"HJC" (space) message & send to 7575

ہندوستان بھی راضی، طالبان بھی راضی

مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف جو نئے وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، حیرت انگیز طور پر جمع ضدّین کی نادر صورت پیش کر رہے ہیں۔ بیک وقت ہندوستان بھی اُن سے راضی ہے اور طالبان بھی۔ ایک طرف بھارتی قیادت کی طرف سے میاں صاحب کے لئے بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا اور دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان نے میاں صاحب پر ضامن کی حیثیت سے اعتماد کیا اور نون لیگ کی انتخابی مہم میں کوئی پٹاخہ تک نہ چلایا۔ 11 اور 12 مئی کی درمیانی شب پاکستان کے ٹی وی چینلز نے انتخابی نتائج کے ابتدائی رجحانات میں نون لیگ کی برتری کا عندیہ دیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی جانب سے میاں صاحب کو مبارک باد اور دورۂ بھارت کی دعوت دے دی گئی تھی اور اِدھر سے بھی یہ جانے بغیر کہ پروٹوکول اس کی اجازت نہیں دیتا، میاں صاحب نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو شمولیت کی دعوت دے کر پاک بھارت دوستی کے لئے اپنے پُرخلوص جذبات کا اظہار کر دیا۔ تاہم اگلے روز غالباً دفتر خارجہ سے اشارا پاکر میاں صاحب نے تردید کر دی۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاک بھارت دوستی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اور دونوں ملکوں کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے بے حد ضروری ہے‘ لیکن ان کے مابین یہ معاملہ یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے جس کی گزشتہ 65 سال کی تاریخ خونچکاں اور پیچیدہ ہے۔ ہمارے ہاں ایک مکتب فکر اس معاملے کو یک طرفہ بنا کر پیش کرتا ہے اور ہمیشہ یہ اصرار کرتا ہے کہ نفرتوں کی دیوار پاکستان نے کھڑی کی ہوئی ہے اور یہ صرف پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہے جو پاک بھارت دوستی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گویا بھارت گزشتہ 65 برس سے ہمارے لئے دوستی، پیار، بھائی چارہ اور قیام امن کے لئے ریڈ کارپٹ بچھا کر بیٹھا ہوا ہے اور بھارت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے پاک بھارت دوستی کی راہ میں کبھی کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی؛ حالانکہ اس کے برعکس ہندوستان میں پاک بھارت دوستی کے لئے کام کرنے والے لبرل دانشوروں، صحافیوں اور سیاستدانوں کی جانب سے اُن رکاوٹوں کا برملا اظہار کیا جاتا ہے جو بھارتی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پیدا کرتی ہے اور اس نے کئی بار پاک بھارت دوستی کا عمل بہت قریب پہنچنے کے باوجود سبوتاژ کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی مادی بنیاد پنجاب کا تاجر اور صنعتکار ہے جو بھارت کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لئے بے چین ہے۔ دو عشرے پہلے یہ صورت نہ تھی ۔بینظیر کی پہلی ٹرم (88-90ء) کے دوران جب بی بی نے پاک بھارت تعلقات کے لئے جوش و خروش دکھایا اور جولائی؍89ء میں را جیو گاندھی کا دورہ ٔپاکستان ہوا تو میاں نواز شریف نے بی بی کے لئے ’’سکیورٹی رسک‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ بی بی کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے خالصتان تحریک نیٹ ورک کی پوری فائل بھارت کے حوالے کر دی جس کی مدد سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اس نیٹ ورک کو تباہ کر دیا تھا۔ لیکن میاں صاحب کی دوسری ٹرم (1997-99ء) کے دوران ان کے رویے میں تبدیلی آئی جب دونوں ملکوں کے مابین دبئی کے راستے بالواسطہ تجارت کا حجم کافی بڑھ چکا تھا اور اب اسے بلاواسطہ یا براہ راست کیا جانا مقصود تھا۔ چنانچہ نہ صرف میاں صاحب اسکے لئے جوش و خروش سے آگے بڑھے بلکہ اُدھر سے واجپائی صاحب نے بس یاترا کی اور اعلان لاہور کے ذریعہ اس عمل کو آگے بڑھایا۔ مگر کہا جاتا ہے کہ مشرف کی کارگل مہم جوئی کی وجہ سے یہ عمل سبوتاژ ہو گیا۔ تاہم 2001ء میں اسی مشرف نے آگرہ کا دورہ کیا اور واجپائی کے ساتھ دو روزہ مذاکرات کے نتیجہ میں ایک مسودہ تیار ہوا مگر آخر لمحہ پر دستخط نہ ہو سکے جس کے لیے بعض حلقے واجپائی کابینہ کے وزیر داخلہ(بعد میں نائب وزیر اعظم) ایل کے ایڈوانی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں جنہوں نے مشرف کے اس وعدہ پر اعتماد نہیں کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں مجاہدین بھیجے جانے کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ 2002ء میں مقبوضہ کشمیر میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ چودھری اعتزاز احسن پر اعتراض کرنے والے نواز شریف جب 1999ء میں پرویز مُشرف کے ہاتھوں معزول ہوئے تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے ان کے بارے میںیہ انکشاف کیا تھا کہ انکی فراہم کردہ معلومات کی مدد سے ہی وادی کشمیر میں پانچ عسکریت پسندوں کو سٹنگر میزائل سمیت گرفتارکرنے میں مدد ملی تھی۔ کچھ عرصے سے پاک بھارت تعلقات کو یک طرفہ نظریے سے دیکھنے والے بھارت نواز حلقوں اور میاں نواز شریف کے مابین گاڑھی دوستی چھن رہی ہے۔ دوسری جانب میاں صاحب کے تعلقات انتہائی دائیں بازو کی مذہبی قوتوں کے ساتھ بھی ہیں۔ قریباً ڈیڑھ سال پہلے سیفماکے اجلاس میں ان کی بھارت سے دوستی کے لئے جذبات سے لبریز تقریر، ان کے دائیں بازو کے حامیوں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنی۔ حالیہ نگران حکومت کے لئے میاں صاحب نے عاصمہ جہانگیر کا نام نگران وزیراعظم کے لئے پیش کیا تو تب بھی یہی صورت پیش آئی۔ نجم سیٹھی کے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے تقررپر نون لیگ کے اتفاق کرلینے کو بھی ان کے دائیں بازو کے حامیوں نے ناپسند کیا۔ اب صورت یہ ہے کہ انتخابات میں نون لیگ کی توقع سے بھی زیادہ سیٹیںلے جانے کے نتیجہ میں ان کے مخالف بالخصوص تحریک انصاف کے لبرل نوجوانوں کی طرف سے دھاندلی کے خلاف احتجاجی دھرنے دئیے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت نواز لبرل حلقے ان انتخابات کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہیں۔ میاں صاحب کو سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے سویلین جمہوریت کا چیمپئن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک طالبان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے تین حضرات کی گارنٹی پر بھروسہ کیا تھا۔ نواز شریف، مولانافضل الرحمن اور منور حسن۔اب منور حسن کی جماعت اسلامی صوبہ کے پی کے میں تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہو چکی ہے‘ میاں صاحب اور مولانا فضل الرحمن بھی بغل گیر ہو رہے ہیں۔ میاں صاحب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں اُتنے ہی پرجوش ہیں جتنے بھارت کے ساتھ دوستی کے لئے۔ بھارت کا اولین مطالبہ یہ ہے کہ آپ اُس کے ملک میں دہشت گردوں کو بھیجنے کا سلسلہ بند کریں۔ اِدھر دفاع پاکستان کونسل اور طالبان کی دیگر ذیلی تنظیموں کا سارا دارومدار اسی جہاد پر ہے۔ مذاکرات ’’کچھ لو کچھ دو ‘‘کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ جب آپ طالبان کے ساتھ مذاکرات کریں گے تو اُنہیں کیا دیں گے؟ وہ شمالی وزیرستان میں اپنی جو امارت قائم کرچکے ہیں وہ اس میں توسیع چاہیں گے۔ ہندوستان کااولین مطالبہ پورا کرنے کے لئے جہادیوں کی موجودہ سرگرمیاں بند کرنا ہوں گی۔ بیرونی اسٹیبلشمنٹ کی منصوبہ بندی کے تحت تو یہ بہترین بندوبست ہے کہ میاں صاحب پاکستان کی مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے موزوں ترین آدمی ہیں۔ اس طرح افغانستان سے 2014ء میں نیٹو افواج اور بھاری مقدار میں جمع اسلحہ پاکستان کے محفوظ راستے سے نکالا جاسکے گا ۔لیکن میاں صاحب بیک وقت ہندوستان اور طالبان دونوں کو کس طرح راضی کریں گے؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں