عمران خان ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر کا ذکر بہت کرتے ہیں۔ خلوت میسر ہو تو خود سے کبھی پوچھنا چاہیے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر متذبذب اور منقسم وہ ٹیپو سلطان ہیں یا بہادر شاہ ظفر؟
المیہ یہ نہیں ہوتا کہ مصیبت آن پڑے۔ المیہ یہ ہے کہ ہاتھ پائوں پھول جائیں۔ بہترین لوگ بھی آزمائے جاتے ہیں۔ کبھی کسی قوم کو جنگ آ لے تو رستے بستے شہر کھنڈر۔ ملک مگر لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں۔
اصل دکھ شاید بد امنی، مہنگائی اور بے روزگاری بھی نہیں بلکہ مستقل قائم رہنے والا مخمصہ۔ کوئی سمت ہی نہیں؛ چنانچہ حکمتِ عملی بھی نہیں۔ ایسے میں کاروبارِ حکومت پہ سرکار کی گرفت کا سوا ل کیا۔
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
زندگی ہمیشہ سوال اٹھاتی اور جواب طلب کرتی ہے۔ حیرت انگیز تنوّع اور دائم کشمکش میں برپا مسلسل اور متواتر تضادات آشکار کرتی رہتی ہے۔ ان پہ سوچنا پڑتا ہے، چھٹکارا پانا ہوتا ہے۔ تمام جستجو کا محور یہ ہوتا ہے کہ صداقت کو پا لیا جائے، سینے سے لگا لیا جائے۔ آمنّا و صدقنا کہا جائے۔ اگر ایسا نہیں، گندگی اگر قالین کے نیچے چھپا دی جائے گی تو زندگی لاڑکانہ کی گلیوں جیسی ہو جائے گی۔ تحریکِ انصا ف کی حکومت جیسی۔
نور برستا رہا، قلب و دماغ کی تاریکیاں علم اور حسنِ عمل کے نور سے دھلتی رہیں۔ یہ عہد سرکارؐ کا تھا۔ پھر ہماری تاریخ کا سنہری دور کون سا رہا؟ سیّدنا فاروقِ اعظمؓ کا؟ بارہ برس کی حکومت میں پانچ سال قحط کے۔ ایسا قحط کہ کم خوراکی سے چہرے زرد ہوئے۔ ایک نڈھال سی بچّی کو دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون ہے؟ آپ کو بتایا گیا: آپ کی پوتی ہے امیر المومنین!
یروشلم کو روانہ ہوئے تو ایک اونٹ اور ایک غلام۔ ابھی چند عشرے پہلے سفر قافلوں کی صورت میں کیا جاتا۔ ابھی چودہ برس پہلے ختم المرسلینؐ کے وصال پر، تین شہروں کے سوا ہر بستی میں بغاوت تھی۔ مدینہ منوّرہ اور طائف کے سوا، کبھی جہاں اوباشوں کی سنگ باری سے پیمبرؐ کی ایڑیوں تک خون گرا تھا۔
گل رنگ زمیں خونِ پیمبرؐ سے ہوئی تھی
طائف کا بڑا نام ہے تاریخِ وفا میں
قبائلی وحشت لوٹ آئی۔ نوّے فیصد آبادی نے عہدِ جاہلیت کی بے رحمی و بے باکی سے منوّر قوانین کی مقدس طنابیں توڑ ڈالیں۔ زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا۔ نو تشکیل ریاست نے جواب میں کیا کیا؟ دھیمے، بردبار، مہربان اور مشفق خلیفہ الرسولؐ جناب ابو بکر صدیقؓ نے کہا: خدا کی قسم اونٹ کی ایک رسّی بھی چھوڑوں گا نہیں۔
یہ ہوتا ہے لیڈر، لیڈر کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ امیر المومنینؓ اب یروشلم جاتے تھے۔ پیش خیمہ اور نہ کوئی محافظ دستہ۔ قانون کا خوف اس قدر گہرا تھا کہ سہم کر جرم زمین سے چمٹ گیا تھا۔ دلوں اور دماغوں کے کھنڈرات میں جا چھپا تھا۔
یہ ہوتی ہے ریاست۔ اس صلابت سے بروئے کار آتی ہے۔ اس طرح اپنی ہیبت افق تا بہ افق پھیلا دیتی ہے۔
پوری آزادی اور پورا ڈسپلن۔ سر سے پائوں تک قانون کے پابند۔ مگر عام لوگ بھی کُرتے کے بارے میں سوال کرتے۔ کبھی کوئی پڑوسی پوچھتا: کل شب آپ بلند آواز سے بولے کیوں؟ میری نیند کیوں خراب کی؟ کامریڈ اسد عمر ارشاد کرتے رہے کہ ٹیکس دینا ہو گا، کاروبار ورنہ بند۔ اب فرماتے ہیں، ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو بھی خرید و فروخت کی پوری آزادی ہو گی۔ علی محمد خاں نے ٹی وی کیمروں کے سامنے کہا: کالے دھن والے اپنا دھن گھروں کو لے جائیں۔ ریاست اب گڑگڑا رہی ہے، خدا کے لیے اپنا سرمایہ باہر نکالو، خدا کے لیے۔
