سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا : رعایا یعنی زمینی حقائق تو بدلے نہیں جا سکتے۔ ضرورت پڑے تو حاکم بدل دینا چاہیے ۔ کپتان کے لیے یوٹرن تو یوں بھی کارِ ثواب ہے !نیکی اور پوچھ پوچھ؟
تاریخ کی سو عظیم ترین شخصیات میں انہیں شمار کیا گیا‘ یعنی بعض کے خیال میں سرکارؐ کے بعد سب سے بڑے منتظم ۔ علمی‘ انتظامی‘ عسکری اعتبار سے جینئس۔سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے :میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ابنِ خطاب ؓ ۔ڈاکٹر حمید اللہ نے گنوائے ہیں ‘چھبیس نئے سول ادارے ان کے عہد میں طلوع ہوئے ۔ سوشل سکیورٹی ان میں سے ایک ہے ۔ تیرہ سو برس کے بعد مغرب نے ‘جسے اپنایا اور پھل پھول رہا ہے ۔
نہیں بھائی‘ یہ کمپنی نہیں چل سکتی۔ وزارتوں میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ پنجاب اور پختون خوا کے وزرائِ اعلیٰ کو بھی رخصت کرنا ہوگا ۔ وفاق اور صوبوں میں وزراء کے قلم دان بدلنا ہوں گے ۔ گورنر چوہدری محمد سرور کو اسلام آباد بلایا جا سکتاہے ۔
خطا سے پاک کبھی کوئی نہ تھا۔ پیغمبرانِ عظامؑ کے سوا باقیوں کے باب میں قرآن کریم یہ کہتاہے کہ و ہ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ غلطیوں سے بچنے کی سعی کرتے ہیں ۔ خود پہ نگران رہتے ہیں ۔ بھٹک جائیں تو راہِ راست پہ لوٹ آتے ہیں ۔
قدرت کے قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مہلت دیتی ہے ۔ اجلے تو الگ خطاکاروں کو بھی ۔
ابرہام لنکن ایسے عظیم ترین مدبرین بھی قدم پیچھے ہٹا لیا کرتے۔ قائدِ اعظم بھی‘ جن کا شعار یہ تھا کہ سو بار سوچو ‘ فیصلہ کر لو تو ڈٹ جائو۔ اپنے عصر کے ذہین ترین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو بھی ۔
پی ٹی آئی سے حسنِ ظن رکھنے والے ایک گرامی قدر مدیر سے ابھی ابھی پوچھا: بزدار صاحب کیا آغازِ کارفرما سکیں گے ؟ جواب ملا : جی نہیں ‘ چھ ماہ تو میں یہی سمجھتا رہا‘ مگر اب نہیں ۔ نمل کالج میں خان کے خطاب کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ اتمامِ حجت تھا ۔ آخری بار بزدار صاحب کو جتلا دیا کہ پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ۔
سنا ہے ‘ سرپرستوں کا مشورہ بھی یہی ہے : کافی ہو چکا‘ بس کرو جی بس۔اگر ایسا ہے‘ توجی کا جانا ٹہر گیا ہے ‘ صبح گیا یا شام گیا۔
وزیرِ اعظم نے وزیر اعلیٰ کے اوصاف گنوائے۔ چوری نہیں کرتے‘ فضول خرچی کا ارتکاب نہیں کرتے‘ تکبّرسے پاک ہیں۔ بجا فرمایا‘ مگر ایک سوال ہے : معیار یہی ہے تو پنجاب میں کم از کم دس ہزار ایسے سیاسی کارکن موجود ہوں گے ۔ دوچار تو پنجاب اسمبلی کی پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی میں بھی ۔
جناب عثمان بزدار‘ علی بن عثمان ہجویریؒ کے ہم نفس تو نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ لاہور کے ایک معروف ایم پی اے جتنے ہی ایماندار ہیں ۔ پارٹی میں شامل ہوئے‘ چھوڑ گئے‘ پھر شامل ہوئے ۔ مشرف حکومت کے قہرمانوں سے بھی رہ و رسم رکھتے ۔ 2013ء میں اہم ترین ذمہ داری انہیں سونپی گئی ۔ خان صاحب کی سنتے ‘مگر شہباز شریف کو بھی ناراض کبھی نہ ہونے دیا۔
وفاقی کابینہ میں بھی تبدیلیاں درکار ہیں ۔ ظاہر ہے کہ آرا مختلف ہوں گی ۔ ایک زیادہ سنجیدہ ‘ بہت ہوشمند اور سلیقے سے غور و فکر کرنے والے لیڈر کی تجاویز یہ ہیں :
٭وزیرِ آبی وسائل واوڈا خوب ہیں ‘ برقرار رکھے جائیں ٭ شفقت محمود بھی زیبا ہیں ٭ وزیرِخزانہ اسد عمر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج کا چیئرمین بنا دیا جائے ٭تجارت کے وزیر رزاق دائود کو خون تھوکتی پی آئی اے دے دی جائے ٭منصوبہ بندی کے خوش چہرہ وزیر خسرو بختیار کو ثقافت کی نگہبانی سونپ دی جائے ٭اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے وزیر شہزاد اکبر کو بین الصوبائی رابطے کی ۔ ٭تیل و گیس کے وزیر غلام سرور خان کو امورِکشمیر کی وزارت سونپی جائے ٭فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب وزارتِ امورِ نوجوان کے لیے زیادہ موزوں ہیں ٭وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری ریلوے کے وزیر ٭شیخ رشید وزیرِ اطلاعات ٭چھ سات عشروں سے حماد اظہر کا خاندان سٹیل کے کاروبار سے وابستہ ہے ۔ پاکستان سٹیل مل کے چیئرمین بنا دیے جائیں ٭پنڈ دادنخان کے ساتھ نیا شہر بسانے کا فیصلہ ہو چکا۔ عمل درآمد کی ذمہ داری علیم خان کو سونپ دی جائے ۔لاہور ‘ ملتان ‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد‘ گجرات‘ ساہیوال ‘ بہاولپور ‘ رحیم یار خان ایسے قصبوں کے ساتھ نئے شہر بسانے کی ضرورت ہے ۔ علیم خان صاحب ان کی منصوبہ بندی کریں ٭میاں محمود الرشید اپنے منصب پہ برقرار رہیں ٭چوہدری سرور کی ضرورت وفاق میں ہے ۔ وہ شاہ محمود قریشی سے زیادہ نتیجہ خیز ہوں گے ۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر رہے ۔ سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کر سکتے ہیں ٭شاہ محمود قریشی کو ملتان کا مئیر بنا دیا جائے ٭مشیرِ حکمرانی ڈاکٹر عشرت حسین سے التجا کی جائے کہ وہ قائدِ اعظم یونیورسٹی یا لاہور کی LUMS یونیورسٹی میں نئی نسل کی تربیت کریں ٭عثمان بزدار کو پنجاب کو گورنر بنا دیا جائے ۔
نظام الملک طوسی کا شمار تاریخ کے بہترین وزرائِ اعظم میں ہوتا ہے ۔ ایسا دانا کہ دائم مثال دی جاتی رہے گی ۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا ‘ زبانِ حال سے گویا وہ یہ کہا کرتے : جہاں پناہ آپ کے تخت و تاج کا انحصار میری دوات کی سیاہی پر ہے ۔
امیر المومنین ہارون الرشید نے سب برمکہ کو سونپ دیا تھا ۔ وزیرِ اعظم یحییٰ برمکی تھے‘ مگر پورا خاندان مقتدر۔ اپنے عہد کی سپرپاور کا خزانہ ان کے رحم و کرم پر تھا ۔ ایک دن مگر وہ عتاب کا شکار ہوئے ۔ پورا خاندان قتل ہوا ۔ یہ اقتدار کی نفسیات ہے کہ وہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا چاہتا ہے ۔ مقتدر آدمی میں غلبے کی جبلت بہت طاقتور ہوتی ہے ۔ بلندی سے لڑھکائے برف کے گولہ کی طرح ‘ بہرحال وہ بڑھنے کو بے تاب ہوتا ہے ۔ آج کی دنیا مختلف ہے ۔ خزانے میں خرد برد ممکن ہے‘ مگر زیادہ سے زیادہ پاکستانی نیلسن منڈیلا اور قائدِ اعظم ثانی کی طرح ۔ یہ مسئلہ تبدیلی حکومت کو درپیش نہیں ۔ کوئی وزیر ایسا طاقتور نہیں کہ ہٹایا نہ جا سکے ‘ محکمہ اس کا بدلا نہ جا سکے۔ رہے بزدار صاحب تو گورنر ہائوس کیا ‘ تونسہ بھیج دیے جائیں ‘ تب بھی احتجاج نہ کریں گے ۔ سچے دل سے جنوبی پنجاب اور خود بزدار صاحب کی دلجوئی کا تقاضا؛ البتہ مختلف ہے ۔ بہت بے دردی کے ساتھ اکہتر برس سے یہ علاقہ نظر انداز ہے ۔ مشرقی جرمنی کی طرح اب بہتر سلوک کا حق دار ۔
یہ ایک مشکل اور پیچیدہ سوال ہے کہ پنجاب کا نیا وزیرِ اعلیٰ کون ہو ۔وسطی ہی کیوں‘ جنوبی پنجاب سے بھی ہو سکتاہے ۔ایسے آدمی کو بنانا چاہیے ‘ جو جنوبی پنجاب کی ترجیحی ترقی کے لیے خوش دلی سے کام کرے ۔ سپیکر‘ گورنر‘ وزیرِ اعظم کے قریبی دوست اور چیف سیکرٹری جسے چکمہ دیتے ہوئے دس بار سوچیں ۔
سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا : رعایا‘ یعنی زمینی حقائق تو بدلے نہیں جا سکتے۔ ضرورت پڑے تو حاکم بدل دینا چاہیے ۔ کپتان کے لیے یوٹرن تو یوں بھی کارِ ثواب ہے !نیکی اور پوچھ پوچھ؟
پسِ تحریر:بے چارے بزدار صاحب پہ اُن کی پارٹی کے چوہدری خواہ مخواہ نکتہ چینی کرتے ہیں۔ گورنر میاں محمد سرور‘ سپیکر جناب پرویز الٰہی‘ وزرا‘ جماعت کے عہدیدار اور پارلیمانی پارٹی کے نمایاں لوگ۔ عثمان بزدار نے وزیر اعلیٰ بننے کے لیے دباؤ ڈالا‘ سازش کی اور نہ درخواست۔ اچھا انتخاب ہے تو داد خان صاحب کوملنی چاہیے‘ ناقص ہے تو فریاد بھی انہی سے کی جانی چاہیے۔ مگر ایک بات محترم وزیر اعلیٰ کو بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ذمہ داری ہمیشہ اختیار کے ساتھ ہوتی ہے۔ اختیار نہ ہو تو ذمہ داری نہیں لینی چاہیے۔ اگر وزرا اور افسر ان اوپر سے مسلط ہوئے ‘ تو وزیر اعظم سے مطالبہ کرنے کا انہیں حق ہے کہ کم ازکم روزمرہ مداخلت نہ ہو۔