ سے زیادہ تین چار روپے فی یونٹ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ڈیڑھ سال میں ڈیم پہ کی گئی سرمایہ کاری واپس آ جاتی۔ خود غرض اور خود پسند لوگوں کو مگر اس سے کیا۔ ان کی بلا سے ملک پہ کچھ بھی بیت جائے۔
بہ زیرِ شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگرانِ نہ خوردہ گزند را چہ خبر
شاخِ گل کے نیچے، سانپ نے بلبل کو ڈس لیا۔ جو محفوظ ومامون ہیں، انہیں اس سے کیا؟اقتدار کے نشے میں شریف خاندان اس قدر بدمست تھا کہ انہیں اس کے خاتمے کا اندیشہ ہی نہ تھا۔ نگران حکومت کے دور میں ایل ڈی اے کا ایک افسر فواد حسن فواد کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا تو شہباز شریف نے اسے دھمکی دی: تمہارا انجام اچھا نہ ہوگا۔
موصوف جس دن گرفتار کیے گئے‘ ان کا خیال تھا کہ ٹہلتے ہوئے جائیں گے اور ٹہلتے ہوئے لوٹ آئیں گے۔ کسی کی مجال کیا کہ ان پہ ہاتھ ڈالے۔ فواد کو انہوں نے پیغام بھیجا تھا: ڈٹے رہو، چیف سیکرٹری کا عہدہ تمہیں عطا کیا جائے گا۔ پکڑے گئے تو دس پندرہ منٹ تک سر پکڑ کر بیٹھے رہے۔
فواد حسن فواد گرفتار ہوئے تو دیر تک‘ حوالات میں ٹہلتے رہے۔ جلد ہی مگر ٹوٹ گئے۔ فوراً ہی یہ مؤقف اختیار کر لیا کہ جو کچھ انہوں نے کیا، شہباز شریف کے کہنے پر کیا۔ وہ راز بھی فاش کر دیئے، جن کے بارے میں پوچھا ہی نہ گیا تھا۔ مثلاً یہ کہا کہ بجلی کمپنیوں کو تین چار روپے فی یونٹ زائد ادا کئے گئے۔ قطر سے گیس کی خریداری میں اربوں ڈالر کا گھپلا ہوا۔
گیس کے معاہدے پر تو ملک بھر میں واویلا تھا۔ دنیا بھر میں نئے ذخائر منکشف ہو رہے تھے۔ شیل گیس کے انکشاف نے معاملے کی نوعیت ہی بدل ڈالی تھی۔ اس پر اتفاق رائے تھا کہ آئندہ برسوں میں قیمتیں کم ہوتی جائیں گی۔ اندازہ یہ تھا کہ ایک تہائی کم قیمت پہ خریداری ممکن ہے۔ نیب کے افسر اس دعوے کی تردید کرتے ہیں کہ سمجھوتہ دو حکومتوں کے درمیان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک کمپنی کا دوسری کمپنی کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ ہے۔ سلیقہ مندی سے کام لیا جائے تو قیمتوں کا از سر نو تعین شاید کچھ زیادہ مشکل نہ ہو۔
ان کے مطابق بجلی کمپنیوں نے دو اڑھائی عشروں میں سینکڑوں ارب روپے زائد وصول کئے ہیں۔ تحقیقات کا ابھی آغاز ہے۔ تاثر ان کا یہ ہے کہ باریک بینی سے اگر جائزہ لیا گیا تو ممکن ہے کہ 1300ارب روپے ادا ہی نہ کرنا پڑیں یا ان کا ایک معمولی سا حصہ واجب الادا ہو۔ ایک متعلقہ افسر سے میں نے کہا: یہ تو ملک کیلئے یومِ نجات ہوگا۔ اگر کسی دن آپ مجھے خبر دیں کہ صرف آدھی رقم ادا کرنا ہوگی تو صدقے کے سات بکرے میں آپ کے دفتر کے سامنے ذبح کروں گا۔
اسی سلسلے میں وہ پانچ سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کا ذکر کرتے ہیں۔ 2013ء میں شریف حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد، یکا یک ادا کر دیئے گئے۔ جائزہ لیے بغیر۔ اس میں سے کم از کم پچاس ساٹھ ارب روپے بچائے جا سکتے تھے۔ یہی بات رئوف کلاسرا ان دنوں کہتے رہے اور چیخ چیخ کر کہتے رہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ایک گہرا سیاہ راز ہے۔ اللہ جانے کبھی اس کی تحقیقات ہوگی یا نہیں ہوگی۔
ہوش مندی لازم ہے کہ سول سروس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ خوف زدہ سرکاری افسر ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اتنی ہی بڑی حقیقت مگر یہ ہے کہ نیب کی استعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ لوٹی ہوئی قومی دولت وہ واپس لا رہے ہیں۔ ان کی حوصلہ شکنی تو ہرگز نہ کرنی چاہئے۔
اور دوسرا شاہی خاندان، جناب آصف علی زرداری اور ہمنوا؟... کیا سندھ میں ان کے قدم جم گئے اور اس طرح وہ شکار کھیلتے رہیں گے؟ اس ناچیز کا تاثر مختلف ہے۔ مہلت انہیں ضرور ملی ہے مگر یہ مہلت محدود ہے۔ مکافاتِ عمل کے ابدی قانون میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ ہر جرم آخر کار بولتا اور واشگاف ہوتا ہے۔ یاس یگانہ چنگیزی نے کہا تھا؎
بڑھتے بڑھتے اپنی حد سے بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا ہو جائے گا
آنے والے کل کے بارے میں، یقین کے ساتھ کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ آدھی سے زیادہ کابینہ اور درجنوں اعلیٰ سرکاری افسر اگر قصور وار ہوں۔ ادارے تباہ کر دیئے گئے ہوں۔ واقعی کھربوں کی لوٹ مار اگر ہوئی تو اتنی گندگی قالین‘ کے نیچے کیونکر چھپائی جا سکے گی۔ منطق تو یہی کہتی ہے کہ آخر کار آئین کی دفعہ 235 کے تحت مالی ایمرجنسی کا اعلان ہوگا۔ صوبائی حکومت کو برطرف کرنا ہوگا۔ یہ صدرِ مملکت کا اختیار ہے‘ وزیراعظم کے مشورے پر جو بروئے کار آ سکتا ہے۔ دوسری صورت وہی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ مستعفی ہو جائیں۔ کوئی دوسرا ان کی جگہ لے۔ ایسی نئی کابینہ تشکیل دی جائے، لوٹ مار کا جس سے اندیشہ نہ ہو۔ جس خوفناک من مانی کے یہ لوگ مرتکب ہوئے، پیپلز پارٹی کی سیاست پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اعتزاز احسن، رضا ربانی، قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور حسین اسی طرح بڑھ چڑھ کر زرداری صاحب کی وکالت کریں۔ کیا اپنے مستقبل سے یکسر وہ بے نیاز ہو جائیں گے۔ کیا وہ عوامی نفرت کو دعوت دیں گے، جو پہلے ہی تین صوبوں میں ان کی بساط لپیٹ چکی۔
نہیں نہیں، شریف اور زرداری خاندان کی سیاسی قوّت بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اپنے کارناموں کا انہیں حساب دینا ہے۔
کوئی نہیں بچتا۔ آخر کو ہر ایک کا یومِ حساب آ کے رہتا ہے۔ رات کتنی ہی طویل ہو، آخر تمام ہوتی ہے۔
آسمان دور ہے
اور اللہ بے نیاز ہے
مگر آسمان اتنا بھی دور نہیں
اور اللہ اتنا بھی بے نیاز نہیں