"HJC" (space) message & send to 7575

اپاہج جمہوریت کے پانچ سال

پاکستان کی متلاطم سیاسی تاریخ میں منتخب جمہوری حکومتوں اور اسمبلیوں نے پہلی بار اپنی مدت مکمل کرلی ہے۔ اس پر شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ حکمران طبقوں کو خوش ہونا بھی چاہیے کہ پہلی بار فوج اور عدلیہ ان کو گھر بھیجنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ ویسے توپچھلی جمہوری حکومتوں کو جب مدت پوری ہونے سے پہلے فارغ کیا جاتا تھا، سیاستدانوں کا ایک دوسرا ٹولہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمیشہ آن کھڑا ہوتا تھا جو نئے بندوبست کو ایک مصنوعی جمہوری لبادہ بھی مہیا کر دیتا تھا اور اسے جواز (Legitimacy) کی بیساکھیاں بھی۔گزشتہ پانچ سال کے دوران بھی فوج، عدلیہ اور حکمران طبقوں کے مختلف گروہوں کے مابین کشمکش اور کھینچاتانی کی جو کیفیت جاری رہی وہ اس سے مختلف نہ تھی۔ کئی مرتبہ یہ تنائو اس حد تک بڑھا کہ سیاسی پنڈتوں نے پچھلے ماضی کے تناظر میں تاریخیں دینا شروع کر دیں مگر ؎ تھی خبر گرم کہ غالب کہ اُڑیں گے پُرزے دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشانہ ہوا لیکن یہ تماشہ کیوں نہ ہوسکا…اس لئے نہیں کہ زرداری صاحب کی مفاہمت کی سیاست یا شاطرانہ سیاست سب پر بھاری رہی، نہ اس لئے کہ شریف برادران دوستانہ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے اور نہ اس لئے کہ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن جمہوریت سے والہانہ لگائو رکھتے تھے اور نہ ہی اس لئے کہ فوج اور عدلیہ سمیت سب اداروں نے اپنے اپنے دائرہ سے تجاوز نہیں کیا اور اپنی حد میں رہے…جس سے جو بن پڑا وہ کیا۔ البتہ اس بار وہ تماشہ نہ ہوا جس کے لئے کئی بار تاریخیں دی گئیں۔امریکہ اور اسکی حلیف مغربی طاقتوں نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا لیکن اس بار اُن کا فیصلہ ’’خاکی‘‘ کے حق میں نہیں بلکہ ’’اپاہج جمہوریت‘‘ کے حق میں تھا۔ بین الاقوامی تقاضے بدل گئے تھے۔ عالمی سرمایہ داری کی علمبردار سامراجی طاقتوں نے ایک ایک کر کے اپنے پروردہ فوجی آمروں سے پیچھا چھڑا لیا تھا، وہ بہت مہنگے پڑ رہے تھے۔ اکیلے صدام حسین سے پیچھا چھڑانے کا فال آئوٹ کئی ٹریلین ڈالر تک جاپہنچا اور عراق اب بھی استحکام سے دُور ہے۔ حسنی مبارک اور علی زین العابدین کے نخرے اُٹھاتے کئی عشرے گزر چکے تھے مگر اب ان کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ سرد جنگ کے زمانے کی باقیات تھے۔ عرب بہار جو عرب عوام کی فطری جمہوری جدوجہد تھی اور ماضی میں امریکہ اور مغربی طاقتوں نے کبھی ان کی حمایت نہ کی بلکہ آمروں کی حمایت کی تھی، اب اس کی فصل کاٹنے میں مصروف تھی۔ پاکستان میں عدلیہ کی بحالی کی وکلاء تحریک نے جسے مغربی میڈیا کی بھی بھرپور حمایت تھی ،مشرف کو کمزور کیا اور 2008ء کے انتخابات کے بعد اسے آسان راستہ (Safe Exit )دے دیا گیا۔ اسی بدلے ہوئے بین الاقوامی تناظر میں پاکستانی میڈیا بھی طاقتور حیثیت کا حامل ہوگیا اور کسی حد تک اُس ’’تماشہ‘‘ کے نہ ہونے میں اس کا بھی کردار ہے۔ گزشتہ پانچ سال مختلف داخلی اور خارجی قوتوں کے مابین شدید کھینچاتانی، کشمکش اور تنائو رہا۔ اس دوران پاکستان جیسے ترقی پذیرملک میں جہاں اقتدار کا اصل سرچشمہ مسلح افواج کے پاس ہوتا ہے، جمہوریت اُن معروف معنوں میں رائج نہ ہوئی جیسے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں رائج ہے۔ یہاں جمہوریت نہیں بلکہ بظاہر جمہوری شکل و صورت رکھنے والا ایک بندوبست کیا جاتا ہے جس کی ہئیت (Form) تو جمہوری ہوتی ہے لیکن اس کا نفس یا مادہ (Content) جمہوری نہیں ہوتا۔ اسمبلیوں میں اُن سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر ارکان منتخب ہو کر آتے ہیں جوچند خاندانوں یا افراد کی ملکیت ہوتی ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی جمہوریت نہیں ہوتی۔پارٹی قائدین اقتدار کا فیصلہ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساز باز کر کے ایک ’’جمہوری بندوبست‘‘ کا حصہ بن جاتے ہیں جسے لولی لنگڑی جمہوریت کہہ دیا جاتا ہے۔