ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا افتتاح اس خطے کے ممالک کے درمیان توانائی کے شعبہ میں اشتراک کی سمت سنگ میل ہے۔ اُنیس سو میٹر لمبی یہ گیس پائپ لائن تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہوگی جس سے ایران پاکستان کو دو کروڑ پندرہ لاکھ کیوبک میٹر قدرتی گیس روزانہ سپلائی کرسکے گا۔ اس کا گیارہ سو کلومیٹر کا حصہ جو جنوبی ایران کے شہرعسلویہ کے پاس ماورائے ساحل گیس فیلڈسے چاہ بہار کے قریب پاک ایران سرحد تک پہلے ہی تعمیر ہوچکا ہے۔ اب بقیہ آٹھ سو کلومیٹر وہاں سے نوابشاہ تک کی تعمیر کا کام شروع ہو جائے گا جسے ایران کی کمپنی تدبیر انرجی ڈویلپمنٹ گروپ انجام دے گا۔ اس کی سرمایہ کاری میں چین کی عدم دلچسپی کے بعد ایران نے اس کے لئے سرمایہ کی فراہمی کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے صدور اور وزراء کی موجودگی میں افتتاحی تقریب کے انعقاد کے باوجود اس منصوبہ کی تکمیل کے بارے میں بہت سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ اس منصوبہ کے معاہدہ پر دستخط اور تعمیر کا افتتاح اس قدر عجلت میں (جبکہ یہ حکومت چند دن کی مہمان ہے) کیوں کیا گیا ہے؟ یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا۔ یہی سوال گوادر کی بندرگاہ کا ٹھیکہ چین کو دینے کے معاہدہ پر بھی اُٹھایا جارہا ہے۔ کیا یہ دونوں منصوبے ملک کی داخلی اسٹبلشمنٹ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کئے گئے ہیں؟ کیا نومنتخب حکومت زبردست دبائو کی متحمل ہوسکے گی اور پائپ لائن کی تعمیر جاری رکھ پائے گی؟ گزشتہ دو عشروں کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ سوال بے وزن نہیں ہیں۔ گیس پائپ لائن کے منصوبہ کی بات چیت 1994 ء سے شروع ہوئی تھی جس میں بھارت بھی شریک تھا۔ لیکن پھر بھارت اس سے پیچھے ہٹ گیا جس کی ایک وجہ پاک بھارت بے اعتمادی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ امریکہ کی طرف سے بھارت کے لئے سویلین نیوکلیائی معاہدہ سمیت بہت سے رغبت کے سامان پیدا کر دیئے گئے تھے۔ پاکستان بھی اس منصوبہ میں دلچسپی اور عدم دلچسپی کے درمیان گومگو کا شکار رہا۔ اس کی وجہ پابندیوں کی دھمکیاں بھی تھیں اور متبادل منصوبے بھی تھے جس میں ترکمانستان سے گیس کی اسی طرح کی پائپ لائن بچھانے اور گیس درآمد کے منصوبے شامل تھے۔لیکن یہ پائپ لائن افغانستان سے ہو کر آنا تھی اس لئے وہاں کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر اس پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ وسط ایشیا توانائی کے ذخائر سے مالا مال ہے مگر اس کی تزویراتی اہمیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ امریکہ کے قومی سلامتی کے سابق مُشیربرزنسکی کا کہنا تھا کہ ’’یوریشیائی خطۂ ارض پوری دنیا پرغلبہ کی کلید ہے جبکہ وسط ایشیا کا کنٹرول یوریشیائی خطۂ ارض پر غلبہ کی کلید کی حیثیت رکھتا ہے‘‘؛ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس خطہ کی ارضی سیاست Geo Politics، بیرونی طاقتوں کی رسہ کشی اور اس خطہ کے حکمران طبقوں کی موقع پرستی کسی ایسے منصوبے کو آگے نہیں بڑھنے دیتی جس سے یہاں کے عوام کا بھلا ہوسکتا ہے۔ بجلی کے شعبہ میں بھی علاقائی تعاون کے زبردست امکانات پائے جاتے ہیں لیکن صورت حال بہت مایوس کن رہی ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وسط ایشیائی ممالک بظاہر آزاد ہوئے تو انہوں نے جنوب کے ساتھ تعاون کے امکانات کی تلاش شروع کی۔ 1992ء میں تاجکستان نے پاکستان کو پیشکش کی کہ وہ دریائے و خش پر زیر تکمیل روگن ڈیم سے پیدا شدہ بجلی سے دو ہزار میگاواٹ بجلی کی خرید کا معاہدہ کر لے تو وہ اس بنیاد پر عالمی قرضہ جات حاصل کر کے اس کی تکمیل کرلے گا۔ واپڈا ہائوس لاہور میں دونوں ملکوں کے وفود نے مفاہمت کی یادداشت تیار کی، قریباً 5 یا 6 سینٹ فی یونٹ کا ریٹ طے ہوا اور پھر تاجک وزیر توانائی اور پاکستان کے وزیر پانی و بجلی سرتاج عزیز صاحب نے اس پر دستخط کئے۔ 2000 ء تک اس منصوبہ نے مکمل ہونا تھا، ٹرانسمشن لائن بننا تھی اور پاکستان کو دو ہزار میگاواٹ بجلی سپلائی ہونا تھی۔ لیکن یہ معاملہ مفاہمت کی یادداشت سے آگے نہ بڑھ سکا۔ 1992ء میں معاشی تعاون کی تنظیم ECO میں پاکستان، ایران اور ترکی کے علاوہ وسط ایشیائی ممالک افغانستان، تاجکستان، کرغیزیا، ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان اور آذربائیجان بھی شامل ہوگئے۔ دس ممالک کی اس تنظیم نے 2003ء میں اپنے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ان ممالک کے بجلی کے نظام ایک دوسرے کے ساتھ جوڑدیئے جائیں جس کے ذریعہ یہ آپس میں بجلی کی درآمدو برآمد کرسکیں۔ 2005ء میں اس کی فزیبلیٹی سٹڈی پرکام شروع ہوا۔ منصوبہ بہت زبردست تھا، ان دس ممالک میں کسی کے پاس ہائیڈل سے بجلی پیدا کرنے کے ذرائع وافر تھے تو کسی کے پاس تیل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے لئے وافرایندھن موجود تھا اور قازقستان کے پاس تو ایٹمی ایندھن بھی موجود تھا۔ ان دس ممالک کے گرڈ سسٹم باہم مربوط ہو جانے سے ہر کوئی اپنے مقامی وسائل سے پیدا ہونے والی بجلی انتہائی مناسب ریٹ پر دوسرے کو فروخت کرسکتا تھا۔ خرید نے اور بیچنے والے دونوںممالک کی معاشی و صنعتی ترقی کو بے پناہ فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ علاوہ ازیں موسموں کے فرق اور زیادہ کھپت کے مختلف اوقات میں وقوع پذیر ہونے سے ایک کی وافر بجلی دوسرے کے استعمال میں لائی جاسکتی تھی۔ ایران، ترکی اور پاکستان نے فزیبلٹی سٹڈی کی تکمیل میں دلچسپی لی مگر سات وسط ایشیائی ممالک کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ معاملہ فزیبلٹی سٹڈی کا مرحلہ بھی طے نہ کرسکا۔ اس راہ میں بڑی رکاوٹ بھی یہاں کی ارضی سیاست اور مقامی حکومتوں کا بڑی طاقتوں کی رقابت کے کھیل میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل ہونا تھا۔ دس ملکوں کے گرڈ سسٹم کو مربوط کرنے کا معاملہ آگے نہ بڑھا تو بعض ملکوں نے دو طرفہ یا دو سے زیادہ ممالک کی سطح پر بجلی کی درآمد و برآمد پر بات شروع کی۔ اس سلسلے میں چار ملکوں تاجکستان، کرغیزیا، افغانستان اور پاکستان نے وسط ایشیا‘ جنوبی ایشیا علاقائی الیکٹرسٹی مارکیٹ CASAREM تشکیل دی جس کے تحت تاجکستان اور کرغیزیا سے تیرہ سو میگاواٹ‘ بجلی افغانستان اور پاکستان کو سپلائی کی جائے گی۔ یہ منصوبہ گزشتہ کئی سال سے کاغذی کارروائی سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا جبکہ اس کا دفتر کابل میں قائم ہے۔ اسی طرح 2009ء میں ایران نے پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی مہیا کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے لئے ایران نے زاہدان سے قریباً 100 کلومیٹر شمال میں جھیل ایدمی کے قریب ہزار میگاواٹ کا بجلی گھر صرف پاکستان کو بجلی برآمد کرنے کی خاطر لگانا ہے۔ زاہدان تک ٹرانسمشن لائن ایران نے اور ایران کی سرحد سے کوئٹہ تک پاکستان نے تعمیر کرنا ہے۔ اس کی فزیبلٹی یہاںتک کہ ڈیزائن بھی تیار ہے۔ لیکن معاملہ باقاعدہ معاہدہ طے پانے کا منتظر ہے اور سنا ہے کہ ٹیرف کے معاملات پراٹکا ہوا ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی سازشی مفروصہ نہیں ہے کہ بھارت سے بجلی درآمد کرنے کا ایک کاغذی منصوبہ درمیان میں لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے جسے ورلڈ بنک کی پشت پناہی حاصل ہے تاکہ پاک ایران بجلی کا معاہدہ روکا جاسکے۔ بھارت سے بجلی کی درآمد کا منصوبہ کاغذی اس لئے ہے کہ بھارت خود بجلی کی قلت سے دو چار ہے اور وہاں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ وہ مجوزہ 5 ہزار میگاواٹ بجلی پاکستان کو کیسے برآمد کرسکے گا؟ بدقسمتی یہ ہے کہ بجلی ہو یا گیس، ٹرانسمشن کی راہداری افغانستان اور بلوچستان سے ہو کر گزرتی ہے جہاں ایک طرف مذہب کے نام پر قبائلی خانہ جنگی اور دوسری طرف امریکہ کی مسلط کردہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور تیسرے یہاں کے حکمرانوں کی ان مسائل کے حل کرنے کی نااہلیت نے توانائی کے علاقائی تعاون کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔ اگر معاشی تعاون تنظیم ECO کے دس ممالک اور سارک ممالک اپنے گرڈ سسٹم کو باہم مربوط کرلیں اور ایک دوسرے کے ساتھ توانائی کا اشتراک کرلیں تو بنگلہ دیش سے ترکی تک کے یہ تمام ممالک بے پناہ معاشی اور صنعتی ترقی کرسکتے ہیں، ان میں سے جن ممالک میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے وہ اس سے مستقل نجات حاصل کرسکتے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے معاشی شکنجہ سے ہمیشہ کے لئے گلو خلاصی کراسکتے ہیں۔ لیکن یہ ’’اگر‘‘ بہت بڑا اگر ہے۔ امکانات سے زیادہ خدشات میں گھرا ہوا!