عارف کا کہنا یہ ہے: آخری زمانے کے فتنے ہیں، یہ آخری زمانے کے۔ فرمایا ''جو کچھ اس زمین پہ ہے‘ فنا ہونے والا ہے‘ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ عظمت اور بزرگی والا‘‘۔
علیم خاں کی گرفتاری سے سیاست ایک نیا موڑ نہیں بھی مڑی تو اس کے اثرات غیر معمولی ہوں گے ۔ تحریکِ انصاف سے غالباً یہ آخری گرفتاری نہیں ۔ نیب حکمران پارٹی کے دو تین اور لیڈروں پہ ہاتھ ڈال سکتی ہے ۔ اندازہ ہے کہ وزیرِ اعظم کو علیم خاں کے بارے میں نیب کی طرف سے پہلے ہی بتایا گیا ہو گا۔ کم از کم انٹیلی جنس ایجنسیوں نے۔
تیرہ برس ہوتے ہیں مجیب الرحمن شامی 2 زماں پارک میں حفیظ اللہ خاں سے ملنے آئے۔ خاکسار بھی تھا۔ انہوں نے کہا: خان کی سیاست کا آخری باب لکھا جا چکا ۔ ایک دن لہریں نگل جائیں گی۔ چوہدری پرویز الٰہی کا سورج نصف النہار پہ تھا۔ شامی صاحب ان کے مشیروں میں سے ایک تھے۔
اردو زبان کی تشکیل میں تاریخی کردار ادا کرنے والے اسد اللہ خاں غالبؔ نے کہا تھا : ہیولا برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا/ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ برہمی سے خاکسار نے عرض کیا : چوہدری احتیاط روا رکھیں ۔ ایک دن کپتان سے انہیں واسطہ پڑے گا۔
کوئی دن میں حفیظ اللہ نے فون کیا: لاہور کے مدیروں، کالم نگاروں اور ٹی وی میزبانوں کو عمران خاں سے ملاقات کے لیے مدعو کیا ہے، لاہور پہنچ جائو۔ اپنے عم زاد کے برعکس حفیظ اللہ خاں خوش دل اور پرجوش میزبان ہیں۔ انواع و اقسام کی دوسری نعمتوں کے علاوہ دریائے سندھ کی تازہ رہو مچھلی تھی، سالم۔ ان کا بنگالی باورچی شعبدے کیا کرتا۔ نعمت خانے میں شاعری کرتا۔
عمران خاں اس دن فارم میں تھے۔ ماحول کو گرما دیا ، چراغاں سا کر دیا۔ دوستانہ محفل اور رنگ پہ۔ لاہور کی محفل پھبتیوں سے سجتی ہے۔ حفیظ اللہ سے کہا: حکومت ملی تو ایک وزارت ہمارے حصے میں آئے گی۔ خوراک و زراعت سے آپ کو شغف ہے۔ آپ کی خدمت میں پیش کر دی جائے گی۔ بے باک آدمی نے فلک شگاف قہقہہ برسایا اور کہا: میرے بھائی کو تم جانتے نہیں ۔ کپتان بنتے ہی اپنے ہیرو ماجد خان کو اس نے برطرف کر دیا تھا۔ وزیرِ اعظم بنا تو وزارت کیسی ، ممکن ہے کہ اپنی ساکھ کے لیے مجھ ہی کو سولی پہ لٹکا دے۔
علیم خاں کس درجے کے قصوروار ہیں۔ فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ کسی کا خیال اگر یہ ہے کہ عمران خاں ان کی مدد کو آئیں گے تو ایں خیال است و محال است و جنوں۔ جرم و سزا کی دنیا کے شناور، عمران خاں کے مستقل اور معتبر مشیر نے کئی ماہ پہلے اس سے کہا تھا: احتساب کے عمل کو آبرومند کرنا ہے تو پی ٹی آئی کے کم از کم دو تین لیڈر قربان کرنا ہوں گے۔ شاید یہ پہلی قربانی ہے۔
وزیرِ اعظم کی سیاسی بصیرت پہ کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ کوشش وہ پوری کریں گے کہ سیاسی فائدہ اٹھائیں۔ خود کو صلاح الدین ایوبی بنا کر پیش کریں۔ جن کے نرغے میں ہیں، ان میں دانا کم اور ناداں زیادہ ہیں۔ ممکن ہے پورا فائدہ اٹھا نہ سکیں۔ لاہور میں اپنے میزبان اور سرمایہ کار کی گرفتاری پہ صدمہ انہیں ہرگز نہ ہو گا۔ امام رضا کی پراسرار شہادت کے باب میں ابو الکلام نے کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ سیاست کی آنکھ میں حیا بھی کہاں ہوتی ہے؟ کارِ سیاست میں یوں بھی یہ بد لحاظی اور بے حیائی کا موسم ہے۔
اہم یا غیر اہم، معاملے کا یہ ایک پہلو ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سڑے بسے پارلیمانی نظام میں سیاسی پارٹیاں کروڑ پتیوں کی آب رسانی سے چلتی ہیں۔ چھوٹے سے ایک جزیرے کا نام برطانیۂ عظمیٰ ہے‘ جہاں ایک خاص سانچے میں ڈھلی اینگلو سیکسن اقوام سانس لیتی ہیں۔ اس دیار کے سوا پارلیمانی نظام دنیا کے کسی خطے میں کبھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکا ۔ صدارتی نظام اور چھوٹے صوبوں کی بات ہو تو الزام سہنا پڑتا ہے۔ اس تصور کو اسٹیبلشمنٹ کا بچہ کہا جاتا ہے؛ با ایں ہمہ، جب تک یہ نظام قائم ہے، سیاست زرداروں کی رہے گی، اسٹیبلشمنٹ کی رہے گی اور فریب کاروں کی۔ معاشرے کا کچرا گلزار کہلائے گا اور گلستان کو ویرانہ کہا جائے گا۔ نیم قبائلی ، نیم سرمایہ دارانہ، نیم جاگیردارانہ یہ معاشرہ سرپرستی اور سرپرستوں کا معاشرہ ہے، تمیزِ بندہ و آقا۔ عدل کی اس میں کیا مجال، انصاف کا یہاں کیا کام۔
