"HJC" (space) message & send to 7575

ووٹ قوم کی امانت ہے مگر…!

ووٹ قوم کی امانت ہے جو پاکستان کے ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد ووٹروں کے پاس محفوظ ہے اور آج اس امانت کو لَوٹانے کا دن ہے۔ دہشت گردی کے خطرات کے باجود ووٹروں کا ٹرن آئوٹ ماضی کے انتخابات سے کہیں زیادہ ہونے کی توقع ہے۔بجاکہ ووٹ قوم کی امانت ہے اور اسے قوم کو لَوٹا دینا چاہیے مگر ہر ووٹر کے نزدیک قوم کا تصور مختلف ہے۔کیا یہ قوم پاکستان ہے؟ ووٹر کا اپنا صوبہ ہے؟ قبیلہ ہے؟ نسل ہے؟ فرقہ ہے؟ ذات یا برادری ہے؟ اُس کا اپنا طبقہ ہے؟ یا اپنے مفاد کا کوئی اور گروہ ہے؟ پاکستان کے طول و عرض میں ’’قوم‘‘ کے یہ تمام تصورات موجود ہیں اور ان کے مطابق ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ ووٹر انہی حوالوں سے بٹا ہوا ہے اور اسی وجہ سے منقسم مینڈیٹ آتا ہے ۔ چنانچہ اب یہ سوچنا بہت دور کی بات ہوچکی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کوئی واحد اکثریتی پارٹی اُبھر سکے گی۔ آج کے انتخابات میں جو بڑی پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں اُن میں مسلم لیگ (ن) ،پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔ نون لیگ اور تحریک انصاف کا میدان کارزار جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ شہری اور نیم شہری حلقے ہیں اور ان کے مابین کانٹے دار مقابلہ ہے۔1980 ء کے عشرے کے وسط میں جو غیر جماعتی اسمبلی وجود میں آئی تھی اس کے برسراقتدار گروپ کو مسلم لیگ کا نام دیا گیا۔ اس کا بڑا حصہ اب مسلم لیگ ن ہے جس کی سیاست کا محور و مرکز وسطی اور شمالی پنجاب ہے ۔یہ جماعت مقتدر قوتوں اور بیورو کریسی کی پسندیدہ جماعت رہی ہے ،سوائے مُشرف دور کے کہ اُن دنوں اسٹیبلشمنٹ اور نون لیگ کے مابین فاصلے بڑھ گئے تھے۔ جی ٹی روڈ سے ہٹ کر جنوبی پنجاب اور سرگودھا، میانوالی وغیرہ کے نیم شہری و دیہاتی علاقوں میں جاگیرداروں کے حلقوں میں اب بھی عام آدمی کا ووٹ اپنی برادری کے بڑے یا بااثر اُمیدوار ،جاگیردار یا گدی نشین کی امانت ہوتا ہے جو انتخاب کے روز اس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ ووٹر جانتا ہے کہ تھانے کچہری کے مسائل میں اُس کی برادری کا رُکن اسمبلی ہی اُس کے کام آئے گا۔ چُنانچہ بعض جگہ تو اُمیدوار کے کارندے اپنی برادری کے نچلے طبقے کے لوگوں کے شناختی کارڈ ایک دو روز پہلے حاصل کر لیتے ہیں اور بیلٹ باکس تک اس ووٹ کی امانت کو انتہائی حفاظت کے ساتھ پہنچا دیتے ہیں۔ ایسے اُمیدواروں کو کامیابی کا اہل یعنی Electable کہا جاتا ہے۔ ان کی بھاری تعداد ہوا کا رُخ دیکھ کر یا دوسرے لفظوں میں داخلی یا خارجی اسٹیبلشمنٹ کا اشارہ پا کر اپنے ’’ہزاروں ساتھیوں سمیت‘‘ وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں اور ان کے ووٹر کے ووٹ کی امانت کا رُخ بھی خود بخود تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہاں ووٹ کا فیصلہ کارکردگی پر نہیں ہوتا۔ کارکردگی کتنی بھی ناقص کیوں نہ رہی ہو، علاقائی اور برادری کی عصبیت فیصلہ کن رہتی ہے۔ جی ٹی روڈ کی سیاست میں ،جس کا اہم ترین حصہ لاہور سے پشاور تک ہے، ایک نئی بھرپور سیاسی قوت عمران خان کی پی ٹی آئی ہے جس کی مقبولیت کی وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناقص کارکردگی اور اس سے پیدا ہونے والی شدید مایوسی ہے۔ یہ وہ ووٹر ہے جو کسی حد تک علاقائی اور برادری کی عصبیتوں سے اُٹھ کر اپنے روزمرہ کے مسائل، لوڈ شیڈنگ، امن و امان کی خراب صورت حال اوربدترین گورننس کے علاوہ قومی سطح کے مسائل کی بنیاد پر بھی فیصلہ کر رہا ہے۔