یہ چینی مفکر کنفیوشس سے منسوب ہے، جو افلاطون، ارسطو اور سقراط سے بڑھ کر چاہا گیا: تغیّر و تبدّل ہی مستقل سچائی ہے۔ اس کرّۂ خاک پہ دائمی صداقت!
کچھ ملاقاتیں مریم نواز نے خاموشی سے کیں، ظاہر ہے کسی خاص مقصد کے لیے۔ ایک ملاقات بلاول بھٹو کرنے والے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف سے۔
بلاول کا ارادہ آشکار ہے۔ ملک کو وہ ممکنہ حکمران کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ زرداری صاحب پیچھے ہٹتے جائیں تو بلاول کا کردار بڑھتا جائے گا۔ والدِ گرامی کی بدن بولی سے لگتا ہے کہ اس امر کا انہوں نے ارادہ کر لیا۔ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔
پچھلے دنوں کسی سے ملنے گئے تو چائے کی پیالی دونوں ہاتھوںسے اٹھانے کی سعی کی۔ پہلی دو کوششیں ناکام رہیں۔ خیر خواہ کو ترس آیا اور اس نے پوچھا: آپ کی عمر کتنی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ 64 برس۔ رنج کے ساتھ اس نے کہا: آپ کی عمر کے کئی لوگوں نے پیسہ آپ سے زیادہ کمایا۔ بھلے چنگے ہیں۔ کھیلتے کھاتے ہوئے۔ آپ نے اپنے ساتھ کیا کیا؟
آصف علی زرداری کو محمد علی کلے والا مرض لاحق نہیں، پارکنسن قطعی نہیں۔ رعشہ ہے اور غالباً وجوہ نفسیاتی ہیں۔ دل دھوکہ دے چکا۔ ذیابیطس بڑھ گئی ہے۔ بلند فشارِ خون اس کے سوا ہے۔ احساسِ جرم ان سب پہ مستزاد۔ چلنے پھرنے بلکہ اٹھنے بیٹھنے میں بھی دشواری کا سامنا۔ جہاں تک ممکن ہو، دھیرج سے چلتے ہیں۔ ٹی وی والوں سے کہا جاتا ہے کہ مہربانی فرمائیں، معذوری نمایاں کرنے سے گریز کریں۔
آدمی اتنا ہی آسودہ یا نا آسودہ ہوتا ہے، جتنا وہ فطرت سے ہم آہنگ ہو یا متصادم۔ دولت کے انبار سمیٹ لیے۔ صحت خریدی نہیں جا سکتی، جسمانی اور نہ ہی نفسیاتی۔ آدمی اپنے ماضی کا یرغمال ہوتا ہے۔ ماضی کبھی گزرتا ہی نہیں بلکہ وہ ماضی ہوتا ہی نہیں۔ آدمی کے باطن میں برقرار رہتا ہے۔ لو دیتا ہے یا اذیت پہنچاتا رہتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تیس ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین، اپنے عہدِ اقتدار میں خریدی، سندھ میں۔ کراچی کے درجنوں مکانات اس کے سوا ہیں۔ برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی شاہانہ جاگیریں مستزاد۔ اب قارون ایسی دولت کا وہ کیا کریں گے؟
دیکھا میں قصرِ فریدوں کے در اوپر اک شخص
حلقہ زن ہو کے پکارا کوئی یاں ہے کہ نہیں ہے
آدم زاد کا اثاثہ ہی اس کا بوجھ ہوتا ہے۔ جن مشکلات اور آزمائشوں کو وہ مصیبت سمجھتا ہے، گاہے، وہی اس کا سرمایہ ہو جاتی ہیں۔ بھٹی سے گزر کر سونا کندن بنتا ہے۔
ہے ''حیات‘‘ اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
''جس چیز کو اپنے لیے تم برا سمجھتے ہو کبھی اسی میں تمہارے لیے خیر پوشیدہ ہوتا ہے۔ جس چیز کو تم اچھا سمجھتے ہو، کبھی اس میں تمہارے لیے ہلاکت کا سامان ہوتا ہے‘‘۔
حالت میاں محمد نواز شریف کی بھی اچھی نہیں۔ بے شمار نفسیاتی پیچیدگیاں ہیں۔ ان کی سابق رفیق محترمہ ماروی میمن نے سوال کیا ہے کہ میاں صاحب اپنا علاج کراتے کیوں نہیں؟ دوسرے یہ کہ ان کا خاندان انہیں اس پر آمادہ کیوں نہ کر سکا؟ مزید یہ کہ خود حکومت انہیں علاج پہ مجبور کیوں نہیں کرتی۔ حکومت سے سوال یہ بھی ہے کہ انہیں برطانیہ میں علاج کرانے کی اجازت کیوں نہیں؟ چند روز میں شاید اس سوال کا جواب مل جائے۔ کئی با خبر بہت وثوق سے کہتے ہیں کہ جلد ہی سمندر پار وہ شادماں ہوں گے۔ وہ با خبر، جو رسائی رکھتے ہیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے اطلاع ملی کہ ساز و سامان سے لیس ایک ویگن کوٹ لکھپت جیل کے احاطے میں کھڑی رہے گی۔ خدانخواستہ حالت بگڑے تو فوراً ہی طبّی امداد دے دی جائے۔ کل سے شیخ رشید کا لہجہ بھی بدلا بدلا ہے۔ ادب سے ان کا نام لیتے رہے۔ ''میاں نواز شریف صاحب‘‘۔
میاں صاحب دل کے پرانے مریض ہیں۔ دو بار آپریشن ہو چکا۔ سدا کے خوش خوراک ہیں؛ لہٰذا یکے بعد دیگرے عوارض میں مبتلا ہوتے رہے۔ لاہوریوں کا محاورہ یہ ہے: مرنا تو مقدر ہے۔ کھاتے پیتے اٹھنا چاہئے۔ بلڈ پریشر ہے، گردے خراب ہیں۔ زرداری صاحب کی طرح شوگر میں بھی مبتلا۔ آخری معاملہ اگرچہ بہت سنگین نہیں۔
سنگین ترین مسئلہ ذہنی دبائو کا ہے۔ اسی کے نتیجے میں یادداشت متاثر ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ حالت اور بھی پتلی ہوتی جا رہی ہے۔ خرابی اندازِ فکر کی ہے۔ بچپن کے چند برسوں کے سوا، مالی اعتبار سے خشک سالی کا سامنا کبھی ہوا نہیں۔ گوال منڈی میں ہوش سنبھالا۔ لاہور کو دنیا میں کولیسٹرول کا مرکز کہنا چاہئے Cholesterol capital of the world۔ گوالمنڈی لاہوری ''کھابوں‘‘ کا محور ہے، نتیجہ ظاہر۔ شوگر کے باوجود حلوہ کھاتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین کا معمول بھی یہی ہے۔
ایک مرض اکثر لیڈروں کو لاحق ہوتا ہے، اپنی برگزیدگی کا احساس۔ اس گمان میں مبتلا کہ دوسروں سے وہ افضل ہیں، مختلف ہیں۔ عام نہیں، وہ خاص لوگ ہیں؛ لہٰذا ان کے ساتھ برتائو بھی خاص چاہئے۔ اسی سے وہ پیچیدگی پیدا ہوتی ہے، جس کا علاج کوئی نہیں۔ جب تک مریض کو خود ادراک نہ ہو۔ جب تک اپنے آپ سے برسرِ جنگ ہونے پر تل نہ جائے۔ اصول تو یہ ہے: جن کے رتبے ہیں، رسوائی ان کو سوا مشکل ہے۔ پاکستانی اشرافیہ انوکھی ہے۔ وہ میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو کی قائل ہے۔ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے، دودھ پینے والے مجنوں۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بااندازہِ رعنائی کر
خود پسندی کا حجاب ہولناک ہوتا ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ یہی پسِ منظر ہے، جس میں نواز شریف کہتے ہیں، محترمہ مریم نواز کہتی ہیں، شہباز شریف کہتے ...اور حواریوں کا ٹولہ کورس میں گاتا ہے۔ ''تین بار وزیر اعظم‘‘... او خدا کے بندو حکمرانوں کے لیے قدرت کے قوانین کیا مختلف ہوتے ہیں؟ لیڈر تو وہ ہے، جو زیادہ سخت جان، زیادہ ایثار کیش ہو۔ 1937ء سے اپنی وفات تک قائد اعظمؒ ٹی بی کے جراثیم جھیلتے رہے۔ شکایت کیا، ذکر تک نہ کرتے۔
پاکستانی لیڈروں میں سے اکثر خود ترسی کے مریض ہیں۔ جناب شہباز شریف کینسر میں مبتلا رہے۔ خیر سے شفایاب ہوئے۔ کمر میں خرابی ہے؛ اگرچہ بڑھتی تب ہے، جب اقتدار سے محروم ہو جائیں۔ اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ نچلّے بیٹھ نہیں سکتے۔ بظاہر بہت بلند ہمت، باطن میں نحیف۔ پہل کار دکھائی دیتے ہیں، حالاں کہ عدم تحفظ کا احساس ان کی رگ رگ میں ہے۔ جتنا کہ برصغیر کے کسی بھی عام آدمی میں... اور یاد رہے کہ یہ تمیزِبندہ و آقا کا معاشرہ واقع ہوا ہے۔ بھائی وزیراعظم ہوں تو شیر بن جاتے ہیں، ورنہ وہی آدمی کے آدمی۔
خان صاحب کا خواب یہ تھا کہ اپنے سب حریفوں کو مقّید رکھیں۔ نواز شریف پکڑے گئے۔ زرداری صاحب پہ کچّے دھاگے سے بندھی تلوار لٹک رہی ہے۔ محترمہ مریم نواز کے بارے میں بعض کا تاثر یہ ہے کہ مستقبل ان کا روشن ہے۔ تضاد ان کا یہ ہے، غیظ و غضب کا شکار رہتی ہیں۔ سیاست ٹھنڈے سر والوں کا ہنر ہے۔
محسوس یہ ہوتا ہے کہ افق پر نئے لیڈر نمودار ہوں گے، شاید اگلے دو تین برس میں۔ اتر سے دکھن اور دکھن سے اتر کو بہنے والی ہوائوں پہ جو گیت لکھا ہے، دھیرے دھیرے اجاگر ہوتا جائے گا۔ پھر نغمہ بنے گا۔ آخر کو رجز ہو جائے گا‘ آخر کار نئے پرچم لہرائیں گے۔ 2019ء کا موسم خزاں، شاید کوئی پیغام لائے۔ شاید کوئی پیامبر بھی آئے۔
بے نظیر نثر نگار، قراۃ العین حیدر نے لکھّا تھا: ابدیت سفر کو ہے، مسافر کو نہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
جو تھا، نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا، یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی اسی کا مشتاق ہے زمانہ
یہ چینی مفکر کنفیوشس سے منسوب ہے‘ جو افلاطون ، ارسطو اور سقراط سے بڑھ کر چاہا گیا: تغیّر و تبدّل ہی مستقل سچائی ہے۔ اس کرّۂ خاک پہ دائمی صداقت!