صرف 1970 ء کے انتخابات تھے جو اس سے مختلف تھے مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس کے نتائج کو تسلیم نہ کیا ۔ 2008 ء میں این آر او کے ذریعہ ایک اپاہج جمہوری نظام قائم ہواجو بین الاقوامی عوامل کی وجہ سے مدت پوری کرنے میں کامیاب رہا۔ اس دوران داخلی اور خارجی قوتوں کے مابین تنائو جاری رہا۔ فیصلہ کن حیثیت فوج کو حاصل رہی۔ زرداری حکومت کو سب سے پہلا چیلنج ججوں کی بحالی کا درپیش ہوا ، معاملہ لانگ مارچ تک پہنچا لیکن آخر شب ایک اہم ٹیلیفون کال نے ججوں کو بحال کروادیا۔ اس حکومت کے دوران بیرونی اسٹیبلشمنٹ اور داخلی اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشیدگی بھی جاری رہی۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار کو محدود یا رد کرنے سے لے کر خود پاکستان کی عسکری حیثیت کو محدود کرنے تک کے معاملات تھے۔ کیری لوگر بل لایا گیا۔بدلے ہوئے حالات میں بیرونی اسٹیبلشمنٹ اپاہج سویلین جمہوری حکومت کے ذریعہ فوج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر تی رہی لیکن اس کوشش کو کامیاب ہونا تھا نہ ہوئی۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ سے امریکہ، فوج اور سویلین حکومت کی مثلث کے مابین شدید تنائو پیدا ہوگیا۔ تاہم امریکہ اپنا آدمی لے جانے میں کامیاب رہا۔ اسکے بعد ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کمپائونڈ پر امریکی نیوی سیل (SEAL)کی فوجی کارروائی اور اس کے نتیجے میں میموگیٹ سکینڈل ایسے معاملات تھے جن میں امریکہ، فوج اور سویلین حکومت کی مثلث میں سخت کشیدگی پیدا ہوئی۔ پھر اس میں سپریم کورٹ بھی شامل ہوگئی تاہم فیصلہ کن حیثیت فوج کو حاصل رہی۔ حکومت کو امریکہ میں اپنا سفیر حسین حقانی جو اس سکینڈل کا مرکزی کردار تھا فارغ کرنا پڑا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مستعفی ہوگئے۔ خارجہ امور کے سلسلے میں فیصلہ کن کردار فوجی ہائی کمان کے پاس رہا۔دفاعی پالیسی بھی فوج کے کنٹرول میں رہی۔ حکومت مسلسل اپنا اقتدار بچانے میں مصروف رہی یا پیسہ بنانے میں۔پُوری ٹیم انتہائی کرپٹ، نااہل اور استعداد سے عاری تھی کہ وہ عوام کو درپیش مسائل حل کرتی ۔وہ اعلیٰ عدلیہ کے ساتھ این آر او، میمو گیٹ اور آئے دن کی مخالفانہ پیٹیشنوں کا سامنا کرتی رہی ۔ سوئس حکومت کو خط لکھنے کا معاملہ تھا ۔ آئے دن مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت اور مرکز میں اپوزیشن ان کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہتے ۔ پنجاب ہائی کورٹ نے زرداری صاحب کے سیاسی عہدہ رکھنے اور ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے فیصلہ صادر کر دیا۔ اس فیصلے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو سندھ کے خلاف پنجابیوں کا حملہ تصور کیا گیا۔ اس کا فائدہ زرداری صاحب کویوں ہوا کہ تینوں چھوٹے صوبوں کی طرف سے اُنہیں مکمل حمایت ملتی رہی۔ یہاں تک کہ ایک بہت نازک موقع پر سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلیوں نے صدر زرداری پر اعتماد کی قرار داد منظور کر کے اپنی بھرپور حمایت کا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ 18 ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور آغاز حقوق بلوچستان کی وجہ سے بھی چھوٹے صوبوں کی حمایت ملتی رہی۔ علاقائی عصبیتیں ضرور اہم کردار ادا کریں گی لیکن توانائی کے بحران اور معاشی دیوالیہ پن نے تو چاروں صوبوں کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کیا وہ مزید ایک اپاہج حکومت کے لئے ووٹ دیں گے؟ مگر عوام کو کون پوچھتا ہے، اگلا سیاسی بندوبست تو اسٹیبلشمنٹ کی صوابدید پر ہے، منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والے(Electables) جو موجودہ نظام بلکہ ہر نظام کا حصہ ہوتے ہیں،جوق در جوق ایک جماعت کا رُخ کر رہے ہیں کہ عالم بالا میں اگلے اپاہج جمہوری بندوبست کی قیادت کا قرعہ فال اس جماعت اور اس کے اتحادیوں کے نام نکل چُکا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں