کبھی نہیں بدلتے‘ قوانین قدرت کبھی نہیں بدلتے۔ چالیس ہزار برس کے تجربے میںحکومت کا جو ادارہ وجود میں آیا ہے‘اصلاح کی گنجائش تو ہمیشہ اس میں ہوتی ہے‘ تجربات کی ہمیشہ نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ لیڈر لے سکتا ہے‘ کوئی قو م یوٹرن کبھی نہیں لیتی۔وزیراعظم کے خطاب نے حیرت زدہ کر دیا۔ ابھی تک وہ اس گمان میں ہیں کہ ان کی سمت درست‘ بالکل درست ہے۔دعویٰ یہ ہے کہ وہ بانیانِ پاکستان کے افکار کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہ کہ ان کی تگ و تاز کا محور افتادگانِ خاک ہیں۔ 50 لاکھ مکان نچلے طبقے کے لئے وہ تعمیر کریں گے۔ چالیس صنعتیں جس سے جی اٹھیں گی۔ایک کروڑ نوکریاں تخلیق کریں گے۔
میاں محمد خالد حسین نے سنایا تھا: جدہ کے ایک سوئمنگ پول میں ایک موٹا سا آدمی کھڑا تھا۔ اس جگہ جہاں کمسن بچوں کے لئے خوش وقتی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے بڑے جب تیراکی میں مصروف ہوں‘ پانی اچھالتے وہ خوش و خرم رہیں۔ گنے کا رس پی رہا اور پوچھتا تھا: سنا ہے کہ تیراکی سے موٹاپا جاتا رہتا ہے۔ایک کروڑ ملازمتیں سہانا سپنا ہے ۔ موجودہ نوکریاں برقرار رہیں ۔دس بارہ لاکھ کا اضافہ ہو جائے تو غنیمت ہو گا۔پچاس لاکھ مکان تو بہت دور کی بات ہے‘ دس لاکھ چھتیں فراہم کر دیں تو یہ ایک کارنامہ ہو گا۔یہ وہ خواب ہیں کہ دن کی روشنی میں دیکھے جاتے ہیں اور کبھی تعبیر نہیں پاتے۔سرسید احمد خان کی وفات پہ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:؎
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں‘ سید کام کرتا تھا
مت بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
سرسید احمد خان کی فکر سے تقریباً سبھی مکاتبِ فکر کو اختلاف رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود علی گڑھ یونیورسٹی میں ان کے افکار کی پذیرائی نہ ہو سکی۔ یکسروہ غیر متعلق رہی۔ مگر جو بوٹا آپ نے گاڑا تھا‘ وقت گزرنے کے ساتھ تناور ہوتا گیا۔ ان کی پیروی میں‘ مسلم برصغیر بروئے کار آیا۔ بتدریج سارے ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ دوچار‘ پھر درجنوں‘ رفتہ رفتہ سینکڑوں۔ ان میں سے ایک‘ اسلامیہ کالج لاہور سے اقبالؔ کا بھی تعلق رہا۔ ہر برس اس کی سالانہ تقریب میں اپنی تازہ شاہکار نظم وہ سنایا کرتے۔
آج کے پاکستان میں ایک آدھ نہیں‘ درجنوں ایسے ادارے ہیں‘ جن کے دم قدم سے ہزاروں سکولوں اور کالجوں میں لاکھوں بچے مفت تعلیم پا تے ہیں۔ عمارتیں؛ اگرچہ پرشکوہ نہیں ‘مگر تعلیم کا معیار‘ سرکاری سکولوں سے بدرجہا بہتر ۔ بعض تو ایسے کہ بڑے نام والے سکولوں کے مقابل رکھے جا سکتے ہیں۔ ایک آدھ تو لاہور کے ایچی سن کالج سے بھی بہتر ہے۔ خاص طور پہ ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم اور اب ڈاکٹر امجد ثاقب کے قائم کردہ کالج۔ اعلیٰ درجے کی تدریس ہی نہیں‘ اخلاقی تربیت کا بھی اہتمام ہے۔ قصور میں قائم کردہ اخوت کالج میں ملک کے تمام صوبوں کے علاوہ کشمیر‘ گلگت‘ بلتستان اور قبائلی پٹی سمیت سبھی کی نمائندگی ہے۔ غیر مسلم طلبہ کی بھی۔اتنے ہی وہ آسودہ ہیں‘ جتنے کہ دوسرے۔ نہ صرف تعلیم بلکہ درسی کتب‘ لباس‘ کھانا اور رہائش بھی مفت۔ عزت نفس کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان سے مہمانوں کا سا برتائو کیا جاتا ہے۔ نظم و ضبط میں؛ اگرچہ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی‘ بلکہ فوجی اکیڈمیوں جیسا ڈسپلن۔
پرسوں پرلے روز ڈاکٹر صاحب ملے تو قدرے پریشان تھے۔ ملال سے زیادہ‘ اس پہ حیرت ہوئی۔اس لیے کہ اللہ کے شکرگزار بندے ہیں۔ شکوہ پالتے ہی نہیں۔ خود ترسی چھو کر نہیں گزری۔ کسی کے وہ حریف نہیں۔ اللہ کی ساری مخلوق کے خدمت گزار۔ اپنے ہنر اور کمائی کے باب میں اہل خیر بھی تھوڑے سے جزرس اکثر ہوتے ہیں۔ اللہ کے اس بندے میں یہ چھوٹا سا عیب بھی نہیں۔ عوامی بہبود اور خدمت کے میدان میں جو اترنا چاہیں‘ خوش دلی سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ منتظمین اور کارکنوں کے لئے ماہرین کے ذریعے تربیت کا اہتمام۔ غیر ذمہ دار اخبارات نے گاہے کردارکشی کی سعی کی۔ حرفِ شکایت زبان پر لائے ہی نہیں۔؎
ہم بھی وہاں موجود تھے‘ ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم چپ رہے‘ ہم ہنس دئیے‘ منظور تھا پردہ ترا
دشمنی تو کیا حسد سے بھی واقف نہیں۔ بادوستاں تلطّف بادشمناں مدارا۔
'' اخوت ‘‘کو پنجاب حکومت پریشان کر رہی ہے۔غالباًدو ارب روپے سالانہ صوبائی حکومت انہیں دیا کرتی ہے۔ اس کی اقساط مل رہی ہیں‘ مگر انتظامی اخراجات نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی کا نام نہ لیا۔ بس یہ کہا: اللہ جانے اب کیا ہوگا۔
اللہ جانے پتھر دلوں کا کیا ہوگا؟
حاجیوں کا مال کھانے والوں کا کیا ہوا تھا؟ زرداری صاحب آج کل دکھی ہیں‘ پوچھتے ہیں روزنامہ دنیا کے کالم نگار کو سب کچھ کس نے بتا دیا؟ بچے بچے کی زبان پر کہانیاں ہیں۔ جو اخبار نویس ان سے ملتے ہیں‘ اپنی آنکھیں گھر چھوڑ کر نہیں جاتے۔ کراچی میں ان کے حواری سب کچھ اگل دیتے ہیں۔ ؎
دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا‘ تصویر دکھا ڈالی
یہی حال شریف خاندان کے حاشیہ نشینوں کا ہے۔ چائے کی پیالی کے ساتھ شفقت روا رکھی جائے تو کہانی کہنے لگتے ہیں۔؎
تو ذرا چھیڑ تو دے‘ تشنۂ مضراب ہے ساز
نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لئے
حکمران خود کو دھوکہ دینے کے عادی ہوا کرتے ہیں۔ خیالات کی دنیا میں بہشت بریں تعمیر کرتے ہیں۔ اس میں قیام فرما ہو جاتے اور گمان کرنے لگتے ہیں کہ دائم اس فردوس میں جلوہ گر رہیں گے۔ خوشامدیوں کے گھیرے میں‘ صداقت کی ایک کرن بھی ان تک پہنچ نہیں پاتی؛ اگر مقبول ہوں‘ جیسا کہ آج کل خان صاحب ہیں تو افتاد اور زیادہ۔ امیزون کے افریقی جنگلوں کی طرح‘ زمین پر روشنی کا دھبہ تک نہیں اترتا۔ نعیم الحق نے بعض بہترین لوگوں کے نام سرکاری تمغوں کی فہرست سے کاٹ دئیے۔ خان صاحب کے خیر خواہوں اور مددگاروں کے۔ اس لئے کہ ان کی خدمت میں وہ حاضر نہ ہوئے۔ اہل دربار کے کارناموں کی قیمت حکمران کو چکانا پڑتی ہے۔
ایک لاکھ کے لگ بھگ درخواستیں اخوت کے صدر دفتر میں پڑی ہیں۔ اس لئے کہ ملک کا سب سے زیادہ قابل اعتماد فلاحی ادارہ ہے۔ اس لئے کہ حکومت نے عوامی مکانات کے لئے پانچ ارب ان کے سپرد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ادھر حال یہ ہے کہ حکام مہر بہ لب ہیں‘ سیکرٹریٹ خاموش۔؎
نہ سوالِ وصل نہ عرضِ غم نہ حکایتیں نہ شکایتیں
تیرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
نوے دن میں کرپشن کی تدفین کا اعلان کرنیوالے خان صاحب کو ادراک ہی نہیں کہ یہ صدیوں کا ملبہ ہے۔اعلانات اور دعوئوں سے نہیں‘ یہ ایک نظام کار‘ ایک Mechanism‘ تشکیل دینے سے تحلیل ہوگا‘ دھیرے دھیرے‘ رفتہ رفتہ‘ بتدریج۔
ادراک ہی نہیں کہ پنجاب میں پولیس اصلاحات روک کر کیسا ستم ڈھایا ہے۔ پٹوار ویسی کی ویسی۔ افسر شاہی بددلی کا شکار یا چالاکی پہ تلی ہوئی۔ وزراء کرام کی اکثریت کاروبارِ سرکار کے تانے بانے سے آشنا ہی نہیں۔ پولیس کچھ اور بگڑ گئی۔
رہی ان کی مالیاتی ٹیم تو اللہ کے فضل سے‘ تقریباً ساری کی ساری کم کوش۔ صرف ایف بی آر ہی نہیں‘ نوکر پیشہ برقرار رہیں‘ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک سمیت سبھی کے اکثر چاکر بدلنا ہوں گے۔ بدلنا پڑیں گے‘ وگرنہ ایک کہانی رہ جائے گی۔ شیکسپیئر کی تقلید میں یونانی المیے کی داستانوں ایسی ایک اور داستان‘ کبھی کوئی لکھے گا۔ سننے ‘ پڑھنے اور دیکھنے والوں کو خون کے آنسو رلائے گا۔؎
حسرتیں دل کی مجسم نہیں ہونے پاتیں
خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے
کبھی نہیں بدلتے‘ قوانین قدرت کبھی نہیں بدلتے۔ چالیس ہزار برس کے تجربے میںحکومت کا جو ادارہ وجود میں آیا ہے‘اصلاح کی گنجائش تو ہمیشہ اس میں ہوتی ہے‘ تجربات کی ہمیشہ نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ لیڈر لے سکتا ہے‘ کوئی قو م یوٹرن کبھی نہیں لیتی۔
پس تحریر: بلاول بھٹوپہ انکشاف ہوا ہے کہ اچانک میاں محمد نواز شریف نظریاتی ہو گئے۔لاہور کے کچھ اخبار نویسوں کو کشف ہوا ہے کہ جس لیڈر کے دستر خوان پہ رونق زیادہ ہو‘ اس کے اعصاب آہنی ہوتے ہیں۔