مقام و مرتبے کا تعین تو وقت ہی کرے گا۔اس میں البتہ کلام نہیں کہ ندیم بھابھہ نے اپنی جھولی فیاض بادشاہوں کے سامنے پھیلائی ہے۔
اخلاص عمل مانگ نیاگان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
ضلع وہاڑی کے قصبے میلسی کے ایک گائوں دِلّو میں حضرت ابو بکر وراقؒ کا مزار واقع ہے۔ تین صدیاں ہوتی ہیں، اورنگ زیب عالمگیر نے اس پہ ایک مختصر مگر خیرہ کن حد تک پر جمال عمارت تعمیر کرادی تھی۔ جواں سال بھابھہ کی حویلی اس گائوں کے پہلو میں آباد ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر وراقؒ تبع تابعین میں سے ایک تھے۔ مدینہ منورہ یا دمشق سے نکلے۔ منزلوں پہ منزلیں مارتے ، ہند کے اس بت کدے میں پہنچے۔ اس بیاباں میں قیام فرمایا اور مدّتوں اجالا کیے رکھّا۔ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ نے ان کا ذکر ''کشف المحجوب‘‘ میں کیا ہے۔ نہایت ہی محبت اور عقیدت کے ساتھ۔ آپ شاعر بھی تھے۔ مختلف تاریخی کتب میں اس شاعری کے حوالے موجود ہیں۔دیوان کاالبتہ کوئی سراغ نہیں ملتا۔بھابھہ کا خاندان صدیوں سے، اس نادرِ روزگار ہستی کا خدمت گزار ہے۔
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں ازغیب جانِ دیگر است
اب اس میں تعجب کیا کہ ندیم بھابھہ کی آواز میں صوفی کی صدا سنائی دیتی ہے۔ وہ آدمی‘ جو تب وتاب کیلئے عہدِ عالمگیری کے عارف سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی طرف دیکھتا ہے‘ دیکھتا رہتا ہے۔یہ اس کے کلام کا سرسری سا انتخاب ہے۔
ہاتھ اٹھایا تھا ستاروں کو پکڑنے کے لیے
چرخ نے چاند کو خنجر کی طرح تان لیا
.........
ہمیں تو پہلے بھی تم سے گلہ نہیں تھا کوئی
اور اب کے ہے بھی تو ہم بے زبان اب بھی ہیں
.........
زمیں کا آخری حصہ ہیں آنکھیں
جہاں انسان آکر ڈوبتا ہے
.........
کھجوروں کے درختوں سے بھی اونچا
مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا
.........
مری پہلی کمائی ہے محبت
محبت جو تمھیں میں دے چکا ہوں
.........
بھی تو پہلے سپاہی نے جان دی تجھ پر
تو غم نہ کر کہ مرا خاندان باقی ہے
.........
بنا تو لی ہے محبت کی سلطنت میں نے
نہ جانے کس کو خدا حکمرانی دیتا ہے
.........
فصیل چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیمؔ
کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں
.........
وہم و گماں کے لوگ تھے وہم و گماں میں ہی رہے
دیکھا تو کوئی بھی نہ تھا سوچا تو شہر بھر گیا
.........
یہ تری گفتگو کا لمحہ ہے
اس گھڑی ہے مرا خدا مرے پاس
.........
تجھے کچھ وقت چاہئے مری جان
وقت ہی تو نہیں بچا مرے پاس
.........
مجھے نواز کوئی ہجر سے بھرا ہوا عشق
میں وہ فقیر ہوں جس کی طلب اداسی ہے
عشق نہیں نبھا سکا ہجر نبھا رہا ہوں میں
دیکھ خراب ہوں مگر پورا خراب بھی نہیں
.........
میں وقت سے پہلے آگیا ہوں
یہ وقت ابھی میرا نہیں ہے
.........
انگلیاں پھیر میرے بالوں میں
یہ مرا دردِ سر نہیں جاتا
.........
یوں لگا ہوں ترے گلے سے میں
جس طرح کوئی ڈر نہیں جاتا
.........
ہم کسی زعم میں ناراض ہوئے ہیں تجھ سے
ہم کسی بات پہ اوقات سے نکلے ہوئے ہیں
.........
صحن بھی اس کے پاؤں کو ترسے
اب توقع نہیں کوئی گھر سے
.........
مسئلہ لوگ جمع کرنا ہے
راہ مل جائے گی سمندر سے
.........
ذہین لوگو!تمہارے فریب ہم تک ہیں
ہمارے بعد کے سارے تمھیں سمجھتے ہیں
.........
کیسے کنگن گھمایا جاتا ہے
اس کلائی نے وقت سے سیکھا
.........
یہ پھول پھول نہیں ہیں ہماری دعائیں ہیں
تری ہتھیلی پہ کھل جائیں گے وگرنہ نہیں
.........
ہمیں تو چھوڑو کہ ہم اس جہاں کے ہیں ہی نہیں
سوال یہ ہے تمھارے تمھیں سمجھتے ہیں؟؟؟
.........
ملے بغیر کبھی رد ہمیں نہیں کرنا
کئی حجاب بغل گیر ہو کے کھلتے ہیں
.........
تمھیں یہ کس نے کہا ہے کہ ہم بندھے ہوئے ہیں
ہمارے پاؤں تو زنجیر ہو کے کھلتے ہیں
.........
ابھی تو کھال ادھڑنی ہے اس تماشے میں
ابھی دھمال میں جوگی نے سانس ہارا ہے
.........
اسی لیے تو کھلا قافیہ رکھا ہم نے
کھلی زمین میں ہونا بھی چاہیے اس کو
تمھیں بحریں پسند آئیں ہمیں لہروں پہ چلنا تھا
تم اپنا شعر کہتے تھے ہم اپنی بات رکھتے تھے
.........
تمام جنگیں اسی کی خاطر لڑی گئی ہیں
اور اب وہ ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے زمین سی ہے
ندیم بھابھہ میں روایتی شعر بھی ملتے ہیں۔ مگر اردو زبان کے شایدوہ پہلے شاعر ہیں‘ جن کا کلام ٹھیک اس طرح تصوّف کے آب ِحیات میں گندھا ہے‘ جیسے پنجابی کے اہل عظمت کا۔وہ جو ادبی بالیدگی سے زیادہ روشنی کی تمنا میں پڑھے جاتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا :
اخلاص عمل مانگ نیاگان کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را
رفتگا ں سے رہنمائی کی التجا کر۔ بادشاہوں کو فقیر کی جھولی بھرنے میں کیا تامل؟ مقام و مرتبے کا تعین تو وقت ہی کرے گا۔اس میں البتہ کلام نہیں کہ ندیم بھابھہ نے اپنی جھولی فیاض بادشاہوں کے سامنے پھیلائی ہے۔