یہ جلیل القدر رہنما، انقلاب کے یہ عظیم علم بردار ایک نئی دنیا کا خواب جنہوں نے دیکھا اور دکھایا‘ اب چوراہے پر ششدر کھڑے ہیں۔ کھڑے کہاں ہیں، پڑے ہوئے ہیں۔ التجا کرتا ہے، دستِ نا رسا رحم کی بھیک مانگتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کے خلاف وزیرِ اعظم کی شمشیر خاراشگاف بے نیام ہے۔ ناغہ ہو جائے تو طبیعت نا آسودہ مگر ایک عالی مرتبت وفاقی وزیر؟ ساٹھ کروڑ روپے کے اثاثے سو ارب میں کیسے ڈھلے۔ پیتل سونا کیسے ہو گیا۔ اشرفیاں ہیرے بن گئیں۔ بابر اعوان سے استعفیٰ، علیم خان اندھی دیواروں کے پیچھے، مذکورہ وفاقی وزیر کے ہاتھ میں کون سا ہنر ہے؟ پشاور کی میٹرو بس میں سات ارب روپے کا گھپلا کرنے والے آزاد ہیں۔
ڈرتی ہے، یہ حکومت ہر ایک سے ڈرتی ہے۔ یہ مخمصے، تذبذب اور دبدھا کی حکومت ہے۔ مدارس سے خوف زدہ کہ مولانا فضل الرحمن پگڑیوں اور عماموں کا لشکر لے کر چڑھ دوڑیں گے۔ اساتذہ اور ڈاکٹروں سے ڈرتی ہے۔ ضلع لاہور میں سالانہ امتحان کے نتائج شرمناک ہیں۔ کیا کسی سے پوچھ گچھ ہو گی؟ اکثر کا خیال ہے کہ نہیں ہو گی۔ اپنے ہی ارکانِ اسمبلی سے حکومت خوفزدہ ہے، اپنے حلیفوں سے۔ سیالکوٹ میں ایک پٹواری کے تقرر پہ تنازعہ اٹھا۔ صوبائی حکومت حل نہ کر سکی۔ معاملہ نعیم الحق کی خدمت میں پیش کیا گیا، منصفِ اعلیٰ نعیم الحق کی خدمت میں۔
غصہ نکلتا ہے تو میڈیا پر۔ عبادت کی طرح جنہوں نے صحافت کی، وہ بھی جرائم پیشہ!
کیا پوری کی پوری مالیاتی ٹیم ناکام نہیں؟ وزیرِ خزانہ، نائب وزیرِ خزانہ، ایف بی آر کا چیئرمین، تجارت کا وزیر، منصوبہ بندی کا، سٹیٹ بینک کا چیئرمین اس وقت شرح سود میں اضافہ کرتا ہے، جب کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ جب تھپکی درکار ہے۔ سارا ملک دم سادھے ہے۔ کل اس اخبار نویس سے ایک افسر نے کہا: معیشت کے انہدام کا اندیشہ نہ ہو تو آج ہی ایک چرب زبان وزیر طلب کیا جائے۔
کامریڈ اسد عمر پی آئی اے اور سٹیل مل کی نجکاری کے خلاف ہیں۔ آٹھ دس ارب ہر ماہ اٹھ جاتے ہیں۔ اے عوام کالانعام! ہم انہیں سنوار اور سنبھال کر بیچیں گے، سجا کر۔ اب تک کتنا سنبھالا؟ اب تک کتنا سنوارا؟ دمڑی کی گڑیا، ٹکا سر منڈائی۔ پچاس ارب کی پی آئی اے بکے گی نہیں، سو ارب روپے کھپ جائیں گے، جس طرح سٹیل مل پہ دو تین سو ارب برباد ہوئے۔
پچھلے حکمران بد عنوان بلکہ لٹیرے، لا ابالی اور عاقبت نا اندیش تھے۔ دن میں ہزار بار وہ چیختے ہیں۔ ہزار بار ہم ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ۔ جی ہاں ، جی ہاں!
مگر اب تو فیصلے آپ کو صادر کرنا ہیں ۔ اب اگلا مصرعہ ارشاد فرمائیے۔ تکرار کی رسم قوالی میں تھی، حکمرانی میں نہیں۔
1964ء میں کوٹ لکھپت جیل میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پروفیسر خورشید احمد کی بیاض پر لکھا ۔
سودا قمارِ عشق میں خسرو سے کوہکن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
حکمران نا مقبولیت سے خوفزدہ، ناکامی سے خوف زدہ ہوں تو کارنامہ کیا، ایک قدم بھی اٹھ نہیں سکتا۔
آتی ہے صدائے جرسِ ناقۂ لیلیٰ
صد حیف کہ مجنوں کا قدم اٹھ نہیں سکتا
مخمصہ جس کا شعار ہو، وہ دائرے میں گھومتا ہے۔ زندگی بسر نہیں کرتا، اسے زندگی بسر کرتی ہے۔
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
زندگی ایک سواری ہے، آدمی اس پہ سوار ہوتا ہے یا وہ آدمی پہ سوار۔ یہی ہے نا عالی جنابؐ کا فرمان؟ طاقتوروں کو معاف کرنے والے معاشرے مر جایا کرتے ہیں۔ یہی تھا نا رحمۃ للعالمین ؐ کا ارشادِ گرامی؟
عمران خان ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر کا ذکر بہت کرتے ہیں۔ خلوت میسر ہو تو خود سے کبھی پوچھنا چاہیے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر متذبذب اور منقسم وہ ٹیپو سلطان ہیں یا بہادر شاہ ظفر؟