طاقت کے خمار میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت حماقت کا ارتکاب کر بیٹھی ہے ، قیمت بھی وہی چکائے گی ۔
بعض کا اصرار یہ ہے کہ بھارتی جارحیت کا فوراً اور بھرپور جواب دیا جائے ۔ ایسا جواب جو دشمن کو ذہنی طور پرپسپا اور پوری طرح خوف زدہ کر دے ۔فوجی ترجمان کے جواب سے ان کی تشفی ہوجانی چاہیے تھی کہ پاکستان اپنے منتخب مقام اور وقت پر کارروائی کرے گا ۔ ہم مگر ایک ہنگامہ پسند قوم ہیں۔
آٹھ نو دہائیوں سے بھارت میں ایسی تحریکیں کارفرما ہیں جو سات سو برس کی غلامی کا انتقام مسلمانوں سے لینا چاہتی ہیں ۔ جن کا اندازِ فکر یہ ہے کہ اوّل تو مسلمان مسلمان نہ رہیں ورنہ کم از کم ثقافتی طور پر اپنے بنیادی عقائد سے دستبردار ہو جائیں ۔خاص طور پر بھارت میں بسنے والے بیس کروڑ ۔ پاکستان ایک خودمختار ریاست نہ رہے ۔سکّم ،بھوٹان اور بنگلہ دیش کی طرح ذیلی ریاست بن جائے ۔
اطلاع یہ ہے کہ بھارتی طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود میں گھس کر جو میزائل نیم پہاڑی علاقے میں فائر کیے ، وہ اسرائیلی ساختہ تھے ۔ہلاکتوں کے دعوے مضحکہ خیز ہیں۔یہ بات جلد ہی واضح ہو جائے گی، جب پاکستانی اور غیر ملکی اخبار نویس آزادی سے علاقے میں گھومے پھریں گے ۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران تل ابیب اور دہلی میں قریبی مراسم استوار ہوئے ۔ کشمیری مظاہرین پر چھرّے برساتی پیلٹ گنیں بھی اسرائیلی ہیں ۔
امریکہ اسرائیل کا تزویراتی حلیف ہے ۔ پلوامہ کا حملہ ایک کشمیری نوجوان نے کیا مگر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے بہت دور کہیں سمندر پار بیٹھے ہوں ۔ تین عشروں کی بے ہنگم پالیسیوں اور لوٹ مار کا شکار پاکستان اقتصادی بحالی کی جنگ میں مصروف ہے ۔ 2008ء سے 2019ء تک ، جمہوری حکومتوں کے ادوار میں غیر ملکی قرض 6ہزار ارب روپے سے 30ہزار ارب تک جا پہنچا ہے ، پانچ گنا ۔پاکستانی معیشت یرغمال ہے ۔ اس لیے کہ صحت مند بنیادوں پہ استوار نہیں۔ ساٹھ سے ستّر فیصد کالی ہے ۔ سرکاری خزانے میں براہِ راست جس کا کوئی حصہ نہیں پہنچتا۔ باقی ماندہ بھی مجبوراً ہی ادائیگی کرتے ہیں ۔کہا جاتاہے کہ ایک ہزار کے لگ بھگ ٹیکس دہندگان ہیں ، پوری ادائیگی جو کرتے ہیں ۔
ایسی صورتِ حال میں پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کسی مہم جوئی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ظاہر ہے کہ بھارتی یہ بات جانتے ہیں اور امریکہ بھی ۔ بھارتیوں نے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا تو قابلِ فہم ۔ ہمیشہ وہ یہی کرتے ہیں ۔ اب تو نریندر مودی کو الیکشن جیتنے کیلئے بھی جذبات بھڑکانے کی ضرورت ہے ۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ صدر ٹرمپ نے بھی شتابی سے ان کی تائید کی ۔
امریکیوں کا مسئلہ کچھ اور ہے ۔ پاکستان کی امداد واشنگٹن نے بند کر رکھی ہے ۔ اس کے باوجود کہ افغانستان سے با عزت پسپائی کے لیے پاکستان کی امریکیوں کو ضرورت ہے ، کسی طرح انکل سام کو گوارا نہیں کہ سی پیک کے ذریعے ممکنہ اقتصادی بحالی کے ساتھ ، پاکستان رفتہ رفتہ ایک خودمختار ریاست ہو جائے ۔ یہ وسطی ایشیا کا دروازہ ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ کے پہلو میں کھڑا ہے ۔ ایران ، چین اور بھارت ایسے اہم ممالک کا ہمسایہ ۔ اسلام آباد کی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی بالادستی قائم نہ ہو سکے ۔ افغانستان پھر سے ایک بفر سٹیٹ بن جائے ۔ ایران پر دبائو کم ہو جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ علاقے میں چینی اثر و رسوخ میں اضافہ ہو ۔ چین ہی امریکہ کا سب سے بڑا دردِ سر ہے ۔ ہزاروں برس کے بعد جو پھر سے ایک عالمی طاقت بن کے ابھر رہا ہے ۔ ہزاروں برس کے بعد جو اپنی سرحدوں سے باہر نکلا ہے اور پانچوں برّاعظموں میں جس کا رسوخ پھیل رہا ہے ۔
امریکیوں کی خواہش یہ دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان کو ایک بڑا جھٹکا لگے ۔ اس کی معیشت زمیں بوس ہو جائے اور وہ پھر سے ان کی گود میں جا گرے ۔
یہ نہیں ہو سکتا، اب یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا ۔ تاریخ کے تیور یہ لگتے ہیں کہ پاکستان کاوجود تحلیل ہو جائے گا یا وہ ایک مکمل طور پر خودمختار ریاست بنے گا۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں ۔تمام قرائن یہ ہیں کہ آزمائش وقتی ہے۔ پاکستان ایک طاقتور ریاست بن کے ابھرے گا ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معاشی اعتبار سے بھارت اب ایک بڑی طاقت ہے۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی ۔ دنیا کی ایک بہت بڑی منڈی ۔تیس پینتیس کروڑ کی نئی مڈل کلاس اور 7فیصد شرح ِ ترقی ۔ مقابلے میں پاکستان ایک مقروض اور مجبور ملک ہے ۔ ٹیکس وصولی کی شرح جو جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں سولہ فیصد تھی ، گرتے گرتے آٹھ فیصد کو آن پہنچی ہے ۔ دس بلین ڈالر ہر سال ملک سے فرار ہو جاتے ہیں ۔ ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ مالداروں کے مفادات کا نگہبان ہے اور اپنے افسروں کی بہیمانہ بے حسی کا شکار ۔
عسکری محاذ پر اصل حقیقت مگر یہ ہے کہ چھ لاکھ کی چھ لاکھ پاکستانی فوج جنگی تجربات سے گزر کر صیقل ہو چکی ۔ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ اس نے جیت لی ہے ۔کراچی میں بھارتی ایجنٹوں کا صفایا ہو چکا یا وہ تاریک تہہ خانوں میں چھپے ہیں ۔ بلوچستان میں بھارتی سرپرستی میں بروئے کار تخریب کار تھک چکے۔ پختون خوا کی قبائلی پٹی میں بھی ، جہاں افغان خفیہ ایجنسی خاد ، بھارتی ''را ‘‘ کی مددگار ہے۔
اتنی ہی بڑی حقیقت یہ ہے کہ امریکی افغانستان میں نڈھال ہو کر واپس جا رہے ہیں ۔ آبرومندانہ واپسی کے لیے انہیں پاکستان کی مدد درکار ہے ۔
ایک سنگین حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارت کی تقریباً پوری فوج مقبوضہ کشمیر کے سردمیدانوں میں بے نقاب ہو چکی ۔ حوصلے اس کے پست ہیں اورانڈیا ٹوڈے کے مطابق سو سے زیادہ خودکشی کے واقعات ہر سال ہوتے ہیں ۔وہ کوئی بڑی یا طویل جنگ لڑنے کے قابل نہیں ۔
بر ّصغیر کی اقوام جنگوں ، زلزلوں اور سیلابوں کو سہنے کی عادی رہی ہیں لیکن بھارتی ارب پتی نمرود اور ایک ہزار برس کے بعد خوش حالی سے متمع ہوتی مڈل کلاس فلاکت کی تاب نہیں لا سکتی ...نہیں ، کوئی بڑی اور بھرپور جنگ نہیں ہوگی ۔ اس لیے بھی کہ یہ دو ایٹمی طاقتیں ہیں ۔ اس لیے بھی کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام بھارت سے بہتر ہے ۔ اس لیے بھی کہ پاکستانی فوج بھارتی فوج سے بدرجہا بہتر ہے ۔ سب سے بڑھ کر اس لیے کہ پاکستان کا فوجی موت کو خوشی سے گلے لگا سکتاہے ، بھارتی فوجی موت کے خوف کے ساتھ میدان میں اترتا ہے ۔ ہندو کی نفسیات ہمیشہ سے یہ ہے کہ تب وہ پہل کرتاہے ، جب فتح کا اسے یقین ہو ۔
ایک کے بعد وہ دوسری شرارت اب بھی کر سکتے ہیں ۔نو دولتیوں کو خوشحالی کا خمار چین نہیں لینے دے گا۔ آزاد کشمیر ان کا اوّلین ہدف ہو سکتاہے مگر راستے میں پہاڑ کھڑے ہیں اور آبادیاں چھدری ہیں ۔ لاہور اور سیالکوٹ ان کے پسندیدہ ہدف ہیں یا راجستھان کا ریگ زار ۔ پاکستان میں اسی کو تھر کہا جاتاہے ۔ یہاںزیادہ تر ہندو آبادی ہے اوربکھری ہوئی۔ کراچی میں اپنے خوابیدہ گروپوں (Sleeping Cells)کو وہ بیدار کر سکتے ہیں ۔ ایم آئی سکس اور سی آئی اے ان کی مدد کرنے کے لیے بے تاب ہوں گی ۔ زمینی حقائق اور وقت کا دھارا مگر ان کے حق میں نہیں ۔
پاکستانی عوام ، فوج اور سیاسی قیادت نے خوفزدہ ہونے سے انکار کر دیا ہے ۔ اپوزیشن حماقت کی مرتکب نہیںہو سکتی ۔ سیاست کی مچھلی عوامی احساسات کے پانیوں ہی میں زندہ رہ سکتی ہے ۔ باقی این جی اوز کے بھاڑے کے ٹٹو رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ کیا بھاڑ جھونکیں گے ۔زیادہ اچھلے تو عوامی نفرت کا شکار ہوں گے ۔
طاقت کے خمار میں بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت حماقت کا ارتکاب کر بیٹھی ہے ، قیمت بھی وہی چکائے گی ۔