امریکہ اور اس کے حلیفوں کی جانب سے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ (Sovereignty)کی بار بار خلاف ورزیوں، ڈرون حملوں اور مختلف طریقوں سے امریکی غلامی کے خلاف عمران خان کے شدید ردعمل سے متاثر ہو کر قومی اُمنگوں کے حوالے سے اپنے ووٹ کا فیصلہ کر رہا ہے۔1970ء کے انتخابات میں بھٹو کی پیپلز پارٹی کی اسی جی ٹی روڈ کے شہری اور نیم شہری حلقوں میں بھاری کامیابی بھی اسی قسم کے ووٹر کی وجہ سے ہوئی تھی جس نے علاقائی عصبیت، فرقہ، نسل، ذات، برادر ی اور جاگیردار سے وفاداری سے بالاتر ہو کر اپنے ووٹ کی امانت کا استعمال کیا تھا۔ مگر اب یہی پیپلز پارٹی نہ تو اُس طرح قومی اُمنگوں کی ترجمانی کرتی ہے اور نہ ہی جی ٹی روڈ کے ساتھ اس کا رشتہ استوار رہ سکا ہے۔ اس لئے پنجاب میں بالعموم اور جی ٹی روڈ پر بالخصوص پی پی پی سیاسی منظر سے بالکل غائب ہوگئی ہے۔ یاد رکھیے جی ٹی روڈ کے ساتھ اُس رہنما کا رشتہ مضبوط ہوگا جو امریکہ اور بھارت کے بارے میں نیشنلزم کے مضبوط مؤقف کا حامل ہوگا۔ بھٹو کی جی ٹی روڈ پر مقبولیت اسی وجہ سے تھی اور آج عمران کی مقبولیت میں بھی اس بات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میاں صاحب بھی ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر باندھ کر لوگوں کی قومی اُمنگوں کی دل جوئی کی کوشش کرتے ہیں۔ اندرون سندھ میں اکثریتی ووٹ کی امانت اب بھی پیپلز پارٹی کے لئے ہے۔ گزشتہ کئی عشروں میں سندھی قیادت کے ساتھ جو کچھ کیا گیا۔ اس کے ردعمل میں سندھی شاونزم آج بھی فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہے۔ سندھی ووٹر کی اکثریت آج بھی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، لاقانونیت، معاشی بدحالی اور دیگر مسائل کے حوالے سے پی پی پی کی انتہائی ناقص کارکردگی کے باوجود اپنے ووٹ کی امانت سندھی شاونزم کی بنیاد پر پی پی پی کے لئے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔ قرائن بتارہے ہیں کہ پی پی پی کا پنجاب ،کے پی کے اور بلوچستان میں صفایا ہو جانے کے باوجود یہ ایک عرصہ تک سندھ کی علاقائی قومی جماعت کی حیثیت سے اپنی اہمیت اور اکثریت برقرار رکھے گی۔ کراچی میں مہاجر ووٹر کے ووٹ کی امانت الطاف بھائی کی ایم کیو ایم کے پاس ہے۔کراچی کے پشتونوں کے ووٹ کی امانت شاہی سید اور لیاری کے بلوچوں کے ووٹ کی امانت وہاں کی مقامی قیادت کے پاس ہے جو ابھی تک پی پی پی کے ہاتھ میں تھی مگر اب نبیل گبول کے ایم کیو ایم میں جانے کے بعد اس میں کیا تبدیلی آئے گی اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مغربی سرحد کے انتہائی پس ماندہ علاقوں یعنی فاٹا، کے پی کے اور بلوچستان کے پشتون ا ضلاع میں معاشرتی پس ماندگی اس قدر زیادہ ہے کہ وہاں کے ووٹر کی امانت گائوں کے مولوی کے پاس ہے اور اُس نے یہ امانت مولانا فضل الرحمن کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے۔ رہا بلوچستان کے بلوچ علاقوں کا معاملہ تو وہاں پر قبیلہ اپنی جگہ ایک قوم ہے اور اس کے ووٹر کا ووٹ اپنے سردار کی قومی امانت ہے۔ اگر سردار اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کے وفادار کنسورشیم کا حصہ بن جاتا ہے تو خودبخود اس ووٹر کا ووٹ اسٹیبلشمنٹ کی امانت بن جاتا ہے اور اگر سردار اسلام آباد کا باغی ہے، اور مبینہ طور پر غیر ملکی طاقتوں سے وفاداری رکھتا ہے تو اس قبیلے کے ووٹر کا ووٹ خود بخود ریاست سے بغاوت کی امانت بن جاتا ہے یا اُس غیر ملکی طاقت کی امانت بن جاتا ہے جو مبینہ طور پر اس بغاوت کو امداد مہیا کر رہی ہے۔ چنانچہ ان حالات میں یہ کہا تو جاسکتا ہے کہ ووٹ قوم کی امانت ہے مگر…!!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں