علم و دانش کے علم لہراتے ہیں مگر دوسروں کے لئے۔ خود پہ‘ اپنے طرزِ عمل پہ نظرثانی کبھی نہیں‘ خود احتسابی کا کبھی سوال ہی نہیں‘ نرے واعظ‘ یک رخے اور پتھر دل۔
بازارِحصص زمیں بوس ہے۔ بڑھتے بڑھتے بے یقینی حد سے بڑھ چکی۔ عالمی بینک کی تازہ رپورٹ کہتی ہے سالِ رواں شرح نمو کم رہے گی اور آئندہ برس اور کم۔ صرف 2.7فیصد۔ وزیر خارجہ نے ایک اور بھارتی مہم جوئی کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو‘ جس پر تفصیلات سے مطلع کیا گیا ۔
اندیشوں بھری اس فضا میں‘ سول سوسائٹی کا طرزِ احساس کیا ہونا چاہئے؟ کم از کم یہ کہ افواج ِپاکستان کی پشت پر قوم ڈٹ کر کھڑی ہوجائے۔ بدقسمتی سے ایسے لوگ بھی ہیں‘ اس ماحول میں بھی جو باز نہیں آتے۔ ان کا کیا کیجئے؟
ایک صاحب ہیں‘ جو انسانی حقوق کا ایک ادارہ چلاتے ہیں۔ بزرگ آدمی ہیں اور دانشوری کی تہمت بھی رکھتے ہیں۔ تیس لاکھ مہاجرین کو پناہ دینے اور دنیا کے بعض بہترین فلاحی ادارے چلانے والی پاکستانی قوم میں‘ بھلائی کا ایک ادنیٰ پہلو بھی کبھی انہیں دکھائی نہ دیا۔ کبھی ایک بار بھی نہیں۔ ایک بار اخبار میں لکھا کہ مسلمان شروع سے علم دشمن چلے آتے ہیں۔ ''ثبوت‘‘ یہ کہ جنابِ فاروقِ اعظمؓ کے دور میں سکندریہ کی ایک لائبریری جلا دی گئی تھی۔ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ پچھلی صدی کے اوائل میں یہ الزام ایک فسانہ طراز پادری نے عائد کیا تھا۔ مولانا شبلی نعمانی نے شواہد کے ساتھ اس کی تردید کی۔ اس طرح کہ بحث تمام ہو گئی۔ اب یہ الزام انہوں نے کہاں سے کھود نکالا ہے؟ تردید تو کیا کرتے‘ وضاحت کرنے کی زحمت بھی نہ کی۔ رہی شرمندگی تو ایسے لوگوں کی پیشانی عرق آلود کبھی نہیںہوتی۔ ان کے اعصاب فولادی ہوتے ہیں۔
ان کے اس ادارے کی تازہ رپورٹ اٹھارہویں ترمیم سے بحث کرتی ہے۔ فرمایا کہ صوبوں کے حقوق کم کرنے کی کوشش‘ ریاست کی ساکھ تباہ کردے گی۔ سب جانتے ہیں کہ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی ارکان کی تائید درکار ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں۔ ایک واقعہ رونما ہونے والا ہی نہیں۔ اس پر بحث فقط نظری ہے تو ریاست کی ساکھ مجروح ہونے کا کیا سوال؟ صوبوں کے حقوق متاثر ہونے کا کیا سوال؟
سب جانتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کا شوشہ صرف زرداری خاندان کا مسئلہ ہے۔ بینکوں میں سینکڑوں ارب روپے کے جعلی کھاتوں کا سوال اٹھا تو آئینی ترمیم کی کہانی تراشی گئی۔صوبائی حقوق کی دہائی دی جانے لگی۔ سیاست میں مفروضوں پر بحث نہیں کی جاتی۔ اس کے باوجود‘ بظاہر یہ معتبر ادارہ اس کھٹ راگ میںکیوںپڑا؟
یہ پہلی بار نہیں کہ ذہنی اور فکری انتشار پھیلانے کی کوشش کی۔ آئے دن واویلا کرتے ہیں کہ این جی اوز پہ زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ نام نہاد انجمنیں استعمار کی جادوگری ہیں۔ بھارت میں 25 ایسی تنظیموں پر پابندی لگا ئی جا چکی۔ گیارہ ہزار کی رجسٹریشن التوا میں ہے۔ عالمی امداد ان کے لئے آدھی رہ گئی۔ یہ اس کے باوجود ہے کہ امریکہ اور بالواسطہ یورپی یونین کا برہمن تزویراتی حلیف ہے۔ روس میں این جی اوز کی نگرانی کے قانون کو Foreign Agents Law کہا جاتا ہے۔ غیر ملکی کارندوں کا قانون۔
کیا یہ بات اس شخص سے پوشیدہ ہے‘ کشمیری مسلمانوں کے قتل ِعام پر‘ جسے کبھی ایک پیراگراف لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ کیسا اونگھتا ہوا ضمیر ہے۔ بلوچستان میں بھارتی تخریب کاری بلکہ درندگی پر ایک لفظ کہنے اور لکھنے کی کبھی ضرورت محسوس نہ کی۔ کیا وہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں‘ پاکستان میں غیر ملکی امداد سے کام کرنے والے ادارے کہیں زیادہ آزاد ہیں؟
