"HJC" (space) message & send to 7575

عروج و زوال

پیپلز پارٹی بنی ہی پنجاب میں تھی۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر یکم دسمبر 1967ء کو یہ پارٹی وجود میں آئی اور ذوالفقار علی بھٹو اس کے چیئرمین بنے (منتخب ہوئے)۔ اس کے چار بنیادی اصول تھے۔ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ چونکہ اس میں دین اور سیاست کو جدا کر دیا گیا تھا اس لحاظ سے یہ ایک سیکولر پارٹی تھی۔ اس وقت ایوب خاں کے خلاف ملک گیر تحریک زور پکڑ چکی تھی۔ اس کے کئی پہلو تھے۔ بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کی شدت سے عوام کی کمر ٹوٹ چکی تھی، اس لئے طبقاتی کشمکش کا پہلو ملک کے دونوں بازوئوں میں بہت شدت کے ساتھ اُبھر آیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں صوبائی احساسِ محرومی کی شدت اس پر مستزاد تھی جس کی وجہ سے مولانا بھاشانی کے 11 نکات اور شیخ مجیب کے 6 نکات مقبولیت حاصل کرچکے تھے۔ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بھی ون یونٹ میں ضم کیے جانے کی وجہ سے قومیتی حقوق سے محرومی کا احساس شدت کے ساتھ پایا جاتا تھا۔ گویا ہر جگہ طبقاتی سوال کے علاوہ علاقائی، قومیتی اور صوبائی خودمختاری کا پہلو اس تحریک میں اہم عامل کا کردار ادا کر رہا تھا۔ لیکن پنجاب میں طبقاتی سوال کے بعد جو اہم پہلو اس تحریک میں اہمیت اختیار کرگیا تھا، وہ تھا معاہدہ تاشقند، بھارت کے خلاف نیشنلزم کا نعرہ اور اس حوالہ سے بھٹو کا موقف بھٹو کو پنجاب میں مقبول بناگیا۔ اُس عوامی تحریک کا ایک تیسرا پہلو بھی نیشنلزم کے حوالے سے تھا اور وہ تھا امریکی سامراج کے خلاف پاکستانی عوام کی نفرت کا جذبہ۔ پاکستانی عوام مسئلہ فلسطین سے لے کر مسئلہ کشمیر تک، اور ویت نام سے لے کر افریقہ اورلاطینی امریکہ تک حریّت پسندی کی مسلح جدوجہد کے ساتھ یک جہتی اور امریکہ اور اس کی حلیف سامراجی طاقتوں کے خلاف نفرت کے جذبات رکھتے تھے۔ بھٹو صاحب زیادہ وقت پنجاب میں گزارتے تھے۔ وہ رہتے ہی لاہور میں تھے۔ فلیٹیز ہوٹل میں دو سوئیٹ بھٹو صاحب اور کھر صاحب سال بھر کے لیے بک کروا لیا کرتے تھے۔ وہ اپنا ہر اہم جلسہ لاہور میں کرتے ۔ موچی دروازہ، مینار پاکستان، ناصر باغ اور قذافی سٹیڈیم میں آج بھی اُن جلسوں کی بازگشت گونجتی ہے۔ انہوں نے 1973ء کی اسلامی کانفرنس بھی لاہور میں منعقد کی۔ 70ء کے انتخاب میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 82 میں سے 62 نشستیں حاصل کیں اور صوبائی اسمبلی کی 180 میں سے 113 نشستیں حاصل کیں۔ پنجاب کے جغادری مسلم لیگی سیاستدان جن کی سیاست کا مدار پنجابی شاونزم اور بھارت مخالف نیشنلزم پر ہوا کرتا تھا، سخت پریشان تھے کہ ایک غیر پنجابی لیڈر پنجاب میں اتنی مقبولیت اختیار کرگیا ہے اور بھارت مخالف نیشنلزم کی ٹھیکیداری بھی اُن سے چھین کر لے گیا ہے۔ بھٹو کے دور اقتدار (72-77ء) کے دوران پنجابی شاونسٹوں نے بھٹو کی نیشنلزم کی مقبولیت میں دراڑیں ڈالنے کے لیے کئی حربے استعمال کیے۔ 70ء میں بھٹو کے کراچی کے ایک جلسہ کی تقریر پر لاہور کے ایک اخبار کی شہ سرخی ’’ادھر ہم، اُدھر تم‘‘ کو بنیاد بنا کر بھٹو کو پاکستان توڑنے کا ذمہ دار قرار دیا، شملہ معاہدہ اور بنگلہ دیش منظور کرنے کو سخت ہدف تنقید بنایا۔ 77ء کی قومی اتحاد (PNA) کی احتجاجی تحریک کا گڑھ بھی پنجاب تھا جس کی سرپرستی پنجابی شاونسٹ تاجر اور صنعتکار کر رہے تھے۔ بھٹو کی نیشنلزم کی مقبولیت میں اگر کچھ دراڑ پڑی بھی تھی تو 77ء کے ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد وہ مقبولیت پھر حاصل ہوگئی تھی کیونکہ ضیاء کو امریکہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ 86ء میں بے نظیر بھٹو کی جلاوطنی سے واپسی تک لاہور اور پنجاب پیپلز پارٹی کا قلعہ تھا۔ جن لوگوں نے ایئرپورٹ سے مینار پاکستان تک بینظیر کے استقبال کو دیکھا وہ اس بات کے گواہ ہیں۔ 86ء کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کی داستان شروع ہوتی ہے۔ جب بی بی امریکیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر کے پاکستان تشریف لائیں۔ لاہور میں استقبال کی فقیدالمثال ریلی میں کارکنوں کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ امریکہ اور فوج کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگایا جائے گا اور نہیں لگانے دیا گیا۔ 88ء کے انتخابات میں ایک تو اسٹیبلشمنٹ اسلامی جمہوری اتحاد وضع کر کے ’’مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنے کی مشینری وضع کرچکی تھی دوسرے پنجابی شاونزم نے 11 سالہ ضیاء دور میں اپنی جڑیں اتنی مضبوط کرلی تھیں کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی پنجاب سے قومی اسمبلی کی 115 میں سے صرف 52 نشستیں حاصل کرسکی تھی۔ تاہم مجموعی طور پر قومی اسمبلی میں 94 نشستیں لے کر سب سے بڑی جماعت ہونے کی وجہ سے مخلوط حکومت وضع کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی اسمبلی کے انتخابات کے 3 دن بعد ہونا تھے۔ ان تین دنوں میں آئی جے آئی کی طرف سے پنجاب کے اخبارات میں ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کے نعروں کے اشتہارات لگوائے گئے اور لوگوں کے پنجابی شاونزم کو اُبھارا گیا۔ چنانچہ صوبائی اسمبلی میں آئی جے آئی کو اکثریت حاصل ہوئی اور یہاں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم نہ ہوسکی۔ 90ء کے انتخابات میں یہ پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس کے تحت انتخابات میں شریک ہوئی مگر مرکز اور پنجاب دونوں جگہ ہار گئی۔ 93ء میں مرکز میں انتخاب جیت لیا اور حکومت بنائی مگر پنجاب میں مسلم لیگ (جونیجو) کے منظور وٹو کی قیادت میں مخلوط حکومت کا حصہ بنی۔ 97ء میں مرکز اور پنجاب دونوں میں بُری طرح ہار گئی۔ 2002ء میں ق لیگ کے مقابلے میں ہار گئی۔ 2008ء کے انتخاب کے بعد پنجاب میں نون لیگ کے ساتھ مخلوط حکومت کا چار سال حصہ رہنے کے بعد علیحدہ ہو کر اپوزیشن میں بیٹھ گئی۔ 86ء کے بعد پنجاب میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی ہونے کی دو بڑی وجوہات رہیں۔ بھٹو کے نیشنلزم اور سوشلزم کے جس امتزاج نے اسے پنجاب کی مقبول ترین جماعت بنایا تھا، 86ء کے بعد کی پیپلز پارٹی دونوں سے آہستہ آہستہ انحراف کرگئی۔ سوشلزم سے تو بھٹو دور میں ہی انحراف شروع ہوگیا تھا۔ لیکن نیشنلزم سے انحراف کی یہ حالت تھی کہ 88ء میں بی بی کی پہلی حکومت پر اپوزیشن نے ’’سیکورٹی رسک‘‘ کا الزام عائد کیا۔ بھارت اور امریکہ کے بارے میں اس پارٹی کا موقف تیزی سے تبدیل ہوتا گیا۔ پارٹی قیادت پنجابی شاونزم کی قوتوں کے عائد کردہ الزامات کا دفاع نہ کرسکی کیونکہ بہت سے الزامات بے بنیاد نہ تھے۔ علاوہ ازیں پارٹی قیادت نے نہ تو پنجاب میں کسی قدآور قیادت کو اُبھرنے دیا اور نہ ہی بھٹو صاحب کی طرح لاہور کو اپنا مستقل مسکن بنایا۔ پنجاب کے عوام کی طبقاتی اور قومی اُمنگوں سے منہ موڑنے کی کمزوری کا مسلم لیگ (ن) نے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور پیپلز پارٹی پنجاب میں عوامی مقبولیت کھو بیٹھی۔ یہ اُسی طرح جاگیردارانہ جوڑ توڑ کی روایتی پارٹی بن گئی جیسی کہ مسلم لیگیں اور دوسری جماعتیں تھیں۔ اس کی گزشتہ 5 سال کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے۔ اپنی اشتہاری انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی اپنے عہد کے سچے اعداد و شمارپیش کر رہی ہے لیکن مجال ہے کہ نیشنلزم کے حوالے سے اپنے کسی ’’کارنامہ‘‘ کا کوئی ذکر کرے۔ اُدھر نواز شریف ہر تقریر میں ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ لینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ عمران خان امریکہ کو للکار رہے ہیں، جیسے کسی زمانہ میں بھٹو للکارا کرتے تھے ۔ مگر پیپلز پارٹی بھٹو کے امریکہ کے بارے میں بھی دم بخود ہے اور اس کے ایٹمی پروگرام کا نام تک لینا بھی گوارا نہیں کرتی۔ موجودہ پیپلز پارٹی کے پالیسی ساز اس بات سے ناآشنا ہیں کہ بھٹو کی پروگریسو نیشنلزم نے اُسے پنجاب میں بھرپور عوامی مقبولیت بخشی تھی۔ اس سے انحراف کر کے یہ پارٹی پنجاب میں کس طرح زندہ رہ سکتی ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں