لینن کے رفیق ٹراٹسکی نے کہا تھا: ہم جنگ کے آرزومند ہوں یا نہ ہوں‘ جنگ ہمارے دروازے پر دستک دینے کی آرزومند ہوتی ہے۔
کیا جنگ کا خطرہ مکمل طور پہ ٹل چکا؟ کیا یہ جشن منانے کا وقت ہے؟
سولہویں صدی کے برصغیر میں مغل جم چکے تھے‘ ترکی میں سلیمان ذی شان ‘ ایران میں بابر کو ہرانے والے‘ شیبانی خان کو مات دے کراسمعٰیل صفوی تخت پہ براجمان۔ یورپ ادبار اور انتشار میں تھا۔ تب مسلمانوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب انہیں کبھی کوئی شکست نہ دے سکے گا۔
یہ زوال کا آغاز تھا۔
جب کوئی خود پہ ناز کرتا ہے تو اول اس میںعُجب پیدا ہوتا ہے‘ زعم میں ڈھلتا ہے۔ آخر کو تکبرّ ۔ تکبرّ کا لازمی نتیجہ خود فریبی ہے۔
خود فریبی سے بڑا کوئی دھوکہ نہیں۔
بھارت کے باب میں ہمارا اندازِ فکر کبھی نفرت کا رہا‘ کبھی فاتحانہ جلال کے ساتھ خود فریبی کا۔1948 اور1965 میں ہماری فتح ادھوری تھی۔ اس کے باوجود جشن منایا اور دشمن کو حقیر سمجھنے لگے۔ دشمن کو کمتر کبھی نہ سمجھنا چاہئے۔کامرانی کے جلال نے ہمیں دیوار سے لگا دیا۔ چار عشروں سے وہیں کھڑے ہیں۔
زندگی میں دم لینے کی مہلت ہوتی ہے‘ مگر لامحدود نہیں۔ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کے بعد عروج ممکن ہے۔ معرکہ آرائی کے مطلوب تقاضوں پہ اگر توجہ رہے۔
دو عدد بھارتی طیارے گرانے کے بعد مسلسل ہم جشن منا رہے ہیں۔ بالاکوٹ پر حملے کے باب میں بھارتی قیادت کے دعوے جھوٹے ثابت ہونے کے بعد‘ ابھینندن کی رہائی کے بعد‘ہندوستان میں اپوزیشن اور سول سوسائٹی کی طرف سے نریندر مودی پہ یلغار کے بعد‘ خود کو یقین دلانے میں مصروف ہیں کہ وہ پسپا ہو چکے۔ اب وہ جرأت و جسارت کا ارتکاب نہ کریں گے۔
ویت نامی فاتح ہوچی منہ کی ایک نظم کا ترجمہ فیض احمد فیضؔ کے دیوان میں شامل ہے۔ ایک شعر‘ اس کا یہ ہے:
اب کوئی جنگ نہ ہوگی نہ کوئی شاہسوار
صبح دم موت کی وادی کو روانہ ہوگا
احمقوں کی بات دوسری ہے۔ بھاڑے کے ٹٹوئوں کا مشن ہی یہ ہے کہ بھارت کوامن پسند ثابت کیا جائے۔ حیلے بہانے سے کرم چند موہن داس گاندھی کے گیت گائے جائیں۔ حیلے بہانے سے نہرو کو امن کا علمبردار ثابت کیا جائے۔
یہ گاندھی جی تھے‘ وزیرستان کی سرحد پہ ‘ جنہوں نے کہا تھا: بھارت کی حدود بامیان تک ہے‘ وسطی افغانستان تک۔
یہ جواہر لعل نہرو تھے‘ جنہوں نے کشمیر پہ قبضہ کیا۔ وہی تھے جنہوں نے کہا تھا: شبنم کے قطروں کی مانند‘ سورج کی اولین کرنوں کی طرح‘ پاکستان تحلیل ہو جائیگا۔
قیام پاکستان سے بہت پہلے‘ شدھی کی تحریک اٹھی ۔ ہدف اس کا مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ بھارت میں ایک نہیں کئی انتہا پسند تنظیمیں ہیں۔ سب سے نمایاں راشٹریہ سیوک سنگھ۔ ملک بھر میں‘ جس کی ساٹھ ہزار شاخیں قائم ہیں۔ اس کے وابستگان کو مارشل آرٹس کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہندو طلبہ کیلئے وہ صحافت‘ اور سول سروس کے اسباق کا اہتمام کرتی ہے۔ اس کے سکھائے پڑھائے پولیس‘ نوکر شاہی‘ الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں بڑی تعداد میں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود حکومت انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ ذہنی تشکیل کے مہ و سال یعنی اوائل عمری میں نریندر مودی‘ آر ایس ایس کے ممبر تھے۔ حریص آدمی کو کاروباری اداروں کی تائید حاصل ہے۔ یہ تائید گجرات میں مسلمانوں کے قتل ِعام کے بعد ملی۔
کون سی چیز ہمیں قائل کرتی ہے کہ بھارت نے پاکستان کو مان لیا ہے؟ امریکی اور یورپی سرپرستی میں کارفرما این جی اوز کو چھوڑیے۔ وہ معاوضہ پاتی ہیں۔ ان لوگوں کی آسودہ زندگیوں کی بنیاد یہی ہے۔
سب سے اہم پہلو ہماری عافیت پسندی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ ابھی تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ محدود تعداد میں ہی سہی‘ ایک آدھ نہیں‘ ایسے کئی گروہ موجود ہیں‘ تعصبات کا زہر جن کی رگ رگ میں ہے۔ چالاک دشمن ذہنوں میں امکانات کاشت کرتا اور سرپرستی فرماتا ہے۔ صرف بھارت نہیں‘ امریکہ بہادر بھی۔ سوشل میڈیا پر منظور پشتین کی پارٹی کے سرگرم حامیوں میں‘ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سبکدوش افسر شامل ہیں۔