رپورٹ کہتی ہے: اجتماع کی آزادی ایک آئینی حق ہے۔ جی ہاں! دستور اس کی ضمانت دیتا ہے مگر کیا غیر ملکیوں کے لئے کام کرنے اور بے دریغ روپیہ وصول کرنے کی؟ کیا واقعہ یہ نہیں کہ ایسی انجمنوں کے بعض عہدیدار جاگیرداروں کی سی قیمتی گاڑیوں میں گھومتے ہیں؟ اعلیٰ ترین افسروں سے زیادہ تنخواہ پاتے اور شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
فوجی عدالتوں کی ممکنہ توسیع پر رپورٹ میں تشویش کا اظہار ہے۔ان عدالتوں میں دہشت گردوں کے سوا‘ کس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے؟آپ کو ان سے ہمدردی کیوں ہے؟ ایک ناقص اور غیر موثر نظامِ عدل میں‘ قاتلوں اور غنڈوں کو آزاد چھوڑ دیا جائے؟ کراچی میں جب قتلِ عام تھا‘ قبائلی پٹی اور بلوچستان میں بھی۔ بھارتی نیٹ ورک جب تاریخ کا سیاہ ترین باب لکھ رہے تھے‘ تو آپ کی پیشانی پر کبھی بل آیا؟ درندوں کی کبھی مذمت کی؟
بجا ارشاد کہ عدالت اور پولیس کو بہتر بنایا جائے۔ عدالتوں پہ چڑھ دوڑنے اور پولیس کو برباد کرنے والوں پہ کبھی حرفِ اعتراض کی ہمت آپ کو ہوئی؟ وہ جنہوں نے سندھ کو چراگاہ بنا دیا۔ پولیس کیا‘ خاکروبوں تک کی ملازمتیں‘ ریڑھیوں پہ رکھے پھلوں کی طرح بیچ ڈالیں۔پر اس الزام کی آپ تائید کیوں فرماتے ہیں‘ سمندر پار سے جو وارد ہوتا ہے؟ مثلاً یہ کہ سندھ کی ہندو لڑکیوں کو تشدد اور جبر سے مذہب تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بعض احمق اور انتہا پسند گاہے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس دعوے کا مگر کیا ثبوت کہ یہ سب کچھ ایک منظم اور طے شدہ نظام کے تحت برپا ہے؟کیا کسی بھی سیاسی پارٹی نے کبھی اس کی تائید کی؟ آپ جانتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی راشٹریہ سیوک سنگھ نہیں۔ آپ کو معلو م ہے اور خوب اچھی طرح معلوم کہ کوئی نریندر مودی‘ اس ملک میں اقتدار اور اعتبار نہیں پا سکتا۔ سیاسی کیا‘ کبھی کوئی مذہبی پارٹی بھی اس جرم میں شریک تھی؟ جماعت الدعوۃ سمیت کتنے ہی مذہبی ادارے‘ تھر کے قحط میں بروئے کار آتے ہیں‘ اور خوش دلی سے۔عطیات کے انبار لگ جاتے ہیں۔سماجی بہبود کا سب سے بڑا ادارہ'' اخوت‘‘ اسی فیّاضی سے تھر کے ہندوئوں کو غیر سودی قرض دیتاہے‘ جتنا کہ کسی بھی دوسرے علاقے میں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ تھر میں'' اخوت‘‘ کے اجلاس مندروں میں ہوتے ہیں اور وہاں اسے ''بھگوان کا بینک‘‘ کہا جاتا ہے۔
کمال مہربانی سے آپ نے اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں تخریب کار اب بھی برسرِعمل ہیں۔ وہی بلوچستان‘ عالمی طاقتوں نے جسے الگ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ جن کے پالے تخریب کار راتوں کی تاریکی میں افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے اور معصوم شہریوںپہ چڑھ دوڑتے۔ جو پاکستانی پرچم لہرانے والوں پہ حملہ آور ہوتے۔ ڈیرہ بگتی اور منسلک اضلاح میں بھتّہ وصول کیا کرتے۔ جو مہاجروں‘ سرائیکیوں اور پنجابیوں کو چن چن کر ذبح کرتے۔ ان کی مذمت کرنے میں ہمیشہ آپ کو تامّل کیوں رہا؟
کرایے کے کارندوں اور بھاڑے کے ٹٹوئوں سے آپ کو ہمدردی کیوں ہے؟ اس ملک کے آپ شہری ہیں۔ اسے تخریب کاروں سے نجات دلانے والی افواج کے لئے تحسین کا ایک لفظ بھی آپ کی زبان پر کبھی کیوں نہ آسکا؟چھ ہزار جوانوں اور افسروں کی زندگیاں دے کر ‘ جس نے امن خریدا۔جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر ڈالا۔
کیسے عجیب لوگ‘ اپنے ہی وطن کے خلاف وعدہ معاف گواہ۔علم و دانش کے علم لہراتے ہیں مگر دوسروں کے لئے۔ خود پہ‘ اپنے طرزِ عمل پہ نظرثانی کبھی نہیں‘ خود احتسابی کا کبھی سوال ہی نہیں‘ نرے واعظ‘ یک رخے اور پتھر دل۔