ابھی ابھی جاتی امرا سے اطلاع ملی کہ سامان باندھا جا رہا ہے۔ ممکن ہے، محض اس امید پر کہ قانون کرم فرما ہو گا۔ لاہور کے ڈاکٹر تنویر قائدِ اعظم کی بیماری کا راز رکھنے والے معالج کی طرح ضابطۂ اخلاق کے پابند کہے جاتے ہیں۔ تین ہفتے قبل انہوں نے مریض کا معائنہ کیا اور کہہ دیا تھا کہ حالت اچھی نہیں۔ اصول بتا دیا تھا کہ بیمار کو مرضی کے معالج سے علاج کا حق ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرضی کے معالج برطانیہ عظمیٰ میں پائے جاتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف کو لندن جانے کی اجازت مل سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو مظلومیت کا موثر ہتھیار کند ہو جائے گا۔ ترس کھانے والے شاید طعنہ زنی پہ اتر آئیں ۔ آنے والا کل کیا لائے گا، یہ صرف وہ جانتا ہے، جس نے آدمی کو پیدا کیا، جسے نیند اور اونگھ نہیں آتی۔ تاریک غاروں میں جو چیونٹیوں کے قدموں کی آواز اور انسانی خیالات کی سرسراہٹ سنتا ہے۔ ہم اندازے قائم کرتے ہیں ، جو درست ہوتے ہیں اور نا درست بھی۔ نواز شریف کی ہمت مرجھا گئی تو خاندان کی سیاست پہ بھی خزاں اترے گی۔ تقدیر بگڑ جائے تو ٹائی ٹینک بھی ڈوب جاتے ہیں۔ پھر زرداری رہ جائیں گے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کمزور تر ہوں گے۔ ہر بونے والے کو اپنا بویا کاٹنا ہوتا ہے۔ انہیں بھی کاٹنا ہے۔ سبھی کو کاٹنا ہے۔ انہیں بھی اخبار کی سیاہی اور سکرین کی روشنی میں جن کے نام لب پہ نہیں آتے۔ وہ کھرب پتی بھی ، جو خیالات خرید سکتے ہیں۔ سموچا آدمی نگل جاتے ہیں ۔ قبیلوں کے قبیلے جن کے سامنے سپر انداز ہوتے ہیں۔ زبانِ حال سے جو یہ کہتے ہیں:
ان کی محنت بھی مری، حاصلِ محنت بھی مرا
ان کے بازو بھی مرے، قوّتِ بازو بھی مری
میں خداوند ہوں اس وسعتِ بے پایاں کا
موجِ عارض بھی مری، نکہتِ گیسو بھی مری
امریکہ اور اشرف غنی نے ماسکو مذاکرات کا بائیکاٹ کیا۔ طالبان ، کرزئی اور حکمت یار کے نمائندے موجود تھے۔ امریکہ بہادر چاہتا یہ ہے کہ کم از کم دو تین ہزار فوجی اپنے باقی رکھے۔ اس کے حواری شریکِ اقتدار ہوں۔ کھربوں کھربوں ڈالر کی معدنیات چینی اٹھا نہ لے جائیں۔ پڑوسی روس عظمتِ رفتہ کی بحالی چاہتا ہے۔ امریکیوں نے جان لیا ہے کہ پاکستان کے بغیر خطے میں ان کی بات بنے گی نہیں؛ لہٰذا ایک بار پھر پیار کی پینگیں ہیں۔ طالبان بڑا فریق ہیں‘ مگر واحد نہیں‘ وسطی افغانستان میں تاتاری ہیں، جن کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا: ہے یاں یورشِ تاتار کے افسانے سے/ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔ ایران ان کے ساتھ ہے۔ شمال میں ترکمان ہیں، استنبول کے سائے میں۔ حکمت یار بھی ایک مؤثر فریق ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آنے والا کل کیا لائے گا؟
تخم بوئے جا چکے۔ پاکستان اب ویسا نہیں رہے گا۔ اگرچہ نائن الیون جیسا واقعہ نہیں مگر دنیا بھی اب ویسی نہ رہے گی۔
عہدِ آخر کے بارے میں اللہ کے آخری پیغمبرﷺ کے فرامین میں سے ایک کا خلاصہ یہ ہے: سال مہینوں کی مانند، مہینے دنوں کی طرح اور دن چولہے میں جلتے تنکوں کی طرح گزرتے جائیں گے۔ کلجگ ہے یہ کلجگ۔ شاید وہ دن اب چند عشروں کی مسافت پہ ہے، جب صور پھونکا جائے گا، ستارے بجھ جائیں گے اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے۔ عارف کا کہنا یہ ہے: آخری زمانے کے فتنے ہیں، یہ آخری زمانے کے۔ فرمایا ''جو کچھ اس زمین پہ ہے‘ فنا ہونے والا ہے‘ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ‘ عظمت اور بزرگی والا‘‘۔