بالاکوٹ کے جنگل میں بمباری سے پہلے بھی‘ ہم حالت ِجنگ میں تھے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند وں اور قبائلی پٹی سے باہر نکل کر‘ شہروں میں‘ مزاروں‘ مارکیٹوں اور امام بارگاہوں پہ خودکش حملے کرنے والوں کا پشت پناہ کون تھا؟ امریکی سیّارے سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ افغان سرزمین سے بلوچستان میں داخل ہونے والوں کو کیوں نہیں؟
ہمیں حالتِ جنگ میں رہنا ہے‘ جب تک ہماری عسکری قوت بھارت کے برابر نہ ہو جائے۔ نہیںہو سکتی‘ جب تک کہ ہم اپنی معیشت کو جدید خطوط پہ استوار نہ کر یں۔ سیاسی استحکام کے بغیر یہ ناممکن ہے۔ بدقسمتی سے اس کا ادراک نون لیگ کو تھا‘ زرداری صاحب اور نہ نوبل انعام کے تمنائی عمران خان صاحب مدظلہ العالیٰ کو۔ اقتدار کا نشہ اعصاب میں گھل جائے تو حاصل کرنے اور حکومت بچانے کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
سامنے کی بات یہ ہے: امریکہ بھارت کا تزویراتی حلیف ہے اور اب اسرائیل بھی۔ خطے میں اس کی حتمی ترجیح یہ ہے کہ بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنایا جائے۔ بڑھتے پھیلتے چین کو بہرحال روک دیا جائے۔ اس لئے کہ یہ عظیم اقتصادی قوت ‘ بتدریج انکل سام سے زیادہ بارسوخ ہو سکتی ہے۔عالمی طاقتوں کی برتری محض عسکری نہیں ہوتی بلکہ مالیاتی اور ذرائع ابلاغ کی بھی۔ دنیا بھر میں لین دین ڈالرمیں ہوتا ہے‘ اس لیے کہ پیچھے ایک سپرپاور کھڑی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو؟اگر سی این این ‘ بی بی سی‘ نیویارک ٹائمز اورواشنگٹن پوسٹ پشت پناہی کے لئے بروئے کار نہ ہوں؟ اگر آئی ایم ایف اور عالمی بینک پہ اجارہ داری نہ رہے؟ اگر اسلحہ سازی میں ریاست ہائے متحدہ کا غلبہ باقی نہ رہے؟ اگر دنیا بھر میں اس کی افواج متمکن اور سمندروں میں اس کے بحری بیڑے رواں نہ ہوں؟ امریکی معاشی قوت شاید آدھی سے بھی کم رہ جائے۔
تیسری دنیا کے وسائل کی لوٹ مار کے قابل نہ رہے۔
جی نہیں‘ امریکہ دنیا کی تھانیداری سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ دنیا بھر کی صنعت و تجارت میں اس کا عمل دخل تمام ہوگا تو کمزور ممالک رہائی پانے والے پرندوں کی طرح اڑ جائیں گے۔ سیاست‘ بالخصوص عالمی سیاست کو اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اقوام کے باہمی تعلقات میں طاقت ہی واحد ترازو ہے‘ ہر چیز جس میں تلتی ہے‘ اخلاق بھی‘ اقدار بھی‘ نفع اور نقصان بھی۔ اے زر تو خدا نیست ولے۔ستّار العیوب و قاضی الحجات ۔افلاس شیر کولومڑی بنا دیتا ہے۔
ابھینندن کی رہائی کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ بھارت میں تقسیم نے جنم لیا۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ امریکہ اپنے سو سالہ غلبے اور بھارت اپنے عزائم سے دستبردار ہو جائے گا۔ واشنگٹن کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ کوئی دوسری عالمی طاقت ابھرنے نہ پائے۔ سویت یونین کی تباہی کے لئے تبھی اتنی تگ و تاز تھی۔ چین کو روکنے کے لئے آسٹریلیا‘ برطانیہ اور تائیوان سمیت کئی ممالک اس کے ہم نفس ہیں۔ خود کو بھارت ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت سمجھتا ہے۔ امریکی اس کے ہم نوا اور سر پرست ہیں۔ ادھر چین پاکستان کو اپنے حلقۂ اثر میں لانے پر تلا ہے۔ سی پیک کی بنیاد یہی ہے۔ یہ جسارت معاف کیسے کی جا سکتی ہے؟ اسی خاطر بھارت کے لئے اسرائیلی ٹیکنالوجی کے دروازے کھلے ہیں۔ خود اسرائیل‘ پاکستان کو سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔عالم اسلام میں ایٹمی پروگرام اور کون رکھتا ہے؟ حجاز مقدس کو خطرہ لاحق ہو تو اورکون اس کی حفاظت کے لئے اٹھے گا؟
بھارت میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان پر یلغار کے لئے یہ بہترین وقت ہے۔ اس لئے کہ معاشی طور پہ وہ زبوں حال ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ جنگ کا امکان کم ہے‘ مگر ایسا بھی کم نہیں کہ پکنک منانے بیٹھ جائیں۔
لینن کے رفیق ٹراٹسکی نے کہا تھا: ہم جنگ کے آرزومند ہوں یا نہ ہوں‘ جنگ ہمارے دروازے پر دستک دینے کی آرزومند ہوتی